تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     18-01-2014

جاپان کی ترقی اور عالمی تنہائی کا دور

دنیا کے مسلمہ تاریخی اور ثقافتی مراکز سے بہت دور اور عالمی انسانی ورثے سے ناآشنا جاپان کی سرزمین صدیوں تک یونان کے فلسفیوں‘ بابل و نینوا کے اصولِ حکمرانی‘ مصر کے ماہرینِ تعمیرات‘ روم کے انداز بادشاہی‘ ایران کی شعری روایت اور ہند کی دیومالا سے ناآشنا رہی۔ علومِ انسانی کی تاریخ مرتب کرنے والے بھی اس خطے کا ذکر نہیں کرتے۔ جنگ عظیم دوم میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹمی جارحیت‘ ذلت آمیز شکست اور پھر امریکیوں کی اس ملک پر ثقافتی اور معاشی یلغار اور پوری دنیا میں کارپوریٹ کلچر کی دھماچوکڑی کے باعث اس ملک کو تہذیبی‘ اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے مغربی تہذیب کا پرتو ہو جانا چاہیے تھا، لیکن ٹوکیو جیسے جدید ترین شہر میں گھومتے‘ دنیا کی تیز ترین بلٹ ٹرین پر سفر کرتے‘ 'اویاما‘ کے دیہی علاقوں میں گھومتے اور نگانو کے پہاڑی برف پوش سلسلوں میں موجود آبادیوں کو دیکھتے ہوئے میری حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔۔۔ شرم و حجاب‘ اخلاق‘ مروت‘ ادب و احترام‘ صبروبرداشت‘ شائستگی و نرم خوئی‘ غرض کون سی ایسی خوبی تھی جو اس قوم کے ہر فرد میں بدرجۂ اتم نہ پائی جاتی ہو۔ نفرت و تعصب تو اس قوم میں عالمی دہشت گردی کے خلاف دس سالہ جنگ بھی پیدا نہ کر سکی۔ پورے ملک میں دس ہزار پاکستانی ہیں‘ لیکن یہ واحد ملک ہے جہاں ان دس ہزار افراد کو کبھی دوسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس نہیں ہوا۔ جن پاکستانیوں کی جاپانی عورتوں سے شادیاں ہوئیں‘ انہیں وفا شعار‘ خدمت گزار اور گھر کو سکون کا گہوارہ بنانے والی ایسی بیویاں ملیں اور وہ ان کے مذہب میں ایسے داخل ہوئیں کہ اسے اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ان میں ایسی بھی تھیں کہ اپنے بچوں کو لے کر پاکستان میں اپنے سسرال جا بسیں کہ ان کی تعلیم میں اسلامی اقدار کی کمی نہ رہ جائے۔ امریکی تو جہاں گئے اس ملک کو قحبہ خانہ بنا کر نکلے۔ ویت نام‘ لائوس‘ کمبوڈیا‘ کوریا اور تھائی لینڈ کے تعیش کے بازار انہی امریکیوں نے آباد کیے۔ فلپائن میں ان کی فوج کی ایک پوری یونٹ ''آرمی ویلفیئر‘‘ کے نام پر دیہات سے نوجوان لڑکیاں اکٹھا کرتی اور منیلا کے بازاروں میں لا بٹھاتی تھی۔ دوسری جانب انگریزی ذریعہ تعلیم اور انگریزی تہذیب نے ان معاشروں میں جہاں اخلاقی اقدار بگاڑیں وہیں انہیں ایک غیر تخلیقی اور نقال قوم بنا کر رکھ دیا۔ صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے سستے مزدور فراہم کرنا ان کا مقصد بن گیا‘ جسے آج کے دور میں خوبصورت لفظ ''بیرونی سرمایہ کاری‘‘ سے یاد کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک میں سستے اور غلام صفت مزدوروں کی فیکٹریوں میں بھرتی کو ملازمت کے مواقع اور بیرونی سرمایہ کاری جیسے خوش کن لفظوں سے قوموں کو فریب دیا جاتا ہے۔ یہ سب جاپان میں کیوں نہ ہو سکا؟ یہ سب نہیں ہوا، پھر بھی پوری دنیا کی معیشت پر جاپان کیونکر چھایا ہوا ہے؟
یہ سوال ہر دوسرے لمحے میرے سامنے آ کھڑا ہوتا۔ دنیا میں ترقی کے تمام معیارات پر جاپان ایک عظیم ملک ہے، لیکن کس قدر مختلف۔ یہ اتنی بڑی شکست اور بدترین امریکی غلامی کے بعد اتنی جلدی ترقی کیسے کر گیا؟ اس سوال کا جواب جاپانی تاریخ کے 1614ء سے 1854ء تک کے 214 سالوں میں موجود ہے۔ اس دور کو جاپانی تاریخ میں ساکوک ''SAK OKU‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے پوری دنیا میں علیحدگی اختیار کرنا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا کے کئی ملکوں میں یورپی طاقتیں کبھی کاروبار اور کبھی تبلیغ کے نام پر داخل ہو کر ان پر قبضہ جما رہی تھیں۔ ان میں ہسپانوی‘ ولندیزی‘ پرتگیز، انگریز اور فرانسیسی شامل تھے۔ ہوا یوں کہ 1604ء میں جاپان میں غیر ملکی تاجروں کی آمد کا اعلان ہوا۔ 1609ء میں ہالینڈ کے تاجروں کو اجازت نامہ دیا گیا۔ ان تاجروں نے شوگن بادشاہوں پر یہ راز کھولا کہ سپین اور پرتگال جاپان پر حملے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ ایسا انہوں نے بادشاہ کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کیا، لیکن بادشاہ نے ان کی تجارت ناگاساکی تک محدود کر دی اور 1613ء میں برطانیہ کو بھی ناگاساکی میں تجارت کی اجازت دے دی۔ یہ سب تجارت کے ساتھ ساتھ عیسائیت کی تبلیغ بھی کرتے اور سادہ لوح جاپانیوں کو عیسائیت کے روپ میں یورپ کے مرکز میں پاپائے روم کے وفادار بناتے۔ ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے 1597ء میں ناگاساکی میں 26 پادریوں کو سزائے موت دی گئی۔ سپین‘ پرتگال اور ہالینڈ کے تاجر بھی تجارت کے ساتھ عیسائیت کے پرچار میں لگے رہے۔ یوں 1633ء میں جاپان نے سب سے پہلے اپنے لوگوں کے باہر جانے پر پابندی لگائی، پھر 1635ء میں وہ جاپانی جو کافی عرصہ دوسرے ملکوں میں آباد رہے تھے ان پر جاپان میں واپسی پر پابندی لگا دی۔ اب وہ مقامی آبادی جن کی وفاداریاں جاپان کی بجائے یورپ کے پاپائے روم سے وابستہ ہو گئی تھیں ان کے خلاف مہم کا آغاز کیا گیا اور شیمابارا میں تیس ہزار عیسائیوں کو قتل کر دیا گیا۔ 1641ء تک دنیا بھر کے تمام ممالک کی تجارتی گودیاں بند کر دی گئیں۔ اب جاپان تھا اور اس کا اپنے وسائل پر انحصار۔ یہاں سے ایک خودمختاراور خوددار قوم نے جنم لیا۔ ایک ایسی نفسیات پیدا ہوئی کہ پوری دنیا سے علیحدہ رہ کر بھی عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہا جا سکتا ہے اور اپنی اقدار کا تحفظ بھی کیا جا سکتا ہے۔ جاپان کی زرعی زمینوں میں اضافہ ہوا اور چپے چپے پر صنعت و حرفت کا جال بچھ گیا۔ ماہی گیری اور نمک کی صنعت پروان چڑھی۔ ٹوکیو شہر دنیا کی گنجان آبادی والا شہر بن گیا۔ ہر علاقہ ایک خاص شعبے کے لیے مخصوص ہو گیا۔ اوساکا جاپان کا باورچی خانہ کہلانے لگا، کوتو آرٹسٹوں کا مرکز بن گیا۔ اس دور میں جاپان کے لوگوں میں دو صفات پیدا ہوئیں۔۔۔ ایک مسلسل اور مستقل محنت‘ دوسری سادگی و کفایت شعاری۔ یہاں ایک فلسفۂ حیات ''بشیدو‘‘ (Bushido) نے جنم لیا جس میں وفاداری‘ کسی کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچانا اور کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے شرمندگی اٹھانی پڑے‘ کو فروغ ملا۔ یہ تمام صفات آج بھی جاپانی قوم میں پائی جاتی ہیں۔ وفاداری آج بھی ان کی اولین صفت ہے۔ اگر آج بھی کوئی بے وفائی یا دھوکے کا مجرم قرار پائے تو وہ سب کے سامنے اپنی انگلی کاٹ کر اپنے شوہر‘ بیوی‘ دوست یا مالک کو پیش کرتا ہے۔ کسی پارٹی یا گروپ سے بے وفائی ثابت ہو تو اسے ایک خنجر پکڑا دیا جاتا ہے اور وہ اس خنجر سے اپنا پیٹ چاک کرتا اور موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
جاپانی قوم نہ انگریزی سے واقف ہے اور نہ ہی انگریزی ذریعۂ تعلیم سے لیکن اس کی یونیورسٹیاں عالمی معیار کی ہیں۔ گزشتہ پندرہ سال سے تھوڑے بہت بورڈ انگریزی میں لکھے جانے لگے ہیں ورنہ سب کچھ جاپانی میں تھا۔ جاپان کا دنیا بھر کی تجارت میں ایک کثیر حصہ ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی گھر ایسا نہیں جہاں ان کی کوئی ایک چیز موجود نہ ہو خواہ وہ ایک آڈیو کیسٹ ہی کیوں نہ ہو۔ ٹوکیو کے بلندوبالا سکائی ٹری ٹاور پر کھڑے ٹوکیو شہر کی وسعت کو دیکھتے میں سوچ رہا تھا کہ اگر جاپان پر یہ 214 سال تنہائی کے نہ گزرتے تو ان کے ہاں بھی ایسے ہی دانشور‘ تجزیہ نگار اور مغرب زدہ عالم جنم لیتے جو انہیں ترقی کا ایسا راستہ دکھاتے جو انگریزی اور یورپ کی تہذیب سے ہو کر گزرتا اور جاپانی قوم آج اسی ذلت و رسوائی اور غربت و افلاس میں ہوتی جیسی ایسی تمام قومیں ہیں جنہوں نے مغرب کی تقلید میں اپنا سب کچھ گنوا دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved