تین ہفتے ہونے کو آئے۔ نئے سال کا سورج بے شمار نئی خواہشات اور خوابوں کی کرنیں لیے طلوع ہو چکاہے۔ وہ سارے خواب جو کئی دہائیوں سے اُدھورے چلے آرہے ہیںکیا ان کی تکمیل کا آغاز ہو پائے گا؟
ظہیر کاشمیری جیسے امیدوں کے جہان بسانے والے تو برسوں پہلے کہہ گئے تھے کہ ؎
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں‘ اُجالا ہے
خود کو چراغِ آخرِ شب سے تعبیر کرنے والے ظہیر کاشمیری اور اُس نسل کے پُرامید لوگوں کے یہ وہم وگمان میں بھی نہیں ہو گا کہ آخرِ شب کے لمحات جو عموماً جلد گزر جایا کرتے ہیں ہمارے راہنمائوں کی نااہلی، بددیانتی اور بدنیتی کے باعث انتہائی طویل ہو جائیں گے۔ اتنے طویل کہ برسوں نہیں دِہائیاں ہو گئیں اور آخرِ شب کی یہ تاریکی چھٹنے ہی میں نہیں آرہی... ظلمت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی... دن ہے کہ نکلنے ہی پہ نہیں آرہا... اُجالا ہے کہ اپنے رُخِ انور کا درشن کرانے پہ تیار ہی نہیں ہے۔
کوئی تاریکی سی تاریکی ہے جو پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے!
کوئی ناامیدی سی ناامیدی ہے جس نے میرے وطن کو اپنی بانہوں میں جکڑ رکھا ہے!
کوئی مایوسی سی مایوسی ہے جس نے میری دھرتی پہ پَر پھیلائے ہوئے ہیں!
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے جسے دیکھ کے دشت گھبرا جائے !
کرپشن ،بددیانتی، بدامنی، اغواء برائے تاوان، ہر قسم کی انتہا پسندی، فرقہ واریت ، جھوٹ، فریب، فراڈ، چوربازاری، دھوکہ دہی، موروثی و انتقامی سیاست، جھوٹی انائوں میں گوڈے گوڈے لتھڑے ہوئے اربابِ اختیار، قتل، ڈاکے، چوریاں... یقینا 2013ء اہل وطن کو بے شمار دُکھ دے کر گزرا لیکن 2013ء بھی جس میں قوم کے لیے تیرگی ہی تیرگی تھی ،اپنی تمام تر آفات اور مصائب کے ساتھ بالآخرختم ہو ہی گیا... جیسے تیسے کر کے ہی سہی مگر نئے سال کا سورج طلوع ہو ہی گیا۔ جیسے 31 دسمبر کی شام کے سورج کی گود میں پچھلے سال نے اپنی تمام تر تلخیوں سمیت دم توڑا اور نئی امیدوں ،آنسوئوں کے ساتھ 2014ء نئے سورج کی انگلی تھامے طلوع ہوا ،ایسے ہی امید رکھنی چاہیے کہ پاکستانیوں کی تاریکیوں کے دن بھی دم توڑیں گے اور امیدوں کے چراغ انشاء اللہ ضرور طلوع ہوں گے ع
اک ذرا صبرکہ اب جبر کے دن تھوڑے ہیں
اور صبر کرنے والوں کے ساتھ تو اللہ بھی ہوا کرتا ہے، مگر یقینا ان صبرکرنے والوں کے ساتھ جو جبر سے لڑائی کے دوران اٹھنے والی مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں۔ جبر کے آگے زیر ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ جانے والے صابر نہیں ،بزدل کہلائیں گے ؎
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
مانا کہ پاکستان میں مایوسیوں کی ہزار وجوہات ہیں۔ دل چھوٹا کرنے کے، پاکستان سے مایوس ہونے کے لاتعداد اسباب ہیں، مگر امید کے بھی تو کتنے دیے روشن ہیں امید کے یہ چراغ مدھم سہی مگر روشن تو ہیں ع
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
ان امیدوں سے بھرے چراغوں کی تہہ میں ایندھن ڈال کر ان کی روشنی تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی روشنی جس سے تاریکیاں چھٹ جائیں اور پاکستان ویسے منور ہو جائے جیسے ڈاکٹر محمد اقبال اورمحمد علی جناح کی خواہش تھی، جس کی روشنی کی خاطر ہمارے پُرکھوں نے اپنے لہو کا تیل پاکستان کے قدموں میں نچھاور کر دیا تھا۔
ناکامی ضرور ہے اور ناکامیوں کی ایک طویل فہرست اور تاریخ ہے ،پھر بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ پاکستان ہی ہے جس کے بارے میں دشمنوں کا خیال تھا کہ یہ تین ماہ سے زیادہ نہیں چل پائے گا مگر تمام تر بے سروسامانی کے باوجود پاکستان اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا۔ یہ وہی ملک ہے جس نے کسی باقاعدہ سسٹم اور ادارہ جاتی نظام کے بغیر جہانگیر ، جان شیر ، عمران، میانداد، محمد یوسف، حسن سردار، سمیع اللہ جیسے مختلف میدانوں میں بے شمار کھلاڑی پیدا کیے۔ یہ وہی ملک ہے کہ آغاز میں جس کے بنائے ہوئے منصوبوں کو مختلف ممالک نے فالو کیا۔ یہ وہی ملک ہے جس نے جہالت کے باوجود عظمتوںکو چھونے والے سائنسدان پیدا کیے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں فیض جیسا شاعر اور نصرت فتح علی خان جیسا گائیک جنم لیتا ہے۔ یہ صادقین اور شاکر علی کا ملک ہے ۔یہ وہی ملک ہے جو دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو اٹیمی طاقت کہلاتے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جہاں ارفع کریم جیسی بیٹیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جہاں آقائے دو جہان ﷺ کا ذکر آتے ہی آپس کے سارے اختلاف بھول کر عقیدت کے چشمے بہاتے عوام آقاؐ کے نام پہ پل میں یکجا ہوجایا کرتے ہیں۔ یہ عبدالستار ایدھی ، چھیپا ، ادیب رضوی اور امجد ثاقب جیسے لوگوں کو جنم دینے والا ملک ہے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باوجودعوام اپنی مدد آپ کے تحت کینسر ہسپتال جیسے کئی فلاحی ادارے بناتے اور چلاتے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جو آج دنیا کی بہترین ائیرلائنز چلانے والوں کو کبھی تربیت دیتا تھا ‘انہیں سکھاتا تھا۔ یہ وہی ملک ہے جہاں عوام نے آمریت کو کم سے کم چار مرتبہ سخت مقابلے کے بعد اپنے جوتے چاٹنے پر مجبور کیا۔ آمر آیا تو ضرور مگر بالآخر اسے جانا پڑا۔ اس ملک کی طاقت اس کے اٹھارہ کروڑ سے زائد عوام ہیں۔ اس ملک کی طاقت وہ کروڑوں نوجوان ہیں جو ماضی کی غلطیاں دہرانا نہیں چاہتے ‘جو تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں ‘جو موروثی سیاست سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جس میں چار موسم ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جو دنیا کا بہترین کینو، چاول، کپاس اور جانے کیا کیا کچھ پیدا کرتا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس کے پہاڑوں کو قدرت نے سونے اور تانبے جیسے بے شمار ذخائر سے مالا مال کر رکھا ہے۔ یہ وہی ملک ہے کہ اگر صرف اپنے کوئلے کو ہی صحیح طریقے سے استعمال میں لائے تو اتنی روشنیاں جگمگا اٹھیں کہ اس ملک میں اندھیرے کا تصورتک باقی نہ رہے۔یہ وہی ملک ہے جس میں صحرا بھی ہیں ‘پہاڑ بھی ‘سمندر بھی ‘دریا بھی ‘ندی نالے بھی ‘گلیشیئربھی ‘جھرنے بھی ‘چشمے بھی ‘کے ٹو بھی ‘گوادر بھی۔ اس ملک کی صفتیں گنوانا شروع کروں تو کالم کے کالم بھر جائیں مگر اس دھرتی ماں کو عطا ہونے والی نعمتیں بیان نہ کر پائوں۔ حکیم سعید کی ایک بات پر جو سو باتوں کی ایک بات ہے ،کالم کا اختتام کرتا ہوں مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ
پاکستان ‘مثلِ سورۂ رحمن
کہ سورۂ رحمن میں جتنی نعمتوں کا ذکر ہے وہ تمام کی تمام پاکستان میں موجود ہیں۔ سچی بات ہے جب میں اپنی دھرتی ماں پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے قرآن کی اور ایک آیت یاد آتی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ
تم اللہ کی نعمتوں کا شمار نہیں کر سکتے... پاکستان کو بھی جو نعمتیںمیرے مالک نے عطا کی ہیں ان کا شمار ممکن نہیںہے۔۔ آخر میں پھر فیض کا پرامید مصرعہ ع
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے