ایک نئی دنیا تخلیق ہو رہی ہے‘ بہرحال اسے تخلیق ہونا ہے۔ یہ بات حکمرانوں کو سمجھ لینی چاہیے اور ان کے قلمی کارندوں کو بھی۔ باز آئو اور زندہ رہو۔
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا‘ وہ عالمِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا‘ قمار خانہ
پہلی بار سنا تو تعجب ہوا کہ حاکم کی جائز حمایت سے بھی سرکارؐ نے منع کیا تھا۔ یوں بھی منہ پر تعریف کرنے سے۔ اہلِ علم ہی کو زیبا ہے کہ اس کے اسرار پہ بات کریں۔ عامی بھی غور کرے تو معنی کے کئی جہان روشن ہوتے ہیں۔ ستائش تو ہونی ہی تھی۔ آپ سے زیادہ کون جانتا تھا کہ بے علم بھی ہوتے ہیں اور بندوں سے نفع و ضرر کی امید پالنے والے بھی۔
غالباً والٹیر کا جملہ ہے: Every word of a writer is an act of generosity۔ لکھنے والے کا ہر لفظ فیاضی کا مظہر ہوتا ہے۔ محسوسات میں آباد کر کے اگر رقم ہو۔ اگر اسے ایک زندہ تجربے کے طور پر برتا جائے۔ میر تقی میر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا ذاتی غم بھی غمِ دوراں لگتا ہے۔ وسیع تر سیاق و سباق میں بڑی تصویر وہ دیکھتے ہیں۔ حسرت موہانی کو پڑھیے تو درد کی ایک لہر‘ دانش کی ایک رو ساتھ ساتھ بہتی ہے۔ شورش کاشمیری کی بہترین نثر ان کا سفرنامہ ہے‘ حج کا۔ مکہ کے باب اولین میں انہی کے شعر کو سرنامہ کیا ؎
یہ ذوقِ سجدہ جانے کس جگہ پر مجھ کو لے آیا
جہاں اپنی جبیں‘ اپنی جبیں محسوس ہوتی ہے
اپنے ارادوں کا آدمی‘ مردِ آزاد۔ چینی مفکر نے کہا تھا: لکھنے والے کی مرضی ہے کہ بھکاری بنے یا بادشاہ۔ سرکاری اخبار نویس ان دنوں آزردہ بہت ہیں۔ بے بس۔ گنوار خواتین کی مانند طعنہ زنی۔
جلاوطنی سے واپسی کے بعد میاں محمد شہباز شریف سے پہلی ملاقات تھی۔ فرمایا: کوئی مشورہ دو۔ عرض کیا۔ غور کیے بغیر مشورہ کیا۔ اتنی سی عرض ہے کہ اخبار نویس نہ پالیے۔ آزادوں کو وہ چڑاتے ہیں‘ ٹوکنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ گاہے مؤدبانہ اختلاف بھی کر نہیں سکتے۔ بعد کو پچھتاوا ہوتا ہے۔ حیرت سے وہ میری طرف دیکھتے رہے۔ غالباً یہ سوچتے ہوں گے کہ ایسی صورت میں نقادوں کا اثر کیونکر زائل ہو گا۔
قائداعظم کی سیرت پڑھی ہوتی۔ ممبئی میں ایک پارسی اخبار نویس تھا‘ کراکا نام کا۔ مستقل طور پر ان کے خلاف لکھا کرتا۔ ایک شب وہ مدعو کیا گیا اور تاریخ ساز رہنما نے اس سے تبادلۂ خیال کیا۔ وہ حیران کہ ذرا سی شکایت بھی نہیں۔ گفتگو میں رنج کا شائبہ تک نہ تھا۔ فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تم ایماندار آدمی ہو‘ کسی کی خاطر نہیں لکھتے۔ غالباً کوئی ایسا نکتہ اس کے قلم سے نکلا ہوگا‘ جو شاید دل کو لگا ہو۔ ممکن ہے اسے فہیم اور رمز آشنا پایا ہو۔ واقعی وہ سعید فطرت ثابت ہوا۔ آخر کو مسلمان ہوا۔ خود نوشت لکھی ''Then comes Hazrat Ali‘‘ پھر حضرت علیؓ آئے۔ خواب میں عالی جناب کو دیکھا اور مسلمان ہو گیا۔ اس کی مٹی میں کہیں کوئی نور تھا‘ جو محمد علی جناح نے پہچانا۔
لازم نہیں کہ سرکار کا ہر اقدام ناقص ہو یا ہر مؤقف بے بنیاد۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ حکومت کے خلاف لکھنے والے لازماً انصاف پسند اور غیر متعصب ہوں۔ فاروق اعظمؓ نے کہا تھا: لوگوں کو اپنے حاکموں سے نفرت ہوا کرتی ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ حکومت رخصت ہو چکے تو اس کے بعض محاسن نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ جس طرح بارش کھنڈرات کو اُجاگر کر دیتی ہے یا مٹے ہوئے لفظوں پہ باردگر لگائی جانے والی سیاہی۔ اس لیے کہ جبر باقی نہیں رہتا تو ردعمل اور تعصبات بھی دُھل جاتے ہیں۔ ماضی گوارا محسوس ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو گل رنگ بھی۔
سرکاری صحافی مگر اس قدر ناراض کیوں ہیں؟ بلکہ برہم۔ گویا ایک افتاد آتی ہو۔
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو‘ آسماں جیسے
جنرل پرویز مشرف کے باب میں‘ شریف خاندان کا مؤقف یکسر بے بنیاد نہیں۔ مشرف کے حامی بھی فرشتے نہیں۔ سابق فوجی افسروں کے جذباتی رویے پہ حیرت ہوتی ہے۔ تاثر یہ جنم لیتا ہے کہ وہ ایک الگ برادری کی مانند سوچتے ہیں۔ یہ زیبا نہیں۔ ناچیز نے یہ بات ٹی وی پر کہی اور لکھی بھی۔ رائے ہماری بھی یہی ہے کہ مقدمہ اگر چلانا ہو تو ضرور چلایئے۔ آپ کا حق ہے مگر انصاف ہو اور ہوتا نظر بھی آئے۔ بار بار گزارش کی کہ 70 فیصد رائے دہندگان نے 12 اکتوبر 1999ء کے مارشل لاء کا خیرمقدم کیا تھا۔ جس طرح کہ 83 فیصد نے جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرنے کی حمایت کی۔ یہ دونوں سروے گیلپ نے کیے اور اس کے کرتا دھرتا نوازشریف کے پرجوش حامی ہیں۔ مؤدبانہ یہ بھی عرض کیا کہ ججوں کو جنرل سے تکلیف پہنچی تھی۔ اس اعتبار سے وہ فریق ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ جناب افتخار چودھری کی سبکدوشی کے بعد عدالت کا رویہ زیادہ شائستہ ہے۔ معاشرے کے متنوع طبقات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مقدمہ 12 اکتوبر 1999ء پہ کیوں نہیں؟ ظاہر ہے کہ جرم تبھی سرزد ہوا تھا۔ نومبر 2007ء کی جسارت اسی عمل کی اولاد تھی۔ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا۔
ٹھنڈے دل سے خاکسار نے غور کیا ہے۔ یہ بات نہ کہنی چاہیے کہ اب کی بار مارشل لاء لگا تو خونیں ہوگا۔ محض یہ ایک مفروضہ ہے۔ اوّل تو لگے ہی کیوں۔ 1958ء سے 2008ء تک نصف صدی کے تجربے سے قوم نے سیکھا ہے کہ وقتی طور پر خواہ فائدہ ہو‘ بالآخر اس سے غیر معمولی بگاڑ جنم لیتا ہے۔ قیادت پنپتی ہی نہیں۔ ثانیاً خدانخواستہ ایسا ہو بھی تو یہ لازم کیوں ہے کہ وہ خون بہائے۔ مارشل لاء تب نافذ ہوتا ہے‘ جب قوم اسے قبول کرنے پر آمادہ ہو۔ اگر آمادہ ہو تو خون بہانے کی ضرورت کیوں پڑے گی‘ پھر یہ بات جس انداز میں کہی جاتی ہے‘ اس سے گمان ہوتا ہے کہ گویا یہ طرزِ عمل تجویز کیا جا رہا ہے۔ یہ خطرناک ہے۔ سول حکمرانوں اور ان کے حامیوں کو بھی مگر غور کرنا چاہیے کہ ہر بار قوم جنرلوں کی تائید کیوں کرتی ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ سیاستدان بھی آمروں کی طرح ملک چلاتے ہیں۔ اختیار نیچے منتقل نہیں کرتے۔ بلدیاتی الیکشن سے وہ گریزاں ہیں اور کرانا ہی پڑیں تو ان اداروں کو اختیار سے محروم کر کے۔ نچلی سطح سے قیادت کیسے پروان چڑھے گی۔ اگر نہ چڑھے گی تو ملک ڈھنگ سے چلے گا کیسے۔ کیا صوبائی اور مرکزی اسمبلیاں بلدیات کا کردار بھی ادا کریں گی۔ فطری قیادت دیہات اور محلے کی سطح تک صحت مند سیاسی پارٹیوں کی تشکیل سے اُبھرتی ہے‘ تربیت پاتی ہے۔ کیا مذاق ہے کہ پارٹی وراثت میں ملتی ہے‘ ایک شخصیت اور خاندان کے گرد گھومتی ہے۔ حد ہے کہ محمود اچکزئی ایسے شخص نے سگے بھائی کو گورنر بنوا دیا۔
زمانہ بدلتا ہے تو نئے تقاضوں کو جنم دیتا ہے۔ ان سے گریز کا نتیجہ دوسری خرابیوں کے علاوہ قدامت پسندی کو سیراب کرتا ہے۔ آگے بڑھنے سے آپ انکار کرتے ہیں اور ماضی میں زندہ رہتے ہیں۔ غیر سائنسی اندازِ فکر اور پانچ سات سو برس سے یہ عالم اسلام کا المیہ ہے۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا میں جہاں آج بھی توے پر روٹی پکائی جاتی ہے۔ مورخ ٹائن بی نے کہا تھا: برصغیر میں گزرے دس ہزار برس‘ آج کے ساتھ ساتھ بروئے کار رہتے ہیں۔
میڈیا آزاد ہے اور عدالت بھی۔ حکمرانی کا انداز بھی بدلنا ہوگا۔ زمانے کے ساتھ جو لوگ نہیں بدلتے‘ وقت انہیں روند کر گزر جاتا ہے۔ ایک نئی دنیا تخلیق ہو رہی ہے‘ بہرحال اسے تخلیق ہونا ہے۔ یہ بات حکمرانوں کو سمجھنی چاہیے اور ان کے قلمی کارندوں کو بھی۔ باز آئو اور زندہ رہو۔
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا‘ وہ عالمِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا‘ قمار خانہ