1969-70ء میں جب‘ امریکی ایجنٹوں نے تعلیمی اداروں پر یلغار کی‘ تو ان کا پہلا ہدف ترقی پسند اور روشن خیال اساتذہ تھے۔ پہلے سرکاری میڈیا میں‘ ان کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی گئی۔ اس زمانے کی اسلامی جمعیت طلبا کے لیڈروں نے‘ انہیں ہراساں کرنا شروع کیا اور پھر ان میں سے منتخب اور اعلیٰ پائے کے اساتذہ کو ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا۔ میں ان دنوں ویکلی ''شہاب‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ میں نے اس ظلم کے خلاف زبردست مہم چلائی۔ جس کا نتیجہ مجھے معلوم تھا۔ جبر کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ ذہنی آزادیاں سلب کرنے کا منصوبہ زیرعمل تھا اور آمریت کے پروردہ صحافیوں کے جتھے‘ مظلوموں اور آزاد شہریوں کی آواز دبانے پر مامور تھے۔ پروفیسر حضرات کے ساتھ مزدوروں کی چھانٹیوں کا سلسلہ بھی زوروں پر تھا اور بیروزگار ہونے والوں کی اذیت ناک زندگی - روزجیتا ہوں‘ روز مرتا ہوں - کی تمثیل بنی ہوئی تھی۔ میں نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لئے ''معاشی قتل‘‘ کی اصطلاح وضع کی‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے صحافتی اور سیاسی زبان کا حصہ بن گئی۔ موجودہ حکومت نے قدم جماتے ہی پبلک سرونٹس کو نجی ملازمین کی سطح پر لانے کے لئے‘ جو پے درپے اقدامات کئے‘ انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے پاکستانیوں کو ہر میدان میں طالبان کے دبائو کا سامنا ہے۔ طالبان بموں سے بے گناہ عوام کو شہید کرتے ہیں۔ آناًفاناً انہیں لقمہ اجل بنا دیا جاتا ہے۔ یہ موت صرف ایک بار کی ہوتی ہے۔ حکمران‘ پبلک سرونٹس کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں‘ وہ ایک بار کی موت سے زیادہ‘ اذیت ناک ہے۔ طارق ملک کے ساتھ جو سلوک کیا گیا‘ اب وہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے اور جج صاحب نے بیشتر واقعات کی تصدیق کر دی ہے‘ جن کا میڈیا میں چرچا ہوا۔ مجھے میڈیا اور دیگر ذرائع سے جو کچھ معلوم ہوا اور جیسے میں نے دیکھا‘ اسے پڑھ کر آپ کو بھی اندازہ ہو گا کہ بم حملے میں آنے والی فوری موت اور حکومتی حملے سے آنے والی تدریجی موت میں‘ کیا فرق ہوتا ہے؟ اور کون سی موت زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے؟
طارق ملک‘ پاکستان کی جانی پہچانی علمی و ادبی شخصیت‘ فتح محمد ملک کے صاحبزادے ہیں۔ ملک صاحب کی شرافت‘ شائستگی‘ ان کی علمی و ادبی خدمات اور تحریروں سے ہر صاحب علم واقف ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ تنازعات اور لڑائی جھگڑوں سے دور رکھا۔ اپنے عقائد کے مطابق نہایت مہذب طریقے سے لکھا اور بولا۔ جہاں کوئی تنازعہ ہوتا نظر آیا‘ دور سے ہی پہلو بچا کے نکل گئے۔ طارق ملک نے یقینی طور پر اپنے عظیم والد کے طرزعمل اور کردار کو نہ صرف دیکھا بلکہ اپنے آپ کو اس میں ڈھالنے کی کوشش بھی کی ہو گی۔ طارق نے ایک اچھے طالب علم کی حیثیت میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ایک شعبے میں مہارت پائی اور ایک اچھے پروفیشنل کی حیثیت سے‘ اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ بیرون ملک ایک پرسکون اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ اقبالؒ اور پاکستان کے عاشق‘ فتح محمد ملک کا بیٹا اپنے ملک کے لئے کیسے جذبات رکھتا ہو گا؟ اس کا اندازہ ملک صاحب کو جاننے والے آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس خاندانی پس منظر کے ساتھ‘ انہیں جب اپنے ملک کی خدمت کا موقع نظر آیا‘ تو انہوں نے عالمی جاب مارکیٹ میں‘ اپنی شاندار پوزیشن چھوڑ کر فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک کی خدمت کرنے کے موقع سے پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں آ کر جب انہوں نے نادرا کا انتظام سنبھالا‘ تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالمی معیار کا ادارہ معرض وجود میں آ گیا اور انہوں نے متعدد ایسے پروگرامز اور ورکنگ ٹیکنالوجیز متعارف کرائیں‘ جن کا ہمارے سرکاری دفتروں میں کسی کو پتہ بھی نہیں تھا۔ گزشتہ انتخابات میں نادرا کا کردار مثالی تھا اور شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ جن چند متنازعہ حلقوں پر دوبارہ گنتی کی گئی‘ ان میں الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج بدل گئے۔ ان کی یہی مہارت‘ مصیبت بن گئی۔ اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی۔ پاکستان میں روایتی انتخابی دھاندلیاں‘ ہمارے کلچر کا حصہ ہیں۔ یہاں کے انتخابات کسی پروگرام‘ منشور یا مستقبل کے منصوبوں کے تحت نہیں ہوتے۔ دولت اور طاقت کا ایک منظم پریشر گروپ ہوتا ہے‘ جو علاقائی اور قومی سطح پر امیدواروں کی کامیابی ''مینوفیکچر‘‘ کرتا ہے۔ ایسے کام گروپ‘ گروہ اور اداروں کی ملی بھگت سے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے انتخابی نتائج اکثر اوقات پہلے سے باخبر حلقوں کو معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً جب 90ء کے عشرے میں بے نظیر شہید اور نواز شریف کی باریاں لگیں‘ تو انتخابات سے پہلے بچے بچے کو معلوم ہوتا تھا کہ اس مرتبہ کون جیتے گا؟ اگر بے نظیر کی حکومت ختم ہوتی‘ تو ہر کوئی بھانپ لیتا کہ اب نواز شریف آئیں گے اور نواز شریف جاتے‘ تو یقینی ہوتا کہ اس بار بے نظیر کی باری ہے۔
2013ء کے انتخابی عمل میں نادرا نے الیکشن کمیشن کو فنی خدمات مہیا کیں۔ دھاندلی میں‘ دنیا میں کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کوئی بڑے سے بڑا ماہر اور منتظم‘ جتنے فول پروف انتظامات چاہے کر لے‘ ہم دھاندلی کے راستے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ مگر اس مرتبہ دھاندلی پکڑنے کے طریقے بھی دستیاب تھے۔ ووٹر کے انگوٹھے کا نشان دیکھ کر‘ اصلی نقلی ووٹ کی شناخت ممکن ہو چکی تھی۔ چند انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوئی اور نتائج بدل گئے‘ تو خوف و ہراس طاری ہو گیا۔ عمران خان نے جن چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر رکھا تھا‘ وہاں بڑے بڑے سیاسی ستون خطرے میں آ سکتے تھے۔ یہیں سے طارق ملک کی مصیبتوں کا آغاز ہوا۔ چوہدری نثار علی خان کی ہڑبڑاہٹ کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے چار کے بجائے تمام انتخابی حلقوں میں دوبارہ گنتی کی پیش کش کر دی۔ نہ نو من تیل ہو گا‘ نہ رادھا ناچے گی۔ چار حلقوں میں گنتی نہیں کرائیں گے‘ سینکڑوں میں کرا دیں گے۔ ادھر انتظامی طور پر چار حلقوں میں بھی قلعہ بندی شروع کر دی گئی۔ طارق ملک کو مجبور کیا گیا کہ وہ دوبارہ گنتی کو یا تو تکنیکی طور پر ناقابل عمل ثابت کر دیں یا نتائج کی تبدیلی روکیں۔ ظاہر ہے ایک ٹیکنوکریٹ ایسے کاروبار سے بچنا چاہتا ہے۔ پیشہ ورانہ دیانت کا یہی مظاہرہ‘ ان کے لئے وبال جان بن گیا۔ ذاتی طور سے دبائو ڈالے گئے۔ آدھی رات کو برطرفی کا نوٹس تیار کر کے‘ ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔ ان کی بیگم کو دھمکیاں دی گئیں۔ خود انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ وہ عدالت سے اپنا کیس واپس لے لیں‘ جو انہوں نے ناجائز برطرفی کے خلاف کر رکھا تھا یا استعفیٰ دے دیں۔ وہ اپنے قانونی حق کے لئے لڑتے رہے۔ اسی دوران ان کی بیٹی کو ہراساں کیا جانے لگا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک شریف آدمی کی طرح طارق ملک نے بھی ''سرکاری حسن سلوک‘‘ کے مزید مظاہرے سے بچنے کے لئے استعفیٰ دینے میں عافیت جانی۔ استعفے کے بعد عدالتی فیصلہ آیا‘ تو ان کی برطرفی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے‘ انہیں بحال کر دیا گیا۔ بعد مرنے کے کوئی بالائے بام آیا تو کیا؟
آپ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ہنرمند‘ عزت دار اور محنت کی زندگی گزارنے والے شخص کو بلاوجہ ذہنی اذیتوں کی سزا دینا شروع کر دیں‘ تو اس پر کیا گزرے گی؟ جو کچھ طارق ملک کے ساتھ ہوا ہے‘ وہ تدریجی موت کا ایک عمل تھا۔ پیشہ ورانہ وقار کی پامالی۔ فرائض میں خیانت کے لئے دبائو۔ بدسلوکی کے ذریعے بے عزتی۔ گھر کی حرمت اور وقار کی توہین اور پھر آخر میں بے گناہ بیٹی کو ریاستی طاقت سے ہراساں کرنے کا سنگدلانہ عمل‘ اگر تدریجی موت نہیں تو کیا ہے؟ کیا یہ موت اس سے زیادہ اذیت ناک نہیں؟ جو بم کے دھماکے میں ایک لمحے کے اندر واقع ہو جاتی ہے؟ اور پھر اس شخص کی کیفیت دیکھئے‘ جو عزت‘ خوشحالی‘ باوقار زندگی اور ہنسی خوشی کا ماحول چھوڑ کر وطن کی خدمت کرنے آئے اور صلے میں اسے تدریجی موت کے راستے پر دھکیل دیا جائے۔
حکمرانوں کا جب اپنا دائو لگتا ہے‘ تو ہر لاقانونیت کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ایک سرکاری ملازم سے خلاف قانون کام کرا رہے ہیں‘ جس کے لئے طارق ملک کو مجبور کیا گیا‘ اصل میں وہ کس چیز کی روایت ڈال رہے ہوتے ہیں؟ طارق ملک اگر انتخابی دھاندلیوں کی پردہ پوشی کر کے‘ غیرآئینی کام کر دیتے‘ جیسا کہ ہر دوسرے شعبے میں ہوتا ہے‘ تو یہ ہمارے لئے معمول کی بات ہوتی۔ لیکن قومی معاملات میں‘ مغربی طرز کی اصول پسندی وہاں کے قانونی اور آئینی نظام کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔ پبلک سرونٹ کو خود حکومت قانون شکنی پر مجبور کرے اور کل اسی کا کوئی ساتھی‘ آئین کو توڑتے ہوئے حکومت پر قبضہ کر لے‘ تو پھر ہمارے حکمران آہ و بکا کرنے لگتے ہیں۔ یہ نہیں مانتے کہ وہ اپنا ہی بویا ہوا کاٹ رہے ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ جب وہ کسی سرکاری ملازم سے اپنے ناجائز فائدے کے لئے‘ قانون شکنی کرائیں گے‘ تو کل وہ اپنی غرض کے لئے بھی ایسا ہی کرے گا۔ یہی تو ہمارے ساتھ ہوتا آیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved