اسلام کے داعی خون میں نہلا دیے گئے۔ مولانا محمد الیاس کے قافلے مغرب میں تو محفوظ ہیں لیکن اسلام کے قلعے، پاکستان میں نہیں۔ تبلیغی جماعت کے فہمِ اسلام پر ایک سو ایک اعتراضات ہو سکتے ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن کی حکمت عملی سراسر دعوت ہے اور تشدد سے پاک ہے۔ کیا سبب ہے کہ اب پاکستان میں ایسے پُرامن لوگ بھی محفوظ نہیں؟
طالبان کہتے ہیں کہ وہ اس دھماکے میں ملوث نہیں ہیں۔ یہ بات قرینِ قیاس ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ طالبان کہہ رہے ہیں، بعض دیگر اسباب سے۔ ایک بار پہلے بھی تبلیغی جماعت کا قافلہ طالبان کا ہدف بن چکا۔ اس دفعہ گمان یہی ہے کہ بعض دوسری قوتوں نے ملک کی ُپرتشدد فضا سے فائدہ اٹھایا ہے۔ پاکستان متنوع مفادات کی حامل قوتوں کے لیے ایک میدانِ جنگ ہے۔ عالمی قوتیں، علاقائی قوتیں، فرقہ وارانہ قوتیں، ملکی قوتیں... بے شمار قوتیں ہیں جو اپنے اپنے مفادات کی آبیاری کے لیے تشدد کو بطور حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ دانستہ یا نادانستہ، سب کا ہدف پاکستان اور یہ مظلو م قوم ہے۔ اس سے نجات کی صرف ایک صورت ہے۔ ہر عنوان سے برپا تشدد کی نفی۔
یہ بات سمجھنے کے لیے بقراط ہونا ضروری نہیں کہ تشدد صرف تشدد کو جنم دیتا ہے۔ یوں تشدد میں مسلسل اضافہ ایک سماج کو فساد کا گھر بنا دیتا ہے۔ کوئی بڑی سے بڑی وجہ ایسی نہیں جس کے لیے تشدد کی تائید کی جا سکے۔ نہ مذہبی غیرت نہ شخصی غیرت۔ اگر ہم اسلام کو فی الواقعہ راہنما مانتے ہیں تو وہ طاقت کو کلیاً ریاست کے حوالے کرتا اور سماجی سطح پر تشدد کی ہر قسم کو مسترد کر دیتا ہے۔ خاوند اگر بیوی کو اخلاقی طور پر پاکیزہ نہیں سمجھتا تو عدالت کے روبرو قسم کھائے گا۔ بیوی اپنی پاک دامنی کے لیے قسم اٹھائے گی۔ اسے لعان کہتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق دونوں کو اس صورت میں علیحدہ کر دیا جائے گا۔ تشدد کا سوال ہی نہیں بلکہ یہ حل ہی ان معاملات میں تشدد کا دروازہ بند کرنے کے لیے آیا ہے۔ ایک صحابی نے استفسار کیا: اگر ایک شخص اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ دیکھ لے (تو کیا اسے غیرت نہیں آئے گی؟) ارشاد ہوا: تمہارا پروردگار تم سے زیادہ غیرت مند ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے مکہ کے تیرہ برس صبر کو بطور حکمت عملی اختیار کیا۔ ظلم کے خلاف طاقت صرف اُس وقت استعمال کی جب مدینہ میں آپ کی حاکمیت قائم ہو گئی۔ طاقت کا اصول یہی ہے کہ اسے ایک نظم کے تابع رکھا جائے۔ اگر اسے بے مہار چھوڑ دیا جائے تو اس کا ناگزیر نتیجہ فساد اور تشدد ہوتا ہے۔
تشدد کو بطور حکمت عملی، ہمارے ہاں سب سے پہلے ریاست نے اختیار کیا جب فوج کی موجودگی میں نجی مسلح گروہ ترتیب دیے۔ یہ 1979ء میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کا موقع تھا۔ یہ کام اگر فوج کے ذریعے کیا جاتا تو ممکن ہے کہ اُس پر بھی تنقید ہوتی لیکن وہ ریاستی حکمت عملی کے حوالے سے ہوتی۔ سماج اس کے مضر اثرات سے بچ جاتا۔ اس با ب میں مذہبی جماعتوں نے ریاست کا پورا ساتھ دیا‘ جب نجی مسلح گروہوں کے لیے افرادی قوت مہیا کی گئی اور ساتھ دینی دلائل (religious narrative) بھی فراہم کیے گئے۔ جب غلبہء دین کے لیے استدلال کا یہ دروازہ کھل گیا تو پھر اس کو ایک دائرے میں محدود رکھنا ممکن نہ رہا۔ اگر سوویت یونین کے خلاف مسلح گروہ ترتیب دیے جا سکتے ہیں تو امریکہ کے خلاف کیوں نہیں؟۔ اگر کسی کے نزدیک اسلام کا سب سے بڑا دشمن 'الف‘ ہے اور وہ اس کے خلاف مسلح جدوجہد کر سکتا ہے تو جو 'با‘ کو یہی حیثیت دیتا ہے، وہ کوئی گروہ کیوں کھڑا نہیں کر سکتا؟ اب جیسے جیسے دشمنانِ اسلام کی فہرست طویل ہوتی گئی، مسلح لشکروں اور سپاہ کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ یہ دائرہ کا سفر بن گیا۔ مسلح گروہ ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہو گئے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو دشمنِ اسلام سمجھنے لگے۔ تشدد مسلسل انڈے بچے دیتا رہا ہے‘ اس لیے ہمارا ملک فساد سے بھر گیا۔
تشدد کے فروغ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان عالمی جہاد کا مرکز بن چکا۔ بزعمِ خویش ہم خود کو دنیا بھر کے مجاہدین کا میزبان سمجھتے ہیں۔ آ زادیء فلسطین، آزادیء کشمیر، سنکیانگ میں غلبہِ اسلام، چیچنیا اور ترکمانستان میں غلبہء مجاہدین، پاکستان اب ان تمام مقاصد کے لیے مسلح جدوجہد کا مرکز ہے۔ اس پر مستزاد مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا کھیل ہے، جس کے لیے برادر اسلامی ممالک نے بھی
پاکستان کو میدان جنگ بنا رکھا ہے۔ ہم ان تمام امور کے لیے دینی استدلال فراہم کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ مادی معاونت بھی۔ برادر اسلامی ملک اپنے ہاں کسی مسلح جدوجہد کو جائز نہیں سمجھتے لیکن پاکستان میں پُرتشدد رویوں کی پوری طرح آبیاری کرتے ہیں۔ اس کے بعد اگر یہاں تبلیغی جماعت جیسی پُرامن تحریک کے لوگ تشدد کا نشانہ بنیں تو اس پر حیرت نہیں ہو نی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جس سماج میں تشدد اس طرح سرایت کر چکا ہو، کیا ممکن ہے کہ محض طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایک مبہم خیال کے تعاقب سے وہاں امن آ سکتا ہے؟ میرا خیال ہے کبھی نہیں۔ اس کے لیے ریاست اور سماج کی سطح پر ایک منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک اس کام کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔
:1 ریاست تشدد کی ہر قسم سے لاتعلق ہو جائے، چاہے یہ قومی مفاد جیسے کسی محمود جذبے ہی سے کیوں نہ پھوٹا ہو۔ اگر بھارت یا کسی دوسری قوت کے خلاف طاقت کا استعمال ناگزیر ہے تو یہ اعلانیہ اور ریاست کی نگرانی میں ہو۔ اسلام میں قتال صرف اعلانیہ ہوتا ہے۔ اس کی واضح تعلیم یہ ہے کہ کسی ملک کے خلاف اگر قتال ناگزیر ہو جائے تو پہلے تمام معاہدوں کے خاتمے کا اعلان کرنا چاہیے۔
:2 جو برادر اسلامی ملک پاکستان میں بالواسطہ یا بلاواسطہ پُرتشدد جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں، سفارت کاری کے مروجہ طریقوں کے مطابق، ان سے بات کی جائے۔
:3 علما محراب و منبر سے اسے موضوع بنائیں کہ علما اور دینی جماعتوں کا کام صرف تبلیغ اور دین کا ابلاغ ہے۔ کسی مقصد کے لیے طاقت کا استعمال ان کے لیے ناجائز ہے۔ یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ داخلی سطح پر کسی مجرم کو سزا دے یا کسی بیرونی دشمن کے خلاف اعلانِ جنگ کرے۔
:4 تمام مذہبی سرگرمیوں کی تنظیم ریاست اپنے ہاتھ میں لے۔
:5 تشدد مذہبی مقصد کے لیے ہو یا سیاسی و سماجی مقصد کے لیے، اس کی ہر صورت قابلِ تعزیر ہو۔ کراچی کا تشدد سیاسی ہے۔ غیرت جیسے مقامی تصورات کے تحت خواتین کا قتل اور اس نوعیت کے دوسرے واقعات سماجی تشدد ہے۔ ریاست ایسے ہر واقعے میں فریق بنے اور مجرموں کو سخت سزا دے۔ سزائے موت کے خلاف مغربی دباؤ کو حکمت اور سفارت کاری کے ساتھ مسترد کر دینا چاہیے۔
یہ بات طے ہے کہ جہاں عام شہریوں کو جان و مال کا تحفظ نہیں، اس ریاست کا اخلاقی وجود ثابت نہیں۔ جس سماج میں تبلیغی جماعت جیسی عدم تشدد پر مبنی تحریک کے لوگ محفوظ نہیں، وہاں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تشدد کس طرح سرایت کر چکا ہے۔ اس باب میں خیبر پختون خوا کی حکومت سب سے ناکام ہے۔ پنجاب حکومت بھی اس حوالے سے کچھ کم نااہل نہیں ہے۔ جرائم روز افزوں ہیں اور قانون کہیں موجود نہیں۔ مرکزی حکومت کا ابہام اتنا واضح ہے کہ اب ناقابلِ فہم ہو چکا۔ پشاور کے اس واقعے سے اب کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ تشدد صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات سے ختم ہونے والا نہیں۔ ریاست اور سماج کو ایک ساتھ بروئے کار آنا ہے اور ایک منظم حکمت عملی کے تحت۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved