کسی کو ہراساں کرنا نواز لیگ
کا کلچر نہیں ہے... پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''کسی کو ہراساں کرنا نواز لیگ کا کلچر نہیں ہے‘‘ اور اگرکوئی ہماری طاقت دیکھ کر خود ہی یرک جائے تو ہمارا کیا قصور ہے؛ چنانچہ ہم نے کسی کو ہراساں نہیں کیا‘ماسوائے اس کے کہ طارق ملک کے گھروالوں کو حفظِ ماتقدم کے طور پر صرف یہ بتایا تھا کہ ان کے لیے رہائش کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے : ع
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
اورجہاں تک اکائونٹنٹ جنرل ریونیو طاہر محمود کا تعلق ہے تو انہیں جبری نہیں بلکہ ان کے اصرار پر چھٹی پر بھیجا گیا تھا کیونکہ وہ بعض وزارتوں کی کرپشن کے معاملات نیب کو بھجوانے پر خود ہی بہت شرمندہ تھے اور انہیں احساس ہو گیا تھا کہ اللہ کی ذات ستارالعیوب ہے تو اس کے بندوں کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے جبکہ چودھری رشید کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک قومی روزنامہ سے گفتگو کر رہے تھے۔
گھروں کے لیے بھی گیس نہیں ہے‘
معذرت خواہ ہیں... وزیر پٹرولیم
وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''گھروں کے لیے بھی گیس نہیں ہے‘ اس لیے معذرت خواہ ہیں‘‘ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں یعنی جو لوگ تبخیرِ معدہ کا شکار ہیں‘ انہیں اپنی گیس کا علاج کروانے کی بجائے اسے کام میں لانا چاہیے کیونکہ ان کے تو گھر میں ہی گنگا بہہ رہی ہے لہٰذا انہیں حکومت یا کسی اور کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''گیس کی قلت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کا زیادہ تر حصہ چوری ہو رہا ہے‘‘ جبکہ اس میں بڑے بڑے صنعتکار بھی شامل ہیں جنہیں روکنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسی زیادہ تر صنعتیں حکومتی احباب کی اپنی ہیں اور کوئی بھی عقلمند آدمی اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں مار سکتا جبکہ کلہاڑیاں بازار سے دستیاب بھی نہیں ہیں لہٰذا ایک مجبوری یہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بلوچستان کے شہروں کو گیس مہیا کرنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے‘‘ جس کا سارا انحصار پاک ایران گیس پائپ لائن پر ہے جس کا مستقبل ہر روز مخدوش سے مخدوش تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر بات کر رہے تھے۔
غداری کیس میں طیارہ سازش
جیسی ڈیل نہیں ہوگی... مشاہد اللہ
سینیٹ میں نواز لیگ کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ نے کہا ہے کہ ''غداری کیس میں طیارہ سازش جیسی ڈیل نہیں ہو گی‘‘ کیونکہ جب اور کئی قسم کی ڈیلیں موجود ہیں تو طیارہ کیس جیسی فرسودہ ڈیل کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اکرم شیخ صاحب کو اسی لیے سعودی عرب بھیجا گیا ہے کہ وہ کسی مناسب ڈیل کا نمونہ وہاں سے منظور کروا کر لے آئیںجسے یہاں حتمی شکل دے کر اس مصیبت سے پیچھا چھڑایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''مشرف کیس کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے‘‘البتہ اگر فیصلے سے پہلے ہی کوئی تصفیہ ہو جاتا ہے تو عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں کا ہے جس پر حکومت عمل پیرا ہے‘‘اور خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے تاکہ انہیں شروع کرنے کا کوئی طریقہ خواب میں نظر آ سکے اور یہ نیک کام اللہ کا نام لے کر آغاز کیا جا سکے بلکہ بقول چودھری نثار صاحب‘مذاکرات تو ہو بھی رہے ہیں۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس سے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو کشمیر کے حصے بخرے
نہیں کرنے دیں گے...گیلانی
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''حکومت کو کشمیر کے حصے بخرے نہیں کرنے دیں گے‘‘اوراس کے لیے میں اکیلا ہی کافی ہوں کیونکہ عدالت کی طرف سے نااہل قرار پانے کے بعد میں زیادہ طاقتور ہو گیا ہوں جبکہ حکومت کی میعاد کے خاتمے کے ساتھ ہی دیگر کار ہائے خیر کی مصروفیتیں بھی نہیں رہیں جن کی اب یاد آتی ہے تو سینے پر سانپ لوٹ جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آج کل سانپوں کو بھی سینوں پر لوٹنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں ہے‘کیسا زمانہ آ گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ''عوام کے تعاون کے بغیر کوئی بھی جنگ جیتی نہیں جا سکتی‘‘ جبکہ ہم نے تو یہ جنگ عوام کے خلاف بھی جیت کر دکھا دی ہے اور آئندہ بھی موقع ملا تویہ شغل جاری رکھیں گے کیونکہ جمہوریت کا حسن بھی یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''گیٹس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حقائق کا علم نہیں‘‘اگرچہ علم تو ہمیں بھی نہیں ہے کیونکہ ہم ذرا دیگر مُفید کاموں میں مصروف تھے اور ساری دُنیا جانتی ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی کام احسن طریقہ سے سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہو ر میں ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
اوراب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل:
یہ بات ٹھیک نہیں‘ بام پر تو آکسی دن
ترس گئی ہیں نگاہیں‘ نظر تو آ کسی دن
کہ ہو سکے تجھے اندر کا حال بھی معلوم
کِس دریچۂ دل سے گُزر تو آ کسی دن
وہ ایک بار کا آنا بھی کوئی آنا تھا
جو یاد بھی نہیں‘ بارِدگر تو آ کسی دن
ابھی تو ہم نے تجھے ہر طرف سے دیکھنا ہے
گھڑی ہی بھر کے لیے سر بسر تو آ کسی دن
یہ شہرِخواب ہے سارا اُداس تیرے لیے
یہاں ہوا کی طرح دربہ در تو آ کسی دن
جو اتنا نفع کمایا ہے اہلِ دُنیا سے
ہماری سمت، اُٹھا کر ضرر، تو آ کسی دن
یہ ہونے والا ہے لوگوں کے ساتھ کیا کیا کُچھ
جو چاہیے کوئی تازہ خبر‘ تو آ کسی دن
یہاں بہت ہے ترے ذوقِ شعر کا چرچا
پرکھنے کو مرے عیب و ہُنر تو آ کسی دن
تلاش اُس کی بھی لازم سہی‘ ظفر‘ لیکن
زمانے ہو گئے ہیں یار‘ گھر تو آ کسی دن
آج کا مقطع
سفینہ سمت بدلتا ہے اپنے آپ‘ ظفر
کوئی بتائے مرا بادباں کہاں گیا ہے