تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-01-2014

دیہاڑی لگانے میں برابری کے حقوق

پنجابی کی ایک ضرب المثل کا ترجمہ ہے کہ ''لالچیوں کے شہر میں فراڈیے کبھی بھوکے نہیں مرتے‘‘۔ پرانی اور دھرتی سے جُڑی ہوئی ضرب الامثال صدیوں کی سچائی اور تجربے کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ یہ ضرب المثل بھی سو فیصد سچی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں نہ کبھی فراڈیے بھوکے مرے ہیں اور نہ لالچی لٹنے سے باز آئے ہیں۔ ملتان میں ''مدد کمیٹی‘‘ اسی قبیل کے فراڈیوں کا کاروباری منصوبہ تھا جس میں ماہانہ پچیس اور تیس فیصد منافع حاصل کرنے کے خواہشمند لالچیوں نے اپنی ساری جمع پونجی لٹا دی۔ یہ معاملہ کروڑوں کی حد پھلانگ گیا مگر کسی حکومتی ادارے کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔حتیٰ کہ حسب معمول مدد کمیٹی والے بیس پچیس کروڑ روپے سمیٹ کر غائب ہونے کی تیاری میں تھے کہ کسی ''احمق‘‘ نے پولیس کو اطلاع کر دی۔ اس اطلاع کے طفیل سینکڑوں لالچی سرمایہ کاروں کا معاملہ چند لالچی پولیس افسروں کے ہاتھ میں آ گیا۔ مدد کمیٹی والے طاہر کو پولیس اٹھا کر لے گئی۔ شنید ہے کہ ابدالی روڈ پر واقع صرف ایک بنک میں سے تین چار کروڑ روپے پولیس والوں کے ہاتھ لگے۔ اوپر سے نیچے تک سب یہ رقم ڈکار گئے۔ یہ صرف بنک کا معاملہ تھا۔
دس بارہ کروڑ روپے صرف بوریوں میں بند تھے اور مختلف جگہوں پر ''ڈمپ‘‘ کیے گئے تھے۔ بوریوں میں بند ھے ہوئے یہ نوٹ بھینسوں کے باڑوں اور بھانوں میں چھپائے گئے تھے۔ ان نوٹوں کی کوئی گنتی نہیں تھی۔ بس بوریوں کی گنتی تھی۔ کس پولیس والے کے ہاتھ کیا لگا؟یہ تعداد نوٹوں کے بجائے بوریوں کی تھی۔ کسی کے ہاتھ دو لگیں تو کسی کے ہاتھ تین۔کسی کے ہاتھ ایک لگی تو کسی نے چار اڑا لیں۔ افسر تو افسر تھے ان کے بندوقچی یعنی گن مین بھی اس لوٹ مار کے حصہ دار ٹھہرے ۔ نہ لینے کا حساب تھا اور نہ دینے کا۔وصولی پر ایک کاغذ کا پرزہ تھما دیا جاتا تھا اور برآمدگی پر تو پولیس نے پرزہ بھی نہ دیا۔ لہٰذا سارا مال غتربود ہو گیا۔ یاد رہے کہ واقعہ چودہ پندرہ سال پرانا ہے۔ تب بیس پچیس کروڑ روپے آج کے حساب سے تین چار ارب روپے سے زیادہ تھے۔ کل رقم میں سے پولیس نے تقریباً چار ساڑھے کروڑ روپے کی برآمدگی ڈالی۔ یہ برآمدگی بھی ان لوگوں میں یا متاثرین میں تقسیم کی گئی جو کسی نہ کسی حوالے سے تگڑے تھے۔ کسی نے اخبار نویس کے ذریعے‘کسی نے افسروں کے ذریعے اور کسی نے سیاسی زور پروصولی کر لی۔ سارے غریب غربا اور بے آسرا لوگ مارے گئے۔اس لوٹ مار میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ایک کھڑپینچ بھی ایک دو بوریوں کا مال غنیمت لے کر ایسا غائب ہوا کہ پھر سٹوڈنٹس پالیٹکس میں دوبارہ نظر نہ آیا۔
پیسے بٹورنے والا تو بہرحال فراڈیا تھا ہی مگر سرمایہ کاری کرنے والے وہ لالچی لوگ تھے جو ماہانہ پچیس تیس فیصد منافع پر رقم لگا کر تین چار ماہ میں اپنا سرمایہ دوگنا کرنا چاہتے تھے۔لالچ کا یہ عالم تھا کہ سرمایہ کار کو جب پہلے ماہ لاکھ روپے پر پچیس یا تیس ہزار کا منافع پکڑا یا گیا تو اس نے نفع کی وہ رقم بھی مدد کمیٹی والے طاہر کو پکڑا دی اور کہا کہ وہ اس منافع کو بھی ''کاروبار ‘‘ میں لگا دے۔ کئی ماہ تک تو مدد کمیٹی والوں کو کسی سرمایہ کار کو منافع دینے کی نوبت ہی نہ آئی۔ اگر دیا بھی تو اسی کی رقم میں سے واپس پکڑا دیا۔ اس نے اگلے ماہ اور رقم جمع کروا دی۔ مدد کمیٹی کے روح رواں طاہر نے سرے سے کہیں کوئی کاروبار کیا ہی نہ تھا۔ وہ کاروبار میں پکڑی گئی رقم کو ہی ہیر پھیر سے گھما پھرا کر واپس سمیٹ رہا تھا۔ لوگ سنی سنائی پراس کو دھڑا دھڑ پیسے پکڑا رہے تھے۔ بلکہ نوبت یہاں تک آ گئی کہ درمیان میں لوگ آ گئے اور طاہر کو کاروبار کے لیے رقم پکڑانے کے عوض درمیان میں اپنا کمیشن رکھنے لگ گئے۔ مشہور ہو گیا کہ مدد کمیٹی والے اب لوگوں سے مزید رقم نہیں لے رہے۔ سرمایہ کاری کے مزید خواہشمند اسے سفارشوں سے پیسے دیتے تھے۔ انجام کا ر وہی ہوا۔ لالچیوں کے شہر میں فراڈیے بھوکے نہیں مرتے مگر لالچی ضرور مرتے ہیں۔ سو لالچیوں کا انجام وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔
یہ ملتان کا قصہ تھا۔ فاروق پورہ اور پرانی شجاعباد روڈ کے مکینوں کا قصہ۔ ملک میں تازہ ترین سکینڈل مضاربہ سکینڈل ہے۔ یہ حلال منافع کمانے اور سود خوری کی لعنت سے بچنے والے ان لالچی سرمایہ کاروں کے پیسے تھے جو مفتی‘ مولانا اور علامہ ٹائپ کے فراڈیوں نے تھائی لینڈ میں سونے کی کانیں خریدنے کے لیے وصول کیے اور ذاتی کمپنیاں رجسٹرڈ کروا کر سارے پیسے ڈکار گئے۔ 
اب یہ عالم ہے کہ ہر گلی‘ ہر محلے میں‘ ایزی لوڈ سے موبائل فون کے بیلنس کی چوری تک۔ ہر شے کھلے عام اور دھڑلے سے چل رہی ہے۔ باقاعدہ میسجنگ ہو رہی ہے۔ ریکارڈنگ چل رہی ہے۔ پیسے بٹورے جا رہے ہیں اور یہ کام مسلسل ہو رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب تک پانی سر سے اونچا نہ ہو جائے کوئی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ موبائل فونز پر پیغامات کے ذریعے‘ پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔ حکمران مست ہیں۔حکومت سو رہی ہے اور ریاست بتدریج ناکامی کی طرف جا رہی ہے۔ میڈیکل کالج بلا منظوری داخلے کر رہے ہیں۔حکومت صرف لوگوں کو مطلع کر رہی ہے جعلسازوں کو نہیں پکڑ رہی۔ ملتان کی ایک سرکاری یونیورسٹی کا لاہور کیمپس چلانے والے‘ وزیر اعلیٰ کی ناک کے نیچے طلباء کے ساڑھے گیارہ کروڑ ڈکار گئے ہیں کوئی پرسانِ حال نہیں۔ بے نظیر چلی گئی مگر اس کی انکم سپورٹ سکیم ابھی تک فراڈیوں کی انکم سکیم بنی ہوئی ہے۔
مجھے مورخہ سات دسمبر کو ایک میسج آیا ۔یہ فون نمبر 0337-7038296سے تھا کہ آپ کو مبارک ہو۔ آپ کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پچیس ہزار روپے نکلے ہیں۔ آپ فوراً 0335-8720014پر رابطہ کریں۔ میں نے ڈانٹ ڈپٹ کے لیے اس نمبر پر فون کیا۔ وہاں ریکارڈنگ چل رہی تھی کہ میرے پیسے کیسے منظور ہوئے ہیں اور مجھے اب کیا کرنا چاہیے۔ پھر اسی پہلے والے نمبر سے ایس ایم ایس آیا کہ مجھے موبائل کے تین کارڈ لوڈ کرنے ہوں گے۔ آج صبح پھر اسی قسم کا پیغام 0335-9321631سے آیا کہ چند سال پہلے گھر گھر ہونے والے سروے کے نتیجے میں میرے بے نظیر انکم سپورٹ کی طرف سے پچیس ہزار روپے منظور ہو گئے ہیں آپ فوراً 0335-0942606پر فون کریں۔ میں نے تہیہ کیا کہ آج سارا معاملہ دیکھوں گا۔ فون کیا تو حسب معمول ریکارڈنگ چل رہی تھی۔السلام علیکم !ویلکم ٹو بے نظیر انکم سپورٹ۔ بے نظیر انکم سپورٹ کی طرف سے عامر بات کر رہا ہوں۔ بے نظیر انکم سپورٹ کی طرف سے 
آپ کا پچیس ہزار منظور ہو گیا ہے۔ آج سے کچھ ماہ پہلے ہماری ٹیمیں گھر گھر سروے کرنے گئی تھیں تو آپ نے فارم فل کروائے۔ اس کے تحت آپ کا پچیس ہزار منظورہو گیا ہے۔ اگر آپ یہ پیسے لینا چاہتے ہیں تو آپ قریبی کسی ایسی دکان پر جائیں جہاں موبائل کے ذریعے پیسے بھیجے اور وصول کیے جاتے ہوں۔ میں آپ کو اپنے سپروائزر نوید الحسن کا نمبر دے رہا ہوں۔ آپ دکاندار سے نوید بھائی کی بات کروائیں۔ نوید بھائی آپ سے بات کرتے ہی آپ کے اکائونٹ میں پیسے ڈیپازٹ کریں گے۔ دکاندار کیش ریسیو کرتے ہی آپ کو پیسے دے دے گا۔ ہاں!ایک بات یاد رکھنی ہے کہ دکان والے کو آپ نے بے نظیر کا نام نہیں بولنا۔ اس کو بولنا کہ یہ میرا بھائی نوید ہے جو مجھے اسلام آباد سے پیسے بھیج رہا ہے۔ اگر بے نظیر کا نام بولو گے تو دکاندار پیسے ریسیو کر کے نہیں دے گا۔ آگے سے کوئی نہ کوئی جھوٹ بول دے گا۔ کیونکہ کمپنی کی طرف سے انہیں منع کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی انہیں منع کیا گیا ہے کہ بے نظیر والے پیسے ریسیو نہیں کرنے۔ ان کو چارج زیادہ ہوتے ہیں۔ نوید بھائی کا نمبر نوٹ کریں۔ زیروتین سو بائیس باون زیرو چھبیس اکہتر۔ ہاں ایک بات یاد رکھیں‘ موبائل کمپنی کے فرنچائز آفس نہیں جانا‘ بلکہ پیسے بھجوانے اور وصول کرنے کی سہولت دینے والی کسی دکان پر جانا ہے۔ تھینک یو فار کالنگ۔ اللہ حافظ۔
میں نے ''نوید بھائی‘‘کو فون کر کے دو چار سنائیں مگر وہ شاید اس سلوک کا عادی تھا‘ اس نے فون فوراً بند کر دیا۔ سومیں سے دس پنچھی بھی پھنس جائیں تو نوید بھائی کی دیہاڑی لگ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ دھڑلے سے ہو رہا ہے اور کافی عرصے سے ہو رہا ہے۔ حکمران اپنی دیہاڑی لگا رہے ہیں۔ وہ نوید بھائی کی دیہاڑی کیوں خراب کریں گے؛ مملکت خدا داد پاکستان میں دیہاڑی لگانے کے لیے ہر خاص و عام کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved