کھانے کے دوران مُنہ میں کنکر آ جائے تو؟ ظاہر ہے کہ کھانے کا مزا کِرکِرا ہو جاتا ہے۔ اِسی طور ایک آدھ کڑوا بادام چبانا پڑے تو؟ مُنہ بدمزا، بلکہ بے مزا ہو جاتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے صاحب کہ زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ زندگی کے دسترخوان پر بہت کچھ ہے مگر ہر ڈِش ہمارے مطلب اور مرضی کی نہیں۔ چند ایک چیزیں کڑوے گھونٹ کی طرح ہوتی ہیں۔ اُنہیں کسی نہ کسی طرح حلق سے نیچے اُتارنا ہی پڑتا ہے۔ اِسی طور بعض افراد بھی کڑوے بادام کی مانند ہوتے ہیں۔ اُن سے تعلق تلخی پیدا کرتا ہے۔ ایسے لوگ ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ یہ تو کسی کی بھی مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔
ہم میں سے ہر ایک کے اندرونی حلقے میں کوئی نہ کوئی ایسا فرد ضرور پایا جاتا ہے جس کے مزاج یا دماغ کا ٹیڑھا پن لاکھ کوشش پر بھی دور نہیں ہو پاتا۔ وہ کسی کے سمجھانے سے نہیں سمجھتا۔ ایسے ہر فرد کا نفسیاتی پیچیدگیوں کے ماہر سے چیک اپ کرایا جانا چاہیے مگر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو قائل کرنا انتہائی دُشوار ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہیں اور یہ کہ اُنہیں علاج کی ضرورت ہے۔
مرزا تنقید بیگ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ اُن کے مزاج کا ٹیڑھاپن کبھی کبھی معدوم ہوتا دکھائی دیتا ہے تو ہم جیسے قریبی لوگوں کے چہرے کِھل اُٹھتے ہیں۔ مگر کچھ ہی دیر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اصلاحِ احوال کچھ نہیں ہوئی، مرزا کا مزاج رنگ بدل کر ہمیں دھوکا دے رہا تھا ''زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق مرزا جو کچھ کہتے ہیں اُس پر اَڑ اور گڑ جاتے ہیں اور اِس وصف کے بل پر خود کو سَچّا پاکستانی قرار دیتے نہیں تھکتے۔
مرزا نے آج تک یہ بات تسلیم نہیں کی کہ اُن کا مزاج ٹیڑھا ہے۔ یہ بھی ٹیڑھے مزاج والوں کی ایک نمایاں نشانی ہے۔ اُن کی اہلیہ اور ہم تمام احباب کی حسرت ہی رہی ہے کہ مرزا کبھی اپنے مزاج کی کجی کا اعتراف کریں۔ ہماری اہلیہ کا استدلال ہے کہ اِس اعتراف سے گریز ہی مرزا کو ہمارا دوست ثابت کرتا ہے!
نفسیات، مزاج یا شخصیت کی کجی دور کرنے کے معاملے میں سب سے پیچیدہ بات یہ ہے کہ ہم برسوں بلکہ عشروں تک پنپنے والی خرابی کو چند لمحوں میں دور کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ہم کسی جادو نگری میں نہیں رہتے کہ آنکھ بند کرکے زیر لب کچھ بڑبڑائیں اور چند ساعتوں میں سب کچھ ہماری مرضی کے سانچے میں ڈھل جائے۔ مرزا کے معاملے میں ہم نے بارہا یہی غلطی کی اور اپنا سا مُنہ لے کے رہ گئے۔ ٹیڑھے مزاج کا فرد کِس گھر میں نہیں پایا جاتا؟ یہ تقریباً ہر گھر کی کہانی ہے۔ انور مسعود صاحب نے خوب کہا ہے ؎
اِک بات آ گئی ہے بہت کُھل کے سامنے
ہم نے مطالعہ جو کیا ہے سماج کا
اِک مسئلہ ہے سارے گھرانوں میں مشترک
ہر گھر میں ایک فرد ہے ٹیڑھے مزاج کا
اور یہ ایک ٹیڑھا فرد ہی گندی مچھلی کی صورت پورے تالاب کو گندا کرکے دم لیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کسی کے مزاج میں غیرمعمولی کجی ہوتی ہی کیوں ہے؟ اِسے اللہ کی مشیّت سمجھ کر برداشت کر لیا جائے یا نظرانداز کر دیا جائے؟ ہم نے مرزا کو اللہ کی مشیّت سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ اب ہم مرزا کی اصلاح کی کوشش سے تائب بھی ہو چکے ہیں۔ کئی برس کی تگ و دَو کے بعد ہم پر یہ عُقدہ کھلا کہ اصلاح کی کوشش مرزا کو مزید ناقابلِ اصلاح بنا رہی ہے۔
ہو سکتا ہے ماحول انسان کو غیرمعمولی بگاڑ سے دوچار کرتا ہو۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کسی بھی فرد کے مزاج کو بگاڑنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری اُس کے اہل خانہ پر عائد ہوتی ہے۔ کوئی بھی خرابی برداشت کئے جانے کی صورت میں پیچیدگی اختیار کرکے بحران میں تبدیل ہوتی ہے۔ ہماری سرکاری مشینری اِس کی روشن مثال اور بَیّن دلیل ہے۔ زخم کا بروقت اور کماحقہ علاج نہ ہو تو اُسے ناسور بننے سے روکا نہیں جا سکتا۔ برف کے ذرّوں کو گیند کی شکل میں لڑھکایا جائے تو بڑھتے بڑھتے یہ گولے میں اور پھر تودے میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ یہی حال مزاج کی کجی کا بھی ہے۔ اِس خرابی کو ابتدائی مرحلے میں شناخت کرکے روکنا ناگزیر ہے۔ نظرانداز یا برداشت کئے جانے کی صورت میں خرابی پنپتی جاتی ہے۔
ہم نے جب بھی مزاج کے ٹیڑھے پن پر غور کیا ہے، ہمیشہ کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل ہی ہتھیار ڈالے اور مزید سوچنے سے توبہ کی ہے۔ ماحول میں جس سمت نظر دوڑائیے، سبھی کچھ ٹیڑھا دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ ٹیڑھا پن کسی نہ کسی انسان ہی کا پیدا کردہ ہے۔
انور مسعود صاحب کا قطعہ خوب ہے۔ اُنہوں نے ایک بنیادی حقیقت کی خوب نشاندہی کی ہے تاہم ہمیں تو وہ زمانہ بھی تحلیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے جب ہر گھر میں ایک فرد ٹیڑھے مزاج کا ہوا کرتا تھا۔ اب گھر کی چاردیواری میں خیر سے اچھی خاصی مسابقت پائی جاتی ہے۔ گھر کے بیشتر افراد اپنے اپنے مزاج کی کجی کے ساتھ روز میدان میں اُترتے ہیں اور ہر ایک چاہتا ہے کہ اُسے چیمپین تسلیم کر لیا جائے۔
کیا لازم ہے کہ ہر گھر میں کوئی ایک فرد ٹیڑھے دماغ اور بگڑے ہوئے مزاج کا ہو؟ کیا ہر گھر میں ٹیڑھے مزاج والے کسی فرد کی موجودگی کو گھر کا نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے قدرت کا اہتمام سمجھا جائے؟ کیا ٹیڑھے مزاج کے لوگ سالن کے نمک کی طرح ہوتے ہیں یعنی اِن کے نہ ہونے سے گھر کا ماحول ادھورا یا بے مزا رہ جائے گا؟ اِس بحث سے قطعِ نظر کہ اِن سوالوں کا جواب نفی میں ہونا چاہیے یا اثبات میں، اصل مسئلہ اُس وقت جنم لیتا ہے جب گھر کا کفیل ٹیڑھے مزاج کا ہو۔ عام مشاہدہ ہے کہ جس کے دم سے گھر چل رہا ہو اُس کی ہر خرابی برداشت کرنی پڑتی ہے اور کی جاتی ہے۔ یہ بگاڑ کی ابتداء اور اولین سبب ہے۔ گھر کو چلانے کے معاملے میں والدین کو شیر کا سا انداز اختیار کرنا چاہیے مگر اِس کے لیے شیر کا جگرا درکار ہوا کرتا ہے۔ اور بیشتر والدین کماؤ پوت کے سامنے ہر معاملے میں بالعموم بھیگی بلّی کی سی طرزِ عمل اختیار کرتے جاتے ہیں۔
غور کیجیے تو اب ہمارا پورا معاشرہ یہی منظر پیش کر رہا ہے۔ بہتوں کی کجی اِس حد تک برداشت اور گوارا کی گئی کہ اب وہ سَروں پر چڑھ کر ناچ رہے ہیں۔ سرکاری مشینری کو ہم نے جھیل جھیل کر اِس قدر بگاڑ دیا ہے کہ اب سیدھی ہونے پر آئے تو شاید بگاڑ بڑھ جائے۔ سیاست دانوں کے مزاج کی کجی کے بھی خوب ناز اُٹھائے گئے ہیں۔ اِس کا نتیجہ اِس کے سِوا کیا ہو سکتا تھا کہ اب کچھ بھی سیدھا دکھائی نہیں دے رہا۔
مگر خیر، زندگی کے بازار میں سبھی کچھ تو اپنی مرضی کا نہیں ملا کرتا۔ کچھ چیزوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے‘ جیسا کہ ہم نے مرزا تنقید بیگ کے معاملے میں کر رکھا ہے۔ اگر آپ کے اندرونی حلقے میں بھی اگر کوئی ناقابلِ اصلاح یا ٹیڑھے مزاج کا ہے تو اُسے اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کیجیے، کڑوی دوا کا گھونٹ سمجھ کر حلق سے اُنڈیل لیجیے۔ مگر یاد رکھیے، یہ استثنائی عمل ہے۔ ایک حلقے میں کوئی ایک ٹیڑھا شخص ہی ہضم کیا جا سکتا ہے۔ کسی ایک آئٹم میں کمپنی فالٹ قابلِ برداشت ہو سکتا ہے، پوری کمپنی ہی فالٹ والی ہو تو کسی صورت جھیلی نہیں جا سکتی۔ سالن میں نمک ضرورت اور ذائقے کے مطابق ہی اچھا لگتا ہے۔ کوئی نمک کی ڈَلی کو گولے گنڈے کی طرح نہیں چُوستا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved