تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     19-01-2014

اب غلطی کی گنجائش نہیں!

کسی نہ کسی کا احتساب ضرور ہونا چاہیے، کسی کو برخاست کیا جانا چاہیے۔ پی آئی اے کے ملازمین نہایت سنجیدگی سے مستقبل میں یہی کہا اور کیا کریں گے۔ فی الحال پی آئی اے کا کلچر یہ رہا ہے کہ سب ملازمین اپنے ساتھیوں کی غلطیوںکی پردہ پوشی کرتے ہوئے کسی کو قصوروار ٹھہرانے کی اجازت نہیں دیتے۔ ایک مسافر ، جو میرے شوہر تھے، کے مطابق 7جنوری کوکراچی سے نیویارک جانے والی فلائٹ پی کے 721پورے دو گھنٹے لیٹ تھی۔۔۔ اور یہ معمول کی بات تھی۔ پی آئی اے کی بہت سی خرابیوں کے باوجود ہم قومی ائیرلائن سے پرواز کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں، لیکن یہ موقع ان وجوہ کو گنوانے کا نہیںہے۔ 
''مسافر ‘‘ کے بیان کے مطابق پی کے 721 نے کراچی سے ایک گھنٹہ تاخیر سے پرواز کی۔ اس کی وجہ یہ کہ تھی ایک مسافر، جس نے ٹورنٹو جانے والی فلائٹ لینی تھی، غلطی سے اس نیویارک جانے والے جہاز پر بیٹھ گیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس غلطی کا جلد ادراک ہو گیا اور مسافر کو جہاز سے اتار لیا گیا لیکن کسی مسافر کا جہاز میں رکھا گیا سامان تلاش کرکے اتارنا بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مسافر کا سامان تلاش کرنے میں چالیس سے پچاس منٹ لگ گئے۔ ایک قومی ائیر لائن میں اس طرح کی غلطی پر کس کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جائے؟ اس پر پی آئی اے کوبھی بھاری نقصان ہوا اور اس دوران مسافروںکو بھی ذہنی تنائو کا شکار ہونا پڑا ۔تاہم میرا خیال ہے کہ یہ بات فراموش کردی جائے گی۔۔۔ جیسے اس طرح کی ہزارہا خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالا جا چکا ہے ۔
مانچسٹر ائیرپورٹ پر نیویارک جانے والے پی آئی اے کے طیارے نے رکنا ہوتا ہے کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ کوئی انتہا پسند یا دہشت گرد اس کی سرزمین پر قدم رکھے، اس لیے برطانیہ میں ہی مسافروںکی تلاشی اور جانچ پڑتال کا عمل مکمل کرلیا جاتا ہے اورتمام تسلی کے بعد ہی جہاز کو امریکہ جانے کی اجازت ملتی ہے۔ برطانیہ امریکہ کے لیے خدمات سرانجام دے کرخوشی محسوس کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ کو ''دوکانداروں کا ملک ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ وہ شاپنگ کرنے کے شوقین پاکستانیوں کو ائیرپورٹ کی ڈیوٹی فری شاپ پر دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔اس سارے معاملے میں نہ برطانیہ اور نہ ہی امریکہ کو کوئی مسئلہ پیش آتاہے، یہ مسئلہ پی آئی اے کا ہے۔ پاکستانی مسافروں کا برتائو ایسا ہوتا ہے جیسے جیل سے قیدی رہاہوکر آرہے ہوں۔ جیسے ہی وہ جہاز سے باہر نکلتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اُنہیں کوئی دورہ پڑ گیا ہو اور وہ ڈیوٹی فری شاپ پر جاکر دیوانہ وار چیزیں خریدنے لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں شک ہوتا ہے کہ کل نہیںہوگی اس لیے ''ہر پل یہاں جی بھر کے جیو‘‘ کی پالیسی پر گامز ن رہتے ہیں۔ یہ بات کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خواتین بہت اچھی ''صارفین ‘‘ ثابت ہوتی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ سائونڈ سسٹم پر جہاز کی روانگی کے اعلانات کیے جارہے ہوں لیکن خواتین کو علم ہوتا ہے کہ ایسی باتوںکو سنجیدگی سے نہیںلینا چاہیے۔ حتیٰ کہ اردو میںکیے گئے اعلانات کو بھی ''یونانی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ پی کے 721 کے ساتھ بھی یہی ہوا اور پرواز مزید لیٹ ہوگئی۔ 
دوسری طرف نیویارک کے جے ایف کینیڈی ائیر پورٹ پر برفانی طوفان کی وجہ سے ہزاروں پروازیں منسوخ ہو چکی تھیں، تاہم یہ پی کے 721 کی مہارت تھی جس کی وجہ سے وہ ائیر پورٹ پر اترنے میںکامیاب ہو گئی۔ ہو سکتا ہے کہ پی آئی اے کو تاخیر سے آنے پر جرمانہ ادا کرنا پڑا ہو لیکن ہمارے ہاں سب چلتا ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ پی آئی اے کا سب نہیں تو بیشتر سٹاف محنتی اور اپنے کام میں ماہر ہے،لیکن احتساب اور پوچھ گچھ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے معاملات خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تاہم مہارت نظام کی متبادل کب تک ہوسکتی ہے؟ افراد، نہیں ادارے مضبوط ہوں تبھی نظام چلتا ہے۔ 
پی اے ایف میں ساٹھ کی دہائی میں خدمات سرانجام دینے والے پائلٹ کیپٹن وحید سلام کی طرف سے کچھ تجاویز ہیں۔ اُنھوں نے پچاس سال تک مختلف ائیر لائنز میں خدمات سرانجام دی ہیںاور ان کو پی آئی اے میں گہری دلچسپی ہے۔ اُن کا کہنا ہے۔۔۔'' پی آئی اے کے ایم ڈی کی تعیناتی کا معاملہ عجیب ہے۔ اگر ایک ایم ڈی کے پاس اپنا اختیار استعمال کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس عہدے کا کیا فائدہ؟ ادارے کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے معاملات میں دوٹوک ہو۔ حال ہی میں پی آئی اے کے لیے سات بلین روپوں کا بیل آئوٹ پیکیج دیا گیا۔ تاہم کیپٹن سلام کا کہنا ہے کہ قومی ائیر لائن کو اس کی انتہائی خراب حالت سے نکالنے کے لیے یہ رقم کام نہیںدے گی۔تجربات اس بات کے گواہ ہیں کہ جب تک نظام نہ ہو، اس طرح کے بیل آئوٹ پیکیج کام نہیںدیتے ہیں، بلکہ یہ رقم ضائع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ پی آئی اے انتظامیہ کے پاس کوئی بزنس پلان ہواور اس کی ٹیم انتہائی پیشہ ور انداز میں کام کرے تاکہ عالمی سطح پر فضائی سروس میں جاری مسابقت کی دوڑ میں شامل ہوا جاسکے، لیکن کسی پلان کی غیر موجودگی میں رقم دینے کاکوئی فائدہ نہیں۔ مسٹر سلام کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی مختلف حکومتوں کی طرف سے بہت سے بیل آئوٹ پیکیج دیے گئے ہیں لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیںہوا۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ چوہدری احمد سعید کے دورمیں بوئنگ 777 خریدنے کے لیے حکومت کی جانب سے بھاری رقم دینے کا کیا فائدہ کیا ہوا؟بات یہ ہے کہ کسی حکومت کے پاس پی آئی اے کے پرانے ڈھانچے کو بدلنے کا کوئی منصوبہ نہیںہے۔ چنانچہ اب اس ادارے کی بہتری کے لیے کیا کیا جائے؟
وحیدسلام کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے غیر ضروری ملازمین میںسے پندرہ فیصد کو نکال دیا جائے اور وہ روٹ جن پر نقصان کا سامنا ہے، پر پروازیں معطل کردی جائیں۔پی آئی اے کے ہیڈکوارٹرز کی تعداد کم کی جائے کیونکہ ان کی وجہ سے غیر پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایندھن کی بچت کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے۔زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پی آئی اے کی کارکردگی کو بہتر بناناہے تو اس میں سیاسی مداخلت کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرتے ہوئے اسے پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلانا ہوگا کیونکہ کاروبار کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اسے منافع بخش بنایا جائے۔ پائلٹوں کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی طیارے گرائونڈ کرنے کی پالیسی درست نہیں کیونکہ اس سے ان کی افادیت کم ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ مسافروں کو جی بھر کے کھانے کھلانے کی ضرورت نہیں۔اندرونی پروازوں پر کھانے کو کچھ نہ دیا جائے تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ طویل پروازوں کو بھی شادی کی دعوت نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اگر ہم ہنگامی حالات کاسامنا کررہے ہیں تو جہاںتک ممکن ہو سکے فضول خرچی سے بچاجائے۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کے سابق ملازمین اور افسران کو ملنے والی رعایت بھی ختم کردی جائے، یا اس میں کچھ کمی لائی جائے۔ اگر اس ایئرلائن کومحو ِ پرواز رکھنا ہے تو اس پر سے بوجھ کم کرنا ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved