میلاد النبیﷺ کے جلوس اور اجتماعات‘ نبی کریم ﷺ کے حوالے سے کیے گئے۔ پریشانی‘وفاقی اور صوبائی حکوموں کو رہی کہ ''شمع رسالتؐ کے پروانوں‘‘ کا تحفظ یقینی کیسے بنایا جائے؟ سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے۔اضافی فورسز منگوائی گئیں۔ ہر شہر کاانتظام غیرمعمولی نگرانیوں اور پہریداریوں میں دے دیا گیا۔ کم و بیش پورے ملک میں موبائل ٹیلیفون سروس بند کر دی گئی۔ موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری پر پابندی لگا دی گئی۔ اس مبارک دن کے لیے خصوصی آپریشن سنٹرز اور نگران ٹیمیں ‘ ہنگامی ڈیوٹیوں پر لگائی گئیں اور پھر رات ڈھلی تو سارے ملک میں اطمینان کا سانس لیا گیا‘ صرف اس بات پر کہ عید میلاد امن و امان سے گزر گئی۔میں حضور پاکﷺ کے نام پر جشن میلاد کا انعقاد کرنے اور جلوس نکالنے والوں کی بے احتیاطیوں پر زیادہ بات نہیں کر سکوں گا، کیونکہ میں ''باخدا دیوانہ باشد بامحمدؐ ہوشیار‘‘کے تقاضوں سے قدرے واقف ہوں اور ''قدرے‘‘ کی وجہ سے ہی خوفزدہ بھی رہتا ہوں کہ منطقی موشگافیاں کرتے ہوئے نادانستہ بھی دائرۂ خیال حدِادب سے باہر نہ جھانک لے۔ مگر ایک بات اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ حضورپاکﷺ کا ذکر بھی آ جائے‘ تو مسلمان غیرشعوری طور پر مودب ہو جاتے ہیں، کیونکہ اس معاملے میں نہ کوئی مسلک باقی رہتا ہے نہ کوئی فرقہ ۔ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اگر ایسی محفل‘ اجتماع یا جلوس ‘ اسلامی جمہوریہ کے اندر ہوں‘ جہاں 90فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یوم میلاد کے مظاہروں میں خطرہ کیسا؟ کس سے؟ اور کیوں؟ہم کس سے ڈر رہے تھے؟ کس کا خوف تھا؟ جس ذات پاکﷺ کے نام پر جشن منائے جا رہے تھے اور جہاں 90فیصد سے زیادہ مسلمان اس کے ماننے والے ہیں‘ وہاں امن و امان کے لیے کیا خطرہ؟ اگر ہے‘ تو پھر کہیں نہ کہیں ہمارے اندر ہی کھوٹ ہو سکتا ہے۔ جب اندر کھوٹ ہے‘ تو سارے جشن نمائشی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اصل میں سیاسی طرز کے یہ جلوس اور مظاہرے‘ اسلامی تعلیمات اور احکامات کی روشنی میں ناگزیر نہیں۔ میلاد کے موقع پر سیرت النبیﷺ کے اجتماعات ماضی میں بھی ہوتے تھے‘ جن میں حضورپاکﷺ کی تعلیمات کو دہرایا جاتا۔ سنت نبویﷺ کی روشنی میں اپنے کردار و اعمال کا جائزہ لیا جاتا۔ اپنی کوتاہیاں تلاش کر کے‘ اصلاح احوال کے لئے دعائیں کی جاتیں اور حمد اور درود پڑھ کر اظہار بندگی و عقیدت کیا جاتا۔ جلوسوں اور مظاہروں کے یہ سارے سلسلے فرقہ ورانہ مقابلے بازی کے نتیجے میں سامنے آئے اور ہر ملک میں مقامی رسوم اور رواجوں کے اندر جڑیں پکڑیں۔ یہ سلسلہ پورے برصغیر میں مختلف مقامی حالات کے تحت‘ مختلف طور طریقوں کی شکل میںآگے بڑھا۔ اس فرق کا اندازہ صرف پاکستانی شہروں میں‘ عاشورہ کی تقریبات سے کیا جا سکتا ہے۔ تعزیوں کی ساخت‘ تقریبات کے انداز‘ ماتم کے طریقے‘ غرض ہر جگہ آپ کو مقامی رنگ ضرور نظر آئے گا اور پھر یہی تقریبات مخصوص سیاسی مفادات کے تحت کیسے معاشرے پر اثرانداز ہوتی ہیں؟ اس کی مثال میں لاہور سے دے سکتا ہوں۔
