تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     17-01-2014

47 Ronin

ویک اینڈ پر اکثر بچوں کے ساتھ فلم دیکھنے نکل جاتا ہوں ۔ پورا ہفتہ میں اور میرے بچے ویک اینڈ کا انتظار کرتے ہیں ۔ فلم کے دوران کھانا پینا چلتا رہتا ہے اور ہماری عیاشی پاپ کارن، سموسے اور چپس ہوتے ہیں۔ اس ویک وینڈ پر بھی جب رات گئے نئی انگریزی فلم 47 Ronin ختم ہوئی اور ہال کی لائٹس آن ہوئیں تو میں نے اپنے قریب بیٹھے دونوں بیٹوں سے پوچھا: فلم کیسی لگی؟
دونوں بولے: بابا فلم تو اچھی تھی لیکن اس کا اختتام پسند نہیں آیا۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا: کیا مطلب؟ فلم بھی اچھی لگی لیکن پھر بھی اداس ہو۔ 
جواب میں ایک بولا: بابا‘ ان 47 بہادر جاپانی جنگجوئوں کو اس طرح خاموشی سے اپنے بادشاہ شوگن کے حکم پر خودکشی نہیں کر لینی چاہیے تھی ۔ اتنی بڑی جدوجہد کے بعد اگر انہوں نے اپنے قبیلے کے سربراہ کی موت کا بدلہ لینے کے بعد خودکشی ہی کرنی تھی تو پھر اس سب کا کیا فائدہ ؟ 
جاپان میں جاگیرداری کا دور دورہ تھا ۔ ایک نوجوان کائی جو آدھا جاپانی اور آدھا انگریز تھا‘ وہ جاپان کے ایک گائوں میں رہتا تھا جس کا سربراہ آسانو ایک اچھی فطرت کا مالک تھا۔ کائی جب چھوٹا سا بچہ تھا تو وہ آسانو کو ایک جنگل میں ملا تھا اور اس نے اس بچے کو اپنا لیا تھا۔ اگرچہ سمررائی قبیلے کے اوشی نے اس انگریز بچے کائی کو قبول نہیں کیا تھا۔ تاہم جب وہ بچہ کائی جوان ہوا تو وہ ایک بہترین جنگجو کے روپ میں سامنے آیا اور اپنے لارڈ آسانو کی بیٹی میکا کے رومانس میں گرفتار ہوگیا۔ 
جاپان کے اس علاقے کا شوگن (جو جاپان میں ایک بادشاہ کی طرف سے نامزد ہوتے تھے) اس علاقے میں جانے کا خواہش مند تھا۔ اس سے پہلے اس شوگن کے ایک لارڈ کیرا نے اس گائوں کا دورہ کیا اور وہ بھی لارڈ آسانو کی بیٹی میکا کی خوبصورتی سے متاثر ہوگیا ۔
لارڈ کیرا نے سمرائی قبیلے اور اپنے جنگجوئوں کے درمیان ایک لڑائی کا بندوبست کیا ۔ اس لڑائی میں کائی لڑا لیکن شکست کھا گیا اور اسے سخت بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی رات لارڈ کیرا نے اپنی چڑیل ایڈوائز کی مدد سے آسانو کو یہ خواب دکھایا کہ لارڈ کیرا اس کی بیٹی میکا کے ساتھ تنہائی میں موجود ہے تو وہ سیدھا خواب سے جاگ کر غیرمسلح مہمان کیرا پر حملہ کر دیتا ہے جس کی جاپانی روایت میں سزا موت تھی۔ شوگن کے سامنے معاملہ لایا گیا تو اس نے آسانو کو سزائے موت دی لیکن اسے اجازت دی کہ وہ جاپانی روایت کے مطابق عزت سے خودکشی کر لے۔
شوگن نے اوشی قبیلہ کے ان لوگوں کو رونن کا لقب دے دیا؛ تاہم اس قبیلے کے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے قبیلے کے سربراہ کی خودکشی کا بدلہ نہیں لیں گے۔ لارڈ کیرا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ آسانو کی خوبصورت بیٹی میکا سے شادی کرنا چاہتا ہے؛ تاہم شوگن نے خوبصورت میکا کو اپنے باپ کی موت کا ایک سال تک ماتم کرنے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی کیرا نے ایک اور کام کیا کہ اس قبیلے کے سربراہ اوشی کو ایک اندھے کنویں میں پھینکوا دیا تاکہ اس کی روح کو توڑا جا سکے۔
تاہم اوشی کے اندر سے اپنے لارڈ آسانو کے خون کے بدلے کی آگ نہ بجھی!! 
ایک سال بعد اوشی کو کنویں سے رہا کر دیا گیا ۔ وہ سیدھا اپنے گھر گیا اور اپنے رونن ساتھیوں کو ڈھونڈنے لگ گیا تاکہ وہ اپنے لارڈ آسانو کا بدلہ لے سکے۔ اس دوران اس انگریز کائی کو ایک غلام کے طور پر بیچ دیا گیا تھا ۔ اب سمرائی قبیلے کا سربراہ اوشی نہ صرف لارڈ آسانو کا بدلہ لینا چاہتا تھا بلکہ وہ اس کی بیٹی میکا کو بھی لارڈ کیرا سے بچانا چاہتا تھا جس کی شادی کے دن قریب آرہے تھے۔ 
اوشی کو جب لارڈکیرا کے خلاف بغاوت کے لیے تلواروں کی ضرورت پڑی تو مقامی لوہار نے اوشی کے رونن کو تلواریں دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر کائی رونن کو ایک پُراسرار جنگل میں لے گیا جہاں کبھی وہ بچپن میں رہا تھا تاکہ ان سے تلواریں لی جائیں جو بعد میں ان سب کو ایک امتحان لینے کے بعد دے دی گئیں۔
نئی تلواریں لینے کے بعد رونن نے کیرا پر اس وقت حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جب اسے اپنی شادی کے لیے دعا کرنے کے لیے روانہ ہونا تھا۔ تاہم اس سے پہلے کہ رونن لارڈکیرا کے قافلے پر حملہ کرتے، رونن ایک جال میں پھنس گئے اوربہت سارے رونن مارے گئے۔ لارڈ کیرا کی ایڈوائز چڑیل نے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا تھا کہ اس نے سب رونن کو قتل کر دیا ہے لہٰذا اس نے اوشی کی تلوار لے کر لارڈ کیرا کو پیش کی کہ وہ مارا گیا ہے ۔
بعد میں اس چڑیل نے خوبصورت میکا کو موت کی دھمکیاں دیں بلکہ اس نے میکا کو خودکشی پر اکسانے لگی۔ 
تاہم اس حملے میں اوشی اور کائی دونوں زندہ بچ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے بچ جانے والے 47 رونن کو دوبارہ اکٹھا کیا تاکہ اپنے لارڈ آسانو کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔ انہوں نے سفر پر نکلے ایک گروہ کے ساتھ مل کر کیرا کی میکا سے ہونے والی شادی میں شامل ہونے کا منصوبہ بنا لیا اور میکا کو موقع دیا کہ وہ شادی کے منڈل سے فرار ہوجائے۔ اس دوران تمام رونن محل کی دیواروں سے اندر پھلانگ گئے اور انہوں نے لارڈ کیرا کے آدمیوں سے لڑائی شروع کر دی۔ کائی اور میکا نے اکٹھے بھاگنے کی کوشش کی لیکن ان پر چڑیل نے حملہ کر دیا جس نے اب ایک سانپ کی شکل اختیار کر لی تھی۔ تاہم کائی نے اسے اپنی تلوار سے ختم کر دیا۔ اس دوران کائی، اوشی اور کیرا لڑتے رہے اور آخر اوشی نے کیرا کو قتل کر دیا اور اپنے دوست لارڈ آسانو کا بدلہ لے لیا۔ 
جب شوگن کو پتہ چلا کہ اس کے حکم کے باوجود رونن نے اس کے لارڈ کیرا سے آسانو کا بدلہ لیا تھا تو اس نے ان سب رونن کو موت کی سزا سنا دی ۔ انہیں بھی عزت سے مرنے کا موقع دیا کہ وہ بھی بادشاہ کے سامنے اکٹھے خودکشی کر لیں ۔ یوں ان 47 بہادر رونن نے شوگن کے سامنے اکٹھے ہوکر جاپانی روایت کے مطابق ایک ساتھ خودکشی کر لی ۔ تاہم اس قبیلے کی بہادری سے متاثر ہوکر شوگن نے اوشی کے بیٹے کو زندہ رہنے کی اجازت دے دی تاکہ بہادروں کی نسل چلتی رہے۔ 
کائی کی موت کے بعد میکا کو اس کا ایک خط ملا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ موت کے بعد اسے اگلے جہاں میں بھی تلاش کرے گا !! 
سینما کا ہال خالی ہوگیا تھا ۔
سب لوگ ہال سے نکل گئے تھے اور میں ابھی تک سوچ رہا تھا کہ میرے بچوں کو فلم کا یہ اختتام کیوں پسند نہیں آیا تھا ؟
شاید وہ اس بہادر جاپانی سمرائی قبیلے کے جنگجوئوں کو اس طرح ایک جاپانی جاگیردار شوگن کے سامنے خودکشی کرتے دیکھ کر اداس ہوگئے تھے کہ ایسی بغاوت کا کیا فائدہ کہ آخر پر اس شوگن کی غلامی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود کو ہی قتل کر بیٹھے !
شاید وہ دونوں یہ سوچ رہے تھے کہ اگر جاگیردار شوگن کے لارڈ کیرا کے خلاف بغاوت ہوسکتی تھی تو خود شوگن کے خلاف کیوں نہیں ؟ 
پھر خیال آیا شاید ہم سب بھی اکیسویں صدی کے پاکستان میں اس قدیم جاپانی روایت کے بہادر سمرائی قبیلے کے ان 47 رونن کی طرح ہو چکے ہیں، جو اپنے اپنے شہروں اور دیہات میں ہم پر حکومت کرنے والے شوگن جیسے کرداروں کے لارڈ کیرا سے بدلہ نہ لینے کے حکم کے خلاف تو بغاوت کرتے ہیں، لیکن اسی شوگن کے ایک اور حکم پر زمین پر لیٹ کر اپنے پیٹ میں ایک ساتھ خنجر بھی گھونپ دیتے ہیں !!
انسانی تاریخ میں یہ جنگجو کتنے ہی بہادر کیوں نہ ہوں، آخر ہوتے تو غلام ہی ہیں ۔ ان ذہنی غلاموں کو ایک حد تک ہی بغاوت کی اجازت ہوتی ہے جس کے بعد انہیں اسی جاگیردار، بادشاہ یا کمانڈر کے حکم پر اپنے خنجروں سے اپنے ہی پیٹ پھاڑنے ہوتے ہیں ۔
غالباً جاپان کے اس قدیم جاپانی سمرائی قبیلے کے 47 بہادر رونن نے اپنے پیٹ میں خنجر گھونپتے وقت روحانی سکون محسوس کیا ہوگا کہ انہوں نے شوگن کے حکم پر صدیوں سے جاری غلاموں کے اندر موجود فطری وفاداری کی روایت کو اپنا سرخ خون دے کر زندہ رکھا تھا !!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved