جاپان ہر روز مجھے حیرت کے ایک نئے جہان میں لے جا رہا ہے۔ اس قدر مغرب کی یلغار، اس قدر وسیع کارپوریٹ کلچر اور سرمائے کی بہتات لیکن معاشرے کی تمام اقدار ایک صالح اور نیک فطرت سانچے میں ڈھلی ہوئیں! کون سی ایسی خوبی ہے جو ایک صالح اور نیک معاشرے کی علامت ہو اور اس قوم میں بحیثیت مجموعی نہ پائی جاتی ہو۔۔۔ سچ بولنا‘ ایمانداری‘ عہد کا پاس‘ نرم خوئی‘ دکھاوے اور تکبر سے نفرت اور بے جا اسراف سے اجتناب۔ خاندانی نظام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ سو سال کے بوڑھے دادا اور نانا بھی اولاد کی محبتوں اور دیکھ بھال کا لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ نرم گفتاری اور شستہ زبانی اس بلا کی ہے کہ پوری بول چال میں صرف دو گالیاں ہیں اور وہ بھی ایسی کہ پاکستانی معاشرے کے اعتبار سے گالیاں نہیں لگتیں۔ ایک ''بے غیرو‘‘ ہے جو ہمارے ہاں کے بے غیرت کے ہم پلہ ہے لیکن معانی میں اس سے بھی نرم‘ دوسری '' کونو ہبرو‘‘ یعنی جو خاندانی نہ ہو۔ سب سے زیادہ یہ کہ بناوٹ سے یہ معاشرہ نفرت کرتا ہے، اس میں دو خوبیوں کو اعلیٰ اور ارفع مقام حاصل ہے اور انہیں ہر جاپانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ایک ''گاما‘‘ جس کا مطلب صبر ہے اور دوسری ''شمبو‘‘ جس کے معنی برداشت کے ہیں۔ صبر یہاں اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ آدمی بھوک‘ پیاس‘ بیروزگاری‘ ناکامی اور کسی اہم ضرورت کے نہ ملنے پر صبر اختیار کرے جبکہ ''شمبو‘‘ یعنی برداشت ناحق تکلیف پہنچنے پر اُف تک نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو پہلے دن سے ہی ان دونوں اقدار کی تربیت دیتی ہیں۔ پوری مہذب اور غیر مہذب دنیا سے الگ تھلگ اس قوم کا اُجرت دینے کا معیار نرالا ہے۔ جس شخص کا کام جس قدر مشکل‘ محنت طلب اور معذوری یا جان کے زیاں کے خطرے والا ہو گا‘ اس کی تنخواہ اتنی زیادہ ہو گی اور جس کا کام جتنا آسان ہو گا اس کی تنخواہ اسی حساب سے کم ہو گی۔ کان کنی کے مزدور اور بلند بالا عمارتوں کی تعمیر کے وقت بلندیوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی اُجرت زمین پر کام کرنے والے مستریوں اور پلمبروں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کام میں جس قدر جان کا خطرہ زیادہ ہو گا، اسی حساب سے تنخواہ بڑھتی جائے گی۔ یہ تصور دنیا کی ظالم، بدترین کارپوریٹ کلچر اور نام نہاد ''مہذب‘‘ سوسائٹی کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ عزت نفس کا عالم یہ ہے کہ پورے جاپان میں کوئی بھیک مانگنے والا نظر نہیں آتا، کوئی دست سوال دراز نہیں کرتا، بس خاموشی سے کمرہ بند کر کے خودکشی کر لیتا ہے۔ ان میں اکثر خود کشیاں غربت کی وجہ سے نہیں ہوتیں۔ اگرکوئی ایسا کام کر بیٹھے یا غلطی سرزد ہو جائے جس کی وجہ سے خاندان‘ محلے یا معاشرے میں عزت جانے کا خطرہ ہو تو پھر یہ لوگ لوگوں کا سامنا نہیں کرتے‘ بس خاموشی سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے اس قوم کو صرف اللہ کے پیغام سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے‘ پوری قوم ایک صالح اور اسلامی معاشرے میں چند سیکنڈوں میں ڈھل جائے گی۔
سب سے بڑی حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب پوری دنیا میں آکٹوپس کی طرح جڑیں پھیلائے سودی نظام کے مقابلے میں نہ صرف جاپان کی سب سے بڑی بلکہ کارسازی میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ٹویوٹا کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ اپنا سارا کاروبار بغیر سود کے کرتی ہے اور کسی بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیتی۔ یہ لوگوںکو قسطوں پرگاڑیاں دیتی ہے لیکن قیمتوں میں اضافہ نہیں کرتی۔ اس نے اسلامی بینکاری کی طرح سود کو حلال کرتے ہوئے اقساط والی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا۔ ٹویوٹا کی گاڑی قسطوں میں بھی اسی قیمت میں ملتی ہے اور نقد ادائیگی پر بھی اسی قیمت پر۔ یہ کمپنی کسی بینک سے سود پر قرض نہیں لیتی۔ ایسا کیونکر ہوا؟ 1950ء کی کساد بازاری نے ٹویوٹا کمپنی کو بینکوں سے قرض لینے پر مجبور کیا۔ اپریل 1950ء میں اسے قرض تو مل گیا لیکن بینکوں نے یہ شرط عائد کر دی کہ وہ سولہ سو مزدوروں کو فارغ کر دیں‘ لیکن قرض لینے سے پہلے کمپنی کا مالک اوربانی ''کی اچی رو‘‘ یہ وعدہ کر چکا تھا کہ وہ کسی کو ملازمت سے نہیں نکالے گا۔ جاپان میں وعدہ خلافی سب سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ ادھر
قرض لیا جا چکا تھا اور بینکوں کی ناجائز شرائط ماننا لازمی تھیں، ''کی اچی رو‘‘ کمپنی کو ختم ہوتے بھی دیکھ نہیں سکتا تھا۔ کمپنی کو قرض کی پہلی قسط جون 1950ء میں ملی تو اس نے ساتھ ہی استعفیٰ دے دیا اور اسی صدمے سے صرف دو سال کے اندر انتقال کر گیا‘ لیکن وصیت کے طور پر کمپنی کے لیے ضابطہ چھوڑ گیا کہ وہ کبھی بینکوں سے سود پر قرض نہیں لے گی۔ آج ساٹھ سال ہو چکے، کمپنی اپنے اس اصول پر کاربند ہے اور اس وقت دنیا کی کار بنانے والی سب بڑی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی 80 لاکھ کے قریب گاڑیاں سالانہ فروخت کرتی ہے۔ جاپان کی باقی کمپنیاں سود، کاغذی کرنسی اور دوسرے معاشی ہچکولوں کی وجہ سے ڈولتی رہتی ہیں جبکہ ٹویوٹا کمپنی اپنے وسیع نقد سرمائے کی وجہ سے مسلسل مستحکم ہے۔ اس کمپنی کے 27 ممالک میں 53 اسمبلنگ پلانٹ لگے ہوئے ہیں۔ 2009ء میں اس کمپنی کی گاڑیوں میں کوئی نقص معلوم ہوا جس پر امریکی حکومت نے اس پر ایک کروڑ چھ لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کیا اور کمپنی کو پوری دنیا سے مختلف ماڈلز کی نوے لاکھ گاڑیاں منگوا کر ٹھیک کروانا پڑیں۔ یہ سب آسان نہ تھا‘ کوئی اور کمپنی ہوتی تو اس کا دیوالیہ نکل جاتا، لیکن بلاسود کاروبار کرنے والی ٹویوٹا کمپنی یہ سب برداشت کر گئی اور آج بھی سب سے اہم اور بڑی کمپنی ہے۔ دنیا میں جسے بھی ایک صالح معاشرے کی علامتیں دیکھنا ہوں‘ بلاسود کاروبار کی برکت کا اندازہ کرنا ہو‘ اسے جاپان ضرور دیکھنا چاہیے۔ اس سرزمین کے باسیوں میں وہ سب کچھ ہے جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے‘ لیکن شاید ہم مسلمان اس قابل ہی نہیں کہ جنہیں دیکھ کر جاپانی بھی پکار اٹھیں کہ یہ ہیں وہ لوگ جو ہم سے بھی زیادہ سچے‘ وعدے کے پابند‘ قول کے کھرے‘ حیادار اور نرم خو ہیں، اس لیے ان کا دین ضرور سچا ہو گا۔ ہم نے رسول اللہﷺ کی اس سنت پر عمل ہی نہیں کیا۔ آپؐ نے مکہ والوں کو اللہ کی طرف دعوت کے لیے بلایا تو یہ نہیں فرمایا کہ مانو اللہ ایک ہے اور میں اس کا رسول ہوں۔ بلکہ صنعا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر پہلا فقرہ یہ سوال تھا: '' اے قریش! میں نے تمہارے درمیان عمر گزاری ہے، بتائو میں کیسا ہوں؟‘‘ کاش ہم بحیثیت امت اپنے آپ کو پیش کر سکتے، اگر لوگوں کا جواب ویسا ہی ہوتا کہ یہ امت سچی اور امانت دار ہے تو پھر جاپان جیسے معاشرے چشم زدن میں مسلمان ہو چکے ہوتے۔