اسلام پورہ (سابق کرشن نگر) لاہور کی ایک بڑی آبادی ہے۔ یہاں کے انتخابی حلقے میں ایک شیعہ لیڈر اپنے سماجی اور عوامی رابطوں کی بنا پر زیادہ ووٹ لے جاتا، لیکن یہ فرقہ ورانہ بنیاد پر نہیں ہوتے تھے۔ حلقے میں زیادہ ووٹر سنی العقیدہ تھے۔ مخالف امیدوار نے صورتحال کو مذہبی رنگ دے کر اپنی انتخابی طاقت حاصل کرنے کی ترکیب لڑائی اور عقیدت مندی کے انداز میں عید میلادالنبیؐ کا جلوس نکالنا شروع کر دیا۔ اس کی یہ ترکیب کامیاب رہی اور کرشن نگر کی انتخابی سیاست فرقہ واریت کے زیراثر آ گئی اور اہل تشیع کی انتخابی طاقت ‘ فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کرشن نگر میں 10ویں محرم کی تقریبات پیچھے رہ گئی ہیں اور عید میلادالنبیؐ کے اجتماعات اور جلوس منظر پر چھا چکے ہیں۔ میرا بچپن جھنگ میں گزرا ہے۔ وہاں بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی۔ جھنگ اور جھنگ صدر جڑواں شہر ہیں۔ ان میں سنی اکثریت رہتی ہے جبکہ ضلع جھنگ کی کچھ انتخابی نشستوں پر شیعہ لیڈر کامیاب ہو اکرتے تھے اور قومی سطح پر یہی شیعہ لیڈر زیادہ چھائے رہے۔ شاہ جیونہ خاندان سرفہرست تھا۔ پہلے میجرمبارک صوبائی سیاست میں سرگرم تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی کرنل عابد حسین‘ وفاقی وزیر بنے اور حکمران جماعت ریپبلکن پارٹی میں اعلیٰ عہدہ حاصل کر کے حقیقی حکمرانوں کے ہم نشین ہو گئے۔ ان کے مخالف لیڈروں نے چند مولوی حضرات کو شیعہ مسلک کے خلاف پراپیگنڈا کرنے پر لگا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جھنگ فرقہ ورانہ منافرت کی لپیٹ میں آنے لگا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ شیعہ مسلک کی مخالفت کرنے والے انتہاپسند یہیں سے منظم ہوئے اور وہی شیعہ سنی‘ جو اس علاقے میں صدیوں سے امن اور محبت کے ماحول میں رہتے آئے تھے‘ ایک دوسرے کی مخالفت میں انتہائوں کو چھونے لگے۔ اگر آپ شیعہ سنی اختلافات کی بنیادیں تلاش کریں تو ان میں سیاسی اور سماجی شعور سے عاری‘ تنگ نظرسیاستدانوں کا ہاتھ نظر آئے گا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ مذہبی جماعتوں نے فرقہ ورانہ انتہاپسندی کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز نہیں بنایا تھا۔ دیوبندی جو جمعیت علمائے ہند اب پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کے نام سے کام کرتی ہے‘ اس نے اپنی سیاست کو مذہبی فرقہ واریت کے زیراثر نہیں آنے دیا۔ آزادی سے پہلے وہ قوم پرستی کی سیاست کرتی رہی اور آزادی کے بعد وہ اپنے مذہبی تصورات کے زیرسایہ قو می سیاست میں حصہ لیتی رہی۔ فرقہ واریت کو اپنی سیاست کا محور کبھی نہیں بنایا۔یہی کچھ جماعت اسلامی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔ یہ جماعت بھی ملک کے سماجی اور سیاسی مسائل پر غور و فکر اور اپنے خیالات کی تبلیغ کرتی رہی۔ انتخابی عمل میں حصہ بھی لیا لیکن فرقہ واریت پر کبھی انحصار نہیں کیا۔ البتہ پاور گیم میں یہ جنرل ضیاء الحق کی حامی اور بعد ازاں شریک اقتدار بنی۔ ضیاء الحق نے اپنی سیاست میں فرقہ واریت کو ضرور استعمال کیا، لیکن جماعت اسلامی اس طرف نہیں گئی۔ ملک میں زیادہ تعداد اہل سنت والجماعت کی ہے جسے مولانا نورانی مرحوم سواداعظم کہا کرتے تھے ، مگر انہوں نے بھی اپنی سیاست میں فرقہ واریت کے اثرات غالب نہیں آنے دیے۔ وہ قومی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے اور سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتوں کو دیگر قومی جماعتوں کے ساتھ رکھا۔ حکومت مخالف تحریکوں میں سب نے مل کر حصہ لیا اور کم و بیش ہر سیاسی محاذ میں ایک دوسرے کے ساتھی رہے۔
پی این اے کے دور میں یہ دلچسپ حقیقت محفلوں میں زیربحث آیا کرتی تھی کہ جب مشترکہ قیادت کے اجلاس کے دوران نماز کا وقت آتا تو یہی ''متحدہ ‘‘محاذ منتشر ہو کر اپنے اپنے ہم مسلک امام کے پیچھے الگ الگ نماز پڑھتا۔ ایک نماز کی امامت مولانا مفتی محمود فرماتے اور دوسری طرف کی امامت مولانا شاہ احمد نورانی فرمایا کرتے۔ گویا عملی طور پر سیاست میں حصہ لینے والے علمائے کرام اپنی سیاست کو مذہبی عقائد سے الگ رکھا کرتے تھے۔ ہمارے بہت سے مبصراور دانشور‘ قومی سیاست میں مذہبی انتہاپسندی کی ذمہ داری مولوی حضرات پر ڈالتے ہیں لیکن ایک محقق کی نظر سے مختصر سی قومی تاریخ کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ناعاقبت اندیش‘ علمی صلاحیتوں سے محروم اور سماجی سائنس سے نابلد سیاستدانوں نے مذہبی اور فرقہ ورانہ جذبات کا بے تحاشا استعمال کیا۔انہی کی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے کہ ماضی میں انہوں نے اپنی سیاست کے لیے جن مولویوں کو استعمال کیا تھا اور آج وہ مولوی انہیں اپنی سیاست کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جمہوریت میں ووٹ کی طاقت فیصلہ کن ہوتی ہے، مگر سیاستدانوں نے دوسرے راستے اختیار کر کے‘ مسلح طاقت کا استعمال کیا جو لیاقت علی خان سے شروع ہوئی۔ مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں آئی اور اب پورے پاکستان میں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ آنے والے کئی عشروں تک پاکستان میں ووٹ کی طاقت غالب آ سکتی ہے۔ میں نااہل اور ناعاقبت اندیش سیاستدانوں کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا کر خیبرپختونخوا میں جیتے اور اپنی ''تبدیلی‘‘ کو جماعت اسلامی کی گود میں جا بٹھایا۔ واہ! کیا تبدیلی ہے؟ دوسری طرف حکمران جماعت بھی کم نہیں۔ وہ اپنا''21ویں صدی کا ویژن‘‘ لے کر طالبان کے حجرے میں بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈ رہی ہے۔