گزشتہ دنوں ایک مشہور انگریزی اخبار کے اداریے ''مریخ ون‘‘ نے ہماری توجہ ایک سنسنی خیز منصوبے کی طرف دلائی۔ اس کے مطابق کچھ رضاکاروں کو مریخ پر بھیجا جائے گا تاکہ وہ وہاں ایک کالونی قائم کر سکیں۔ یہ سفر یک طرفہ ہو گا کیونکہ وہ کبھی زمین پر واپس نہیں آ سکیں گے۔ اس منصوبے کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں افراد نے درخواستیں دی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت سے اور افراد بھی مریخ پر جانے کے لیے رخت سفر باندھتے دکھائی دیں گے۔ سائنسی تحقیق میں معاونت کے جذبے کے تحت میں بھی اپنے ہاں سے چند نام پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اگر یہ نابغۂ روزگار ہستیاں مریخ پر چلی جائیں تو نہ صرف مریخ اپنی قسمت پر خوشی سے پھولے نہیں سمائے گا بلکہ ہم بھی اُس سرخ سیارے کو دور سے سلام کیا کریں گے۔
سب سے پہلے مجھے یقین ہے کہ الطاف صاحب مریخ پر جانے کے لیے تیار بیٹھے ہوںگے کیونکہ لندن پولیس ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے باز آنے کا نام نہیں لے رہی۔ اُنہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ برطانوی جاسوسوں نے مالی معاملات کے حوالے سے ان کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب غالباً مریخ ہی وہ جگہ ہے جہاں پولیس کی دراز دستی سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ مریخ پر بننے والی کالونی قطعی طور پر ''مہاجرین‘‘ پر مشتمل ہو گی کیونکہ اس میں فی الحال کوئی ''مقامی‘‘ نہیں ہو گا۔ یہ یقین کرنے میں کوئی امر مانع نہیںکہ وہاں بھی ان کی جماعت زبردست انتخابی معرکے مارے گی؛ تاہم ایک ٹیکنکل مسئلہ پیش آ سکتا ہے اور اس کا تعلق '' فاصلاتی خطاب‘‘ سے ہے۔ جب وہ مریخ ون کالونی سے کراچی اور حیدر آبادکے جلسوں سے خطاب فرمائیں گے تو مشتاق سامعین کو پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ ریڈیو کے برقی سگنل کو مریخ سے زمین تک پہنچنے اور پھر اسے جناب کا صوتی لہجہ اپنانے میں کم از کم اتنا وقت درکار ہو گا۔ ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ جب مریخ گردش کرتا ہوا زمین سے ''منہ موڑ‘‘ لے گا تو ریڈیائی سگنل بلاک ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ان اوقات میں ایم کیو ایم کے حامی اپنے محبوب رہنما کی پُرمغز تقریر نہ سن کر بے چین ہو جائیں؛ تاہم میرا خیال ہے کہ جماعت کے منتظمین اس کا حل نکال لیں گے۔ وہ الطاف بھائی کی پرانی ریکارڈنگ ہی چلا دیا کریں گے کیونکہ اس بات کو نوٹ کون کرتا ہے؟
مریخ پر بھجوانے کے لیے میں جس دوسرے امیدوار کا نام پیش کرتا ہوں۔۔۔ اور آپ اسے مریخ کے لیے پاکستان کی فخریہ پیش کش بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ وہ ہر آن نیا پاکستان بنانے کے متمنی عمران خان ہیں۔ مریخ پر خان صاحب کی موجودگی اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمین سے مریخ پر جا کر آباد ہونے والوں کو مریخ کے مقامی باشندوںسے بات چیت کرنے کے لیے مذاکرات کے ماہر کی ضرورت ہو گی؛ چنانچہ خاں صاحب طالبان سے مذاکرات کا وسیع تجربہ رکھتے ہوئے اس کام کے لیے آئیڈل شخصیت ہیں؛ تاہم، جیسا کہ کہا جاتا ہے ''ایک اکیلا، دو گیارہ‘‘ خاں صاحب کو اس کام کے لیے اپنے دست راست جنرل (ر) حمید گل کی معاونت بھی درکار ہو گی تاکہ زمین سے جا کر آباد ہونے والوں کو تسلی دے سکیں کہ اُنہیں مریخ کے باشندوں ''جو اپنے آدمی ہی ہیں‘‘ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ جو ان کے پاس شعاعی ہتھیار ہیں، جو چشم زدن میں چٹانوں کو بھی اُڑا سکتے ہیں، دراصل امن کے پھول ہیں۔ چونکہ مریخ پر فی الحال ٹی وی کے سیاسی مباحثے کے پروگراموں کی سہولت میسر نہیں ہے، اس لیے آبادکاروںکو بوریت سے بچانے کے لیے کوئی پُرلطف ''چیز‘‘ بھی درکار ہو گی اور یہ ٹی وی سٹوڈیوز کے مرد مجاہد، غازیِ بے بدل جناب زاہد حامدکے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ یہ پہلے مریخ سے غیرضروری چیزوں، یعنی بوریت، سکون اور عقل وغیرہ، کو مار بھگائیں گے اور پھر نہایت طمانیت قلب کے ساتھ مریخ کے باشندوں کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے اپنی عاقبت سنواریں گے۔ وہ زمین سے گئے ہوئے آبادکاروںکو یہ باور کرانے کی کوشش کریںگے کہ مریخی مخلوق دراصل شیطانی طاقتیں ہیں اور یہ کسی بھی آن زمین پر حملہ کر سکتی ہیں۔
اب تک قیاس ہے کہ آصف زرداری بھی درخواست دے چکے ہیں؛ تاہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مریخ پر سب سے پہلے جانے والے راکٹ میں وہ ضرور موجود ہوں‘ میں ان کا نام تجویز کرتا ہوں‘ مبادا کوئی ''کسر‘‘ رہ جائے۔ اب ویسے بھی صدارتی استثنا ختم ہونے کے بعد نیب خواہ مخواہ گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لیے سابق صدر کے لیے گریز کی پالیسی ہی بہتر ہے۔ چونکہ فی الحال پاکستان اور مریخ کے درمیان قیدیوںکے تبادلے کا معاہدہ عمل میں نہیں آ پایا، اس لیے زرداری صاحب کے لیے وہ سیارہ نہایت موزوں رہے گا۔ اور پھر مریخ کے وسیع و عریض میدان پولو کے لیے بھی آئیڈیل ہیں اور پھر وہاں ''کارنر پلاٹس‘‘ بھی وافر تعداد میں موجود ہیں؛ چنانچہ بقول مولانا حالی۔۔۔''کچھ کر لو نوجوانو، اٹھتی جوانیاں ہیں‘‘۔ زرداری صاحب کو یقیناً اپنے ساتھ اپنے قریبی مصاحب کی قربت بھی درکار ہو گی تاکہ وہ وہاں کھوٹے، کھرے میں فرق کر سکیں۔ مریخ پر جانے والوں میں پرویز مشرف کا نام بھی شامل کریں کیونکہ وہ پاکستان کو بچانے آئے تھے لیکن انہیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ اب جبکہ عدلیہ، میڈیا اور حکومت ان کے تعاقب میں ہیں، ان کے لیے بہترین جگہ مریخ ہی ہے۔ وہاں وہ بیٹھ کر چین سے ایک دو مزید کتابیں لکھ لیں گے اور فیس بک اور ٹویٹر پر اپنے کروڑوں مداحوں سے رابطے میں بھی رہیں گے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، جن کو گمنامی سے سخت چڑ ہے، بھی لگے ہاتھوں مریخ سدھارنے کا سوچ رہے ہوں گے کیونکہ سوئوموتو نوٹس لینے اور توہین عدالت کی پاداش میں طلب کرنے کے بغیر حیات ارضی بوجھ لگتی ہو گی۔ ممکن ہے وہ بلٹ پروف راکٹ بھی طلب فرمائیں؛ تاہم زمین سے رخصتی کے وقت میں ان کی خدمت میں کچھ کتابیں پیش کرنا چاہوں گا جن میں معاشیات کے بنیادی اصولوں اور آئین کی سادہ ترین تشریح کرتے ہوئے یہ بات سمجھائی گئی ہو کہ ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کس طرح ہوتی ہے۔ چونکہ نواز شریف کم کوش وزیر اعظم ہیں، اس لیے بجائے اس کے کہ اُنہیں زمین پر رہ کر فضول سے کاموں، جیسا کہ بجلی، امن و امان کی بحالی، معیشت وغیرہ، میں اپنے ہاتھوں کو زحمت دینا پڑے، ان کے لیے مریخ کی کالونی میں ''رائے ونڈ‘‘ کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ ممکن ہے اُنہیں وہاں نہاری میسر نہ آئے لیکن مجھے یقین ہے کہ مریخ چونکہ سرخ ہے، اس لیے ''کشمیری‘‘ ہی دکھائی دیتا ہے۔ آخر میں مریخ والوں کو کسی مذہبی رہنما کی ضرورت بھی ہو گی؛ چنانچہ مولانا فضل الرحمٰن سے بہتر امیدوار کون ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں یہ مسئلہ پیش آ جائے کہ عبادت کرتے وقت منہ کس طرف کرنا ہے یا پھر روزے رکھنے اور عید کرنے میں مریخ کے دو چاند روڑے اٹکائیں لیکن یقین رکھیں، مولانا ہر مشکل کا حل نکال سکتے ہیں۔ جب پاکستانی دھرتی کے یہ ستارے مریخ سدھاریں گے تو میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں، ہاں کافی زیادہ مشکلات کم ضرور ہو جائیںگی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved