تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     19-01-2014

ٹوٹکے

ایک عرصہ میں اس غلط فہمی میں مبتلا رہاکہ ہم ایک عظیم قوم ہیں، ہم جیسا دوسرا کوئی نہیں۔اپنے ناقابل تسخیر قوم ہونے اوراحساس تفاخرسے لبریز اس انداز فکر کی وجہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب کا مطالعہ، حب الوطنی پرمبنی سرکاری ٹی وی کے پروگرام دیکھنا اور ملکہ ترنم نورجہاں اورمہدی حسن سمیت دوسری خوش گلو خواتین وحضرات کے گائے ہوئے ملی ترانے سننا تھا۔ ہمارے موسیقاروں نے ملی نغموں کی کیسی کیسی دھنیں بنائیںاورہمارے گلوکاروں اورگلوکارائوں نے ان دُھنوں کو کیسے گایا!ایک اندازے کے مطابق جنوبی ایشیا میںسب سے زیادہ ملی اورجنگی ترانے ہمارے ہاں کمپوز کئے اورگائے گئے:
میر اماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی
اے وطن کے سجیلے جوانومیرے نغمے تمہارے لئے ہیں
اپنی جاں نظر کروں اپنی وفا پیش کروں
ساتھیومجاہدوجاگ اٹھا ہے سارا وطن
ایہہ ُپترہٹاں تے نئیں وکدے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد 
سوچتا ہوں، نورجہاںاورمہدی حسن آج زندہ ہوتے اورانہیں غسل فرمانے کے لیے پانی میسر نہ ہوتا،پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے کھانا چاہتے مگرچولہا ٹھنڈا پڑجاتا،کہیں جانے کے لیے سفرکا قصد کرتے مگر گاڑی کے لیے پٹرول دستیاب نہ ہوتا تو ان کا جذبہ حب الوطنی کسی قدر مانند ضرور پڑجاتا ۔اس صورت حال میں وہ نازک طبع لوگ ملی نغموں کی استھائیوں میں کوئی 19ویں اور 20ویں ترمیم ضرور کرتے ۔ چاہے حکومت آرٹیکل 6کے تحت ان پر غداری کا مقدمہ چلاتی لیکن وہ 'اناالحق‘ کانعرہ ضرور بلند کرتے۔ مرحومین کو چھوڑیے، جو زندہ ہیں،ان کی سن لیں۔ یہ بیچارے محرومیوں کی الم ناک تصویر بن چکے ہیں۔ میں سائل مسمی طاہرسرورمیر ولد غلام سرورمیر،353 طارق بلاک نیوگارڈن ٹائون لاہو ر کارہائشی ہوں۔ ساڑھے چار مرلے پر مشتمل میرے گھر کا یہ قطعہ اراضی انرجی کرائسس کا'آئیڈیل پراجیکٹ‘بن چکا ہے۔اس آشیانے میں بجلی کا بحران ختم کرنے کے لیے کئی پاپڑ بیل چکا ہوں، لیکن لگتا ہے ، میری بدقسمتی نے 'سٹے‘ یعنی حکم امتناعی لے رکھا ہے۔ اپنے اس چھوٹے سے آشیانے کا انرجی کرائسس ختم کرنے کے لیے میں نے کئی فلاحی ،رفاہی اوردفاعی منصوبے بنائے مگر حالات جوں کے توں ہیں۔ مبلغ ڈھائی لاکھ نصف جس کے سوا لاکھ روپے ہوتے ہیں کا کابلی ساخت کا جنریٹرخریدا، تین عدد یوپی ایس جن کی مینو فیکچرنگ پر فی کس 20ہزار روپے کے حساب سے 60ہزار روپے جیب ِخاص سے ادا کرچکا ہوں حاصل کیے ، یوپی ایس بنانے کے ماہرین بن کر اب تک کئی فراڈئیے بھی مجھے لوٹ چکے ہیں۔ ایل پی جی گیس، لکڑیوں،کوئلوں ،اوپلوں کے چولھوںاورانگیٹھیوں سمیت کئی دوسرے ٹوٹکے بھی آزما چکا ہوں،لیکن ایسی اندھیرنگری ہے کہ میرے گھرکا انرجی کرائسس ختم نہیں ہوسکا۔کبھی کبھی دل چاہتا ہے، حکومت سے استدعا کروں کہ میرے آشیانے پر'قبضہ‘ کرکے اس کے ظاہری اورپوشیدہ انرجی کرائسس کا دواداروکردے۔ 
حیران ہوں کہ ہمارے پاس پینے اورنہانے کے لیے پانی نہیں،اس کے باوجود ہم سپر پاور امریکا کے دانت کھٹے کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔کئی دنوںسے نہانے کے بجائے تیمم (پانی کے بغیرطہارت) کرکے ہی میں دفترجارہا ہوں۔گزشتہ دنوں ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح لاہور کا درجہ حرارت بھی نقطہ انجماد کے قریب جا پہنچا تھا۔شدید سردی اوراس پرمستزاد ہرقسم کی لوڈشیڈنگ نے لاہور کوانٹارکٹیکا(Antarctica)کی طرح آثارزندگی سے آزادکردیاتھا۔دنیا میں انٹارکٹیکا پانچواں بڑا برِاعظم ہے جس کا درجہ حرارت منفی 89.2تک ریکارڈکیاگیا ہے۔ پاکستان میں سرد ترین مقام قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع سیاچن ہے جہاں سردیوں میں درجہ حرارت منفی 50ڈگری تک گرجاتاہے۔یہ علاقہ پاکستان اوربھارت کے مابین سردترین محاذجنگ ہے جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں 1984ء سے ایک دوسرے پرتوپیں تانے ہوئے ہیں۔لگ بھگ 70مربع کلومیٹر برف پوش پہاڑی سلسلے پر مشتمل 'لائن آف کنٹرول‘ کے دونوں اطراف میں واقع اس ''ٹھنڈ کے جہنم‘‘ میں اربوں روپے غرق ہوچکے ہیں لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی کے باعث بات چیت پر آمادہ نہیں ہوا۔انرجی کرائسس کا تعلق براہ راست سیاچین اورکارگل کے محاذوں سے تونہیں ، لیکن اس طرح کے غیر ضروری معرکے ان جنوبی ایشیائی ملکوں کے ریاستی اور نفسیاتی رجحان کی عکاسی ضرور کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے آپ کو غیر ضروری جنگوں اورمعرکوں میں الجھائے رکھا مگر اپنے مسائل پر دھیان نہیں دیا۔
لوڈشیڈنگ کی اصطلاح ہم نے پہلی بار''امیرالمومنین ‘‘جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں سنی تھی۔کمانڈوجنرل پرویز مشرف کو بھی اپنے آٹھ سالہ ''روشن خیال ‘‘ دورمیں کالا باغ ڈیم بنانے کی فرصت نہ ملی۔پانی اورانرجی کرائسس کے گناہ کبیرہ میں ہمارے فیلڈ مارشل ایوب خان بھی برابر کے شریک تھے جنہوں نے سندھ طاس معاہدے کے تحت خطے میں بہنے والے سارے دریائوں کی ''رجسٹری ‘‘ بھارت کے نام کردی تھی ۔ جنرل آغا یحییٰ خان کاتین چار سالہ دور تو ''ہینگ اوور‘‘ میںگزر گیا،ہوش آیا تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا ۔اس وقت ہمیں اپنے قومی مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے تھا مگر افسوس ہم ایسا نہ کرسکے؛ حالانکہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ میں دوٹوک لکھا گیا تھاکہ مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے اوربنگلہ دیش کے قیام کے ذمہ داران ہمارے اس وقت کے آرمی چیف اور ان کے ساتھی جرنیل تھے۔ ہمارے مسائل اوردکھوں کی زیادہ تر ذمہ داری فوجی حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے مگر سویلین حکمرانوں کا کردار بھی غیر ذمہ دارانہ اور غیر ہمدردانہ رہا۔ہمارے ہاں سویلین لیڈر شپ بھی چونکہ فوجی ٹکسالوں پر ہی ڈیزائن کی جاتی رہی ہے اس لیے ان کے اعمال کی سزاجزا بھی انہی کے اعمال نامے میں لکھی جانی چاہیے۔ 
آج صبح کینیڈا کے شہر کیلگری سے ہمارے دوست برہان خان کا ٹیلی فون آیا۔پوچھنے لگے کیاہورہاہے؟ میں نے بتایا، پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے پانی کو نیم گرم کرنے کی سرتوڑکوششوں میں مصروف ہوں مگرہنوز ناکام ہوں۔ پہلے توگھرکی ٹونٹیوںسے پانی یوں اترا جیسے ہمالیہ کی بلند چوٹیوں سے گنگااترتی ہے، اس کے بعد اس چلّو بھر پانی کو نیم گرم کرنے کے لیے سوئی ناردرن گیس کے سرکاری کنکشن سمیت ایل پی جی کی سلنڈر ٹیکنالوجی سے ایک عدد پتیلا نیم گرم کرنا چاہتا ہوں تاکہ آج تیمم کرنے کے بجائے باقاعدہ نہالوں۔مسلسل کئی روز سے تیمم کرنے کے باعث جلدی امراض نے میرے جسم کو منٹو پارک سمجھ کرغیر صحت مند سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔تین روز قبل مبلغ 20ہزار روپے خرچ کرکے الیکٹرک ہیٹر بھی نصب کراچکاہوں کہ 30لٹر نیم گرم پانی میسر آسکے گامگر بمشکل 10لیٹر پانی کے بعد ہی ٹونٹیوںکی رگوں سے اترنے والی ٹھنڈ میرے گھر کوگیاری سیکٹر بنادیتی ہے۔ لگتا ہے، میں کارگل اورسیاچن کے سرد محاذوں پر زندگی کی جنگ لڑرہاہوں۔ عام انتخابات سے قبل میاں برادران نے عوام کو امیددلائی تھی کہ انرجی کرائسس اوردہشت گردی کے خاتمے کے لیے مربوط پالیسی دیں گے مگر ان کی آمد کے چھ ماہ بعد لوڈشیڈنگ اوردہشت گردی دوآتشہ ہوچکی ہے۔اب تو میڈیا بھی ٹارگٹ کلرز کے ٹارگٹ پر ہے اور کپتان خان یہ کہہ رہے ہیںکہ حکومت بتائے کہ طالبان سے کیامذاکرات ہوئے ہیں؟
کپتان خان کی خدمت میں عرض ہے کہ ایسے لوگوں سے کیامذاکرات ہوسکتے ہیںجن کے نزدیک کرکٹ سے لے کر پولیو کے قطرے پلانا حرام ہو۔ وہ تو مغربی طرزکے ہسپتالوں اورطریقہ علاج کو بھی حرام قراردیتے ہیں۔ یقیناً ان کے نزدیک سوئی گیس،ایل پی جی اورٹھنڈے پانی کو نیم گرم کرنے کے دیگر جدید طریقے بھی غیر شرعی ہوں گے ۔ جب تک ہمارے محب وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف آف سیالکوٹ اورعابدشیر آف فیصل آباد وطن عزیزکو درپیش انرجی کرائسس اورلوڈشیڈنگ میں ایک آدھ گھنٹے کی کمی نہیں کرالیتے،سائل نے فیصلہ کیاہے کہ کوئلوں اوراوپلوں کے چولھے پر سلورکا پتیلا چڑھا کر نیم گرم پانی سے ہی یوں نہالیا کروں جیسے چھِلہ (زچگی کا چالیسواں دن) نہا رہا ہوں۔۔۔۔۔ پتیلا ٹیکنالوجی پائندہ باد۔۔۔۔۔پاکستان زندہ باد!!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved