سٹیٹ بنک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹیں‘ کسی بھی ملک کے لیڈروں اور عوام کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہیں۔ تمام اعشاریے صرف ایک ہی سمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ ہے زرمبادلہ کی قلت‘ قرضوں میں اضافہ‘ معاشی بحران اور مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ حکومتی پالیسیوں پر نظر ڈالی جائے‘ توواضح ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی مسئلے پر توجہ مرکوز کر کے‘ ایک واضح ہدف کو حاصل کرنے کا ٹارگٹ سامنے نہیں۔ اب تک کا حکومتی ریکارڈ ظاہر نہیں کرتا کہ حکومت کے پاس کوئی ہوم ورک یا پہلے سے غوروفکر کے بعد طے کیا گیا‘ کوئی منصوبہ موجود ہو۔ انتخابی مہم کے دوران بہت شور مچایا گیا تھا کہ ہم آتے ہی گردشی قرضے ختم کر دیں گے۔ انہیں ختم کرنے کے لئے‘ سٹیٹ بنک اور سرکاری محکموں میں پڑی رقوم نکال کر ‘ بجلی کمپنی کے مالکوں کو دے دی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واجبات ''چوروں کا مال اور بانسوںکے گز‘‘ کے مصداق بے تحاشا نرخ لگا کر تیار کئے گئے تھے۔ کسی طرح کی چیکنگ اور بارگیننگ نہیں کی گئی۔ جو انہوں نے مانگا‘ آنکھیں بند کر کے دے دیا گیا۔پتہ نہیں یہ بھاری رقوم کہاں کہاں تقسیم ہوئیں؟ یہ گردشی قرضے اتارنے کا فائدہ کس کو ہوا؟ محض وصولیاں کرنے والوں کو۔ نہ حکومت کے سر سے کوئی بوجھ اترا۔ نہ لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی۔ نہ عوام کوئی سہولت حاصل کر سکے۔ گردشی قرضے اتارنے کا فیصلہ اندھے کی لاٹھی تھا‘ جس کی کوئی سمت مقرر نہیں تھی۔دہشت گردی ‘ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ وہ حکومت ہے‘ جو طالبان کی طرف سے مہیا کی گئی انتخابی سہولتوں کے نتیجے میں قائم ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کے مخالفین کو دھمکی دے دی گئی تھی کہ وہ اپنی انتخابی مہم سوچ سمجھ کر چلائیں۔ ورنہ انہیں دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فطری طور سے عام ووٹر اور کارکن‘ دہشت گردوں کا نشانہ بننے کے لئے‘ روایتی جوش و خروش کے ساتھ میدان میں ہی نہیں اترے۔
مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کودہشت گردوں کی طرف سے مکمل تحفظ اور آسانیاں فراہم کی گئیں‘ جن کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پراپیگنڈا کیا گیا تھا کہ اس کے پاس ماہرین کی بہترین ٹیمیں ہیں۔ ہر شعبے میں ترقی اور تبدیلی کے لئے انہوں نے پہلے سے منصوبے تیار کر کے‘ ٹارگٹ مقرر کر رکھے ہیں۔ جیسے ہی اقتدار ملا‘ پہلے سے تیارشدہ ٹیمیں ‘پلک جھپکتے میں کارکردگی شروع کر دیں گی اور عوام کو جلد ہی نتائج بھی نظر آنے لگیں گے۔ اپنی بات کہنے سے پہلے آپ کو یاد دلائوں گا کہ جب جنگ کی تباہ کاریوں ‘ معیشت کے انہدام اور قومی سطح پر حوصلوں کی پستی کے دور میں‘ ذوالفقار علی بھٹو نے ہنگامی طور پر ملک کا انتظام سنبھالا‘ تو تمام بڑی بڑی تبدیلیوں کا 3ماہ کے اندر اندر نفاذ کر دیا گیا اور طوفانی رفتار سے کام شروع ہو گیا۔ جب کوئی پارٹی پہلے سے تیار شدہ پروگرام اور منصوبوں
کے ساتھ اقتدار کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہے‘ تو پھر اسے نتائج دکھانے کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عوام کو فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ حکمران واقعی کوئی ایجنڈا اور سوچا سمجھا پروگرام لے کر آئے ہیں۔ یہ حالات کے سازگار ہونے کا انتظار نہیں کریں گے۔ حالات کی لگامیں خودتھام کر ‘ منزل کی طرف بڑھنا شروع کر دیں گے۔ اس پس منظر میں موجودہ حکومت کا عرصہ اقتدار اور کارکردگی دیکھیں اور پھر سوچیں کہ اس نے‘ کونسے کام پر پہلے سے تیار کی گئی حکمت عملی کے تحت ہاتھ ڈالا ہے؟ دہشت گردی جو عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ نہ تو اسے حل کرنے کے لئے کوئی سکیورٹی پلان تیار کر کے‘ عملدرآمد شروع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سیاسی حکمت عملی بنا کر‘ اس کے تحت کام شروع ہوئے۔ آل پارٹیز کانفرنس اور اس کے بعد ٹائیں ٹائیں فش۔ وزیرداخلہ صاحب‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خبریں سناتے ہیں اور طالبان کی طرف سے کبھی چرچ‘ کبھی تبلیغی جماعت کے اجتماع اور کبھی مزاروں پر دھماکوں کی صورت میں جواب ملتا ہے۔ ایک طرف سے مذاکرات مذاکرات کی گردان ہوتی ہے اور دوسری طرف سے ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ۔ اگر پہلے سے بنائے گئے منصوبوں کے تحت‘ اسی طرح کام کئے جاتے ہیں‘ تو پھر ٹامک ٹوئیاں مارنا کس بلا کا نام ہے؟ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے بڑے بڑے دعوے کئے گئے تھے۔ سب جانتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ ‘ پیداواری صلاحیتوں میں کمی کی وجہ سے نہیں‘ بدانتظامی کے سبب ہے۔ بجلی کمپنیوں کو بروقت واجبات ادا کر کے ایندھن کی فراہمی شروع ہوجائے‘ تو لوڈشیڈنگ چھ گھنٹے میں ختم ہو سکتی ہے۔منتخب حکومت اس شعبے میں بھی بدانتظامی ختم نہیں کر پائی۔ چند روز میں پرانے گردشی قرضے ختم کر کے‘ بڑے بڑے نعرے لگائے گئے تھے۔ اب گردشی قرضوں کا بوجھ پہلے سے بھی زیادہ ہو چکا ہے اور سردیوں کے موسم میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ‘ گرمیوں کے موسم کی لوڈشیڈنگ سے بڑھ گیا ہے جبکہ بجلی کی کھپت گرمی میں زیادہ ہوتی ہے اور سردی میں کم۔ اگر آج ہماری یہ حالت ہے‘ تو گرمیوں میں کیا ہو گی؟ ماہرین کی ایک بہترین ٹیم جناب اسحق ڈار کی قیادت میں بھی بھرپور ہوم ورک کر کے‘ کارنامے دکھانے کی دعویدار تھی۔ عوام کو بتایا گیا تھا کہ مسلم لیگ کے پاس اعلیٰ پائے کے ماہرین اور حکومت چلانے کا تجربہ رکھنے والے ٹیکنوکریٹ اور سیاستدان موجود ہیں۔ وزارت خزانہ ہمارے عظیم ٹیکنوکریٹ اور
سیاستدان جناب اسحق ڈار کے سپرد کی گئی اور موصوف نے ایسے جلوے دکھائے کہ عام آدمی تو کیا؟ سیٹ بنک پر بھی کپکپی طاری ہو چکی ہے اور وہاں سے دہائیاں دی جا رہی ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی آ رہی ہے ۔ اگر فوری توجہ نہ دی گئی‘ تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ ہمارے عظیم چارٹرڈ اکائونٹنٹ (جو کہ معیشت دان نہیں ہوتا )نے ہنرمندانہ تفاخر کے ساتھ شرح ترقی میں اضافے کی جو نوید سنائی تھی‘ سٹیٹ بنک نے اس کی بھی ہوا نکال دی ہے اور بتایا ہے کہ معیشت کی موجودہ صورتحال میں وہ شرح ترقی حاصل نہیں کی جا سکے گی‘ جس کا دعویٰ وزیرخزانہ نے فرمایا ہے اور ایک بات کا تو انہوں نے بڑے ہی اعتماد سے اعلان کیا تھا کہ چند ہی روز میں ہم ڈالر کو 100 روپے سے نیچے لے آئیں گے۔ ان کی دی ہوئی مدت گزر چکی۔ ڈالر وہیں پر بیٹھا‘ ڈار صاحب کا منہ چڑا رہا ہے۔ 100 روپے سے نیچے تو کیا آنا تھا‘ 105روپے سے بھی نیچے نہیں اترا۔
بیروزگاری میں کمی کرنے کا منصوبہ ‘ قرضہ سکیم کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اربوں روپے کاروبار کے لئے بانٹے جائیں گے۔ موجودہ صورتحال میں ایک سے 20لاکھ روپے کی رقم میں کونسا کاروبار چلایا جا سکتا ہے؟ کون مائی کا لال ہے‘ جو بجلی اور گیس کے بغیرچھوٹی سی بھٹی یا سلائی مشین بھی چلا سکے؟ کرائے کی دکان لے کر بھی بیٹھے گا‘ توقسمت کو روئے گا۔ اتنا بھی نفع نہیں ہو گا کہ دکان کا کرایہ ادا کر سکے۔ چند لاکھ روپے قرض کی رقم ایک ناتجربہ کار کے ہاتھ میں دے کر‘ بیروزگاری تو کم نہیں کی جا سکتی۔ البتہ بہت سے ''مقروض بیروزگار‘‘ ضرور پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ فرق صرف یہ پڑے گا کہ وہ بیروزگار جس کے سر پر پہلے قرض کا بوجھ نہیں تھا‘ اب سرکاری قرض کے بوجھ میں دبا ہوا بیروزگار بن جائے گا۔ پہلے اس کا ستیاناس تھا‘ اب سوا ستیاناس ہو گا۔ بیروزگاری میں کمی کا شاندار منظر تو آپ نے چشم تصور سے دیکھ لیا لیکن بیروزگاری کے جو نئے جھکڑ چلنے والے ہیں‘ وہ ابھی شروع نہیں ہوئے۔ بڑے بڑے اور بھاری اثاثوں کے مالک سرکاری ادارے‘ سرمایہ داروں کے ہاتھ میں دینے کے منصوبوں پر عمل شروع ہونے والا ہے۔ بیس پچیس فیصد رقم کی ادائیگی پر ان اداروں کا سوفیصد انتظام سرمایہ داروں کے سپرد کر دیا جائے گا۔ روایت کے عین مطابق وہ اپنی لگائی ہوئی رقم پہلی فرصت میں‘اس ادارے کے اثاثوں میں سے نفع کے ساتھ نکال لیں گے۔ اس کے بعد وہ ان اداروں کو چلانے کے لئے‘ حکومت سے مراعات مانگنا شروع کر دیں گے۔ سرمایہ داروں کے سپرد کئے گئے اداروں کوچلانے کی ذمہ داریاں پھر حکومت کے گلے پڑیں گی۔ البتہ بیروزگاروں کی ایک نئی کھیپ کا اضافہ ہو جائے گا۔ اگر قارئین میں سے کسی کے علم میں موجودہ حکومت کی تیارکردہ کوئی سکیم کامیابی سے زیرعمل آ رہی ہو‘ تو ازراہ کرام اس کی نشاندہی فرما دیں۔ تاکہ لوگوں کو پتہ تو چل جائے کہ ماہرین کی ٹیموں نے کونسے کارنامے انجام دیئے ہیں؟