تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     14-01-2014

دو نہیں تین!

پہلے ایک جملۂ معترضہ۔ میرا احساس ہے کہ Narrative کا ترجمہ 'بیانیہ‘ اردو کے صوتی مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس لیے میں اس کالم میں 'بیانیہ‘ کے بجائے 'نقطہ نظر‘ یا 'موقف‘ کا لفظ اختیار کر رہا ہوں۔


ریاست اور سماج کے باب میں ہمارے ہاں دو نہیں تین نقطہ ہائے نظر ہیں۔ یہ تقسیم بھی غیرحقیقی ہے کہ ایک نقطہ نظر 'مذہبی اور روایتی‘ ہے اور دوسرا 'جمہوری اور روشن خیال‘۔ یہ تقسیم بتاتی ہے کہ 'مذہبی اور روایتی‘ سے مراد ہے 'جمہوریت اور روشن خیالی‘ کی نفی۔ یا روشن خیال اور جمہوری وہی ہو سکتا ہے جو غیرمذہبی اور غیرروایتی ہو۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے۔ یہ اصطلاحیں مغرب کے سماجی پس منظر میں ظاہر ہوئیں۔ جب ہم ان کا اطلاق اپنے سماج پر کرتے ہیں تو اس پس منظر کو نظر انداز کر دیتے ہیں‘ جس سے فکری ابہام پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کی بہت سی مذہبی جماعتیں جمہوری ہیں۔ وہ انتخابات کے ذریعے تبدیلی کی قائل ہیں۔ اسی طرح وہ تشدد کے حق میں بھی نہیں۔ اس ضمن میں جمعیت علمائے اسلام کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اگر اسلامی جمعیت طلبہ کے معاملات کو جماعت اسلامی کے سر نہ ڈالا جائے تو جماعت نے بھی طویل عرصہ جمہوری جدوجہد کی ہے۔ مسلسل انتخابی شکست کے سبب، چند برسوں سے اس جماعت میں دوسرے رجحانات بھی جنم لے رہے ہیں مگراس وقت یہ میرا مو ضوع نہیں۔ جماعت نے اپنے دستور میں لکھ رکھا ہے کہ وہ ملکی آئین کے تحت جمہوری طریقے سے تبدیلی لائے گی۔ یہ بھی لکھا ہے کہ کسی خفیہ طریقے کو نہیں اپنایا جائے گا۔ دلچسپ بات ہے کہ دنیا بھر کی طرح، ہمارے ہاں کے اشتراکیت پسند بھی غیرجمہوری طریقے سے تبدیلی کو جائز سمجھتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان کے فکری رحجانات بدلے ہیں تو اب یوں تاثر دیتے ہیں کہ جیسے وہ جنم جنم کے جمہوری ہیں۔ پاکستان میں اشتراکیوں پہ تو یہ الزام رہا ہے کہ انہوں نے غیرجمہوری طریقے سے اقتدار پر قبضے کی کئی کوششیں کیں لیکن اسلام پسند جماعتوں پہ یہ الزام کبھی نہیں لگا۔ ایک بار ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی پر پابندی کے لیے یہ بہانہ تراشا گیا لیکن عدالت نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔ اس لیے یہ مقدمہ تاریخی طور پر ثابت نہیں کہ مذہبی لوگ لازماً غیرجمہوری ہیں۔


اصلاً پاکستان میں تین نقطہ ہائے نظر ہیں؛ ایک مذہبی انتہا پسند، دوسرا سیکولر انتہا پسند اور تیسرا اعتدال پسند۔ مذہبی انتہا پسند بلاشبہ غیرجمہوری ہے اور کسی روشن خیالی کو قبول نہیں کرتا۔ وہ خود کو حق پر سمجھتا ہے اور یہ مان کر دینے کے لیے آمادہ نہیں کہ دین کی کوئی دوسری تعبیر بھی ممکن ہے۔ وہ تشدد کے راستے تبدیلی کو درست قرار دیتا ہے۔ ہمارے محترم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اس کے قائل تھے۔ طالبان تو معلوم ہی ہیں۔ اس کے علاوہ خلافت کا آوازہ لگانے والے بھی اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ ان میں ایک طبقہ ایسا ہے جس کے نامہ اعمال میں ان گنت بے گناہوں کا قتل درج ہے۔ یہ کوئی الزام نہیں، ان کا اپنا اعتراف ہے۔ وہ جمہوری مذہبی جماعتیں بھی اب ایک درجے، میں اس طبقے کا حصہ ہیں جو ان کی مذمت نہیں کرتیں اور ان کے حق میں دلائل تراشتی ہیں۔ ان کے ہم نوا بعض کالم نگار المعروف دانش ور بھی ہیں۔ سیکولر انتہا پسند وہ ہیں جو مذہبی انتہا پسندوں کی طرح کسی دوسرے موقف کو درست سمجھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ طبقہ اگرچہ اقلیت میں ہے لیکن اپنی رائے کا نفاذ چاہتے ہیں۔ اگر عوام کی اکثریت اسلامی آئین کو قبول کر لے تو یہ اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے، ان کا یہ خیال ہے کہ ان کی جمہوری شناخت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا اصرار ہے کہ ریاست ان کی مرضی سے قانون سازی کرے۔ دوسرے کے لیے ان کے لہجے میں تشدد ہوتا ہے اور انتہا پسندی بھی؛ تاہم اس طبقے نے اپنی بات منوانے کے لیے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا۔ کسی پر بزور اپنی بات نافذ نہیں کی۔ ان کا تشدد زبان و بیان تک محدود ہے۔ کسی بے گناہ کا قتل ان کے نامہ اعمال میں درج نہیں۔


تیسرا طبقہ اعتدال پسند ہے۔ اس میں مذہبی لوگ بھی ہیں اور سیکولر بھی۔ یہ طبقہ حقیقی معنوں میں جمہوری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ملک کا آئین اکثریت کی رائے پر مبنی ہونا چاہیے۔ سماج میں جمہوری اقدار کا فروغ ہونا چاہیے۔ ہر کسی کو اپنی بات کہنے کی


آزادی ہو۔ رائے عامہ کو بدلنے کا موقع ہونا چاہیے۔ اگر اکثریت اس کی رائے سے مختلف موقف رکھتی ہے تو وہی نافذالعمل ہو؛ تاہم اس کی یہ آ زادی بر قرار ہو کہ وہ تحریروتقریر سے اس موقف کو بدلنے کی کوشش کرے۔ اس طبقے میں جو لوگ مذہبی ذہن رکھتے ہیں، وہ اپنی رائے کو حتمی نہیں سمجھتے۔ اپنی بات دلیل کے ساتھ کہتے اور دوسرے کو بھی یہ حق دیتے ہیں۔ وہ مذہب کے نام پر تشدد کی ہر صورت نفی کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذہب اصلاً تزکیہ نفس کے لیے ہے۔ جب انسان اجتماعی سطح پر اس کو اختیار کرتا ہے تو اس کا ظہور اس کے سماجی اور سیاسی اداروں میں بھی ہوتا ہے۔ یہی نفاذِ اسلام کی فطری ترتیب ہے۔ وہ بنیادی انسانی حقوق کے باب میں کسی مذہبی امتیاز کو جائز نہیں سمجھتے۔ سماجی ارتقا کے قائل ہیں اور کسی دینی تعبیر کو دائمی نہیں کہتے، الّا یہ کہ زمانہ خود اس کے حق میں فتویٰ دے۔


سیکولر پس منظر رکھنے والے اعتدال پسند اگرچہ مذہبی اساس کی بنیاد پر ریاستی اداروں کی تشکیل کو درست نہیں سمجھتے؛ تاہم وہ عوام کی اکثریت پر اپنا موقف بزور نافذ نہیں کرتے۔ وہ صرف اذنِ کلام چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کے اس حق کو تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنے لیے جو تصورِ حیات اور اسلوبِ حیات، پسند کریں، اس کو کسی خوف کے بغیر اختیار کریں۔ ریاست کا جبر ہو نہ کسی گروہ یا فرد کا۔ یہ طبقہ سیکولرازم کو مذہب دشمن قوت نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک سیکولرازم مذہبی جبر کی نفی اور شخصی حوالے سے مذہبی آزادی کے اثبات کا نام ہے۔


ریاست اور سماج کے باب میں ہمارے ہاں یہی نقطہ ہائے نظر (Narratives) پائے جاتے ہیں۔ جمہوریت کثرتِ رائے کے احترام کا نام ہے تو اس کا لازماً سیکولر ہونا ضروری نہیں۔ مغربی پس منظر میں دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اس لیے جب ہمارے ہاں لوگ جمہوری پاکستان کی بات کرتے ہیں تو سیکولرازم کو ان کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں یہ ماننے میں تکلف ہوتا ہے کہ 97 فیصد مسلم آ بادی کے ملک میں عوام کی اکثریت اگر اسلام کو ریاست کا مذہب مان لے تو ریاست اس کے باوصف بھی جمہوری ہی رہے گی۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ اصطلاحوںکو مقامی تہذہبی و سماجی پس منظر میں سمجھنا چاہیے اور ان کو اپناتے وقت احتیاط کر نی چاہیے۔ پاکستان میں سیکولرازم کے خلاف بہت سی باتیں اس لیے کی جاتی ہیں کہ لوگ ابھی تک صدیوں پہلے کی گئی تعریف کو بنیاد بنا تے ہیں۔ یہ اصطلاح اپنے لغوی مفہوم سے کہیں آگے نکل چکی اور ہر علاقے میں اس نے وہاں کا تہذیبی و سماجی رنگ اختیار کرتے ہوئے، ایک مقامی لبادہ پہن لیا ہے۔ اسی طرح جو لوگ سیکولر ہونے کے لیے مذہب کی نفی کو ناگزیر سمجھتے ہیں، وہ اسلام کو صدیوں پہلے کی مغربی مسیحیت پر قیاس کرتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ ہمیں ان نظری مو ضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے مقامی تہذیبی و سماجی پس منظر کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے ہم خلطِ مبحث سے بچ سکتے ہیں اور شاید فکری فاصلوں کو بھی کم کر سکتے ہیں۔ میرا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے مذہبی اور سیکولر انتہا پسندی میں بھی کمی آ سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved