تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-01-2014

خدا کے لیے

ڈاکٹر نواز شریف اور مقامی نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری! اللہ کے بندو‘ اپنا مستقبل تم نے کسے سونپ دیا؟ Someone should cry halt.کوئی تو چیخ کر کہے‘ خدا کے لیے اب تو رک جائو۔ 
چک نمبر 42 جنوبی سرگودھا کے ماسٹر محمد رمضان کے چہرے پر خوف کا سایہ تھا۔ پچپن سال گزر جانے کے بعد‘ آج بھی ان کے تاثرات‘ ان کے اس طالب علم کے حافظے میں اجاگر ہیں۔ انسپکٹر آف سکولز‘ سالانہ معائنے کو تشریف لاتے تھے۔ طلبہ سے براہ راست انہیں سوالات پوچھنا تھے۔ تھوڑی سی املا اور زیادہ تر زبانی امتحان۔ ماسٹر صاحب نے‘ جنہیں ہم ماس صاحب جی‘ کہا کرتے‘ پوچھا کیا تم ''اولوالعزم‘‘ املا کر سکتے ہو؟ مشکل‘ بس یہی ایک تھا‘ باقی تو بار بار لکھے گئے‘ آسان الفاظ۔ ان کے چہرے پہ ذرا سا اطمینان ابھرا۔ تیزی کے ساتھ وہ صحن سے برآمدے اور برآمدے سے کمرے میں آتے جاتے رہے۔ 
ایسا نہیں کہ وہ کبھی عدمِ احتیاط یا کاہلی کے مرتکب ہوئے ہوں۔ شام کو خواہ سرد‘ نامہربان موسم ہو‘ وہ طلبہ کو گھر بلاتے اور آموختہ یاد کرایا کرتے۔ بے توجہی کا شکار کبھی نہ ہوتے۔ کمرے کم تھے۔ ایک آدھ کلاس‘ باہر شیشم کے چھتنار شجر تلے ہوا کرتی‘ جس کے ساتھ نہری پانی کا نالہ بہہ رہا ہوتا اور حدّ نظر تک کھیتوں کی ہریالی۔ 
سکھوں اور ہندوئوں کا خالی کردہ یہ ایک بڑا گائوں تھا‘ جسے جالندھر کے مہاجروں نے آباد کیا۔ ان میں سے بعض کو لاہور کے بہترین علاقوں میں مکان الاٹ ہوئے۔ تین لاکھ کی آبادی کا شہر انہیں خوش نہ آیا تو گائوں کا رُخ کیا۔ اوّل جماعت اسلامی کے ایک سادہ اطوار کارکن چودھری محمد احمد‘ کسی ذاتی کام کے سلسلے میں یہاں آئے تھے۔ قلعہ لچھمن سنگھ میں آباد ان لوگوں نے‘ ان کی رائے اور سینیٹر طارق چودھری کے والد منشی محمد حسین کے اصرار پہ‘ ایک بار پھر ہجرت کی۔ 
ماسٹر صاحب کو میں کبھی نہ بھولا‘ ہر روز مرحوم والدین‘ بزرگوں‘ اساتذہ اور مرحوم دوستوں کے ساتھ‘ ان کے لیے دعا کرتا ہوں مگر آج انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ سے دل پر چوٹ لگی اور وہ یاد آئے۔ قراقلی ٹوپی پہنے ہوئے‘ لمبی گردن والا‘ چھریرا اور طویل قامت استاد۔ ہمیشہ یہ فکر انہیں ستایا کرتی کہ ان کے سامنے ٹاٹ پر براجمان بچے‘ کسی دوسرے سکول کے طلبہ سے کمتر ثابت نہ ہوں۔ 
ادارہ تعلیم و آگہی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق‘ جس میں 138 اضلاع کے 249832 طلبہ سے سوالات پوچھے گئے‘ پانچویں جماعت کے 57 فیصد طلبہ‘ دوسری جماعت کے اسباق پڑھ کر سنا نہ سکے۔ انگریزی ہی نہیں‘ اردو‘ پشتو اور سندھی میں بھی۔ سندھ میں حالت بدترین ہے‘ جہاں جاگیرداری‘ عجمی تصوف اور پیپلز پارٹی کارفرما ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اساتذہ کی تربیت میں کمی اور ناقص امتحانی نظام بنیادی وجوہ ہیں۔ نالائق طالب علم پاس کر دیئے جاتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کی مداخلت زیادہ ہے اور مثبت نہیں۔ سندھ کے بعد بلوچستان کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ جو بات رپورٹ میں درج نہیں‘ وہ یہ ہے کہ ایک صدی پہلے تک بلوچوں کی ایک قابل ذکر تعداد خانہ بدوش تھی۔ اب وہ اپنے سرداروں کے رحم و کرم پہ ہیں۔ وہ حکومتوں سے ناراض رہتے ہیں اور باہم برسرپیکار۔ کشمیر اور شمالی علاقوں کے برعکس‘ جہاں تعلیم کے شغف نے ترقی کے عمل کو تیز رکھا۔ پنجاب کے بعد شمالی علاقوں میں سکولوں کی حالت دوسروں سے قدرے بہتر ہے۔ سندھ میں 75 فیصد نالائق ہیں۔ 71 فیصد جملے پڑھ کر نہ سنا سکے۔ اس باب میں وہ قبائلی 
علاقوں سے بھی بدتر ہیں‘ جہاں 29.3 فیصد بچے پڑھ نہ سکے۔ سندھ میں 29.1 فیصد بچے سکول ہی نہیں جاتے۔ 1982ء میں مرتب کیا گیا انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کا ایک مطالعہ یاد آیا: 25000 سندھی‘ 120 مزاروں پر لگنے والے میلوں میں شرکت کے لیے سال بھر حرکت میں رہتے‘ جہاں کھانا میسر ہوتا ہے۔ پنجاب میں تعلیم کا فروغ چودھری پرویزالٰہی کے زمانے میں زیادہ ہوا‘ جب درسی کتب مفت ہو گئیں اور بچوں کو وظائف دیے گئے۔ 
کلاس رومز کی تعداد‘ حالت‘ پینے کے پانی‘ ٹائلٹ‘ چاردیواری اور کمپیوٹروں کی فراہمی کے اعتبار سے‘ پنجاب قدرے گوارا ہے۔ یہاں بھی مگر 48 فیصد سرکاری اور 30 فیصد غیر سرکاری سکولوں میں کلاس رومز کی تعداد کم ہے۔ ایک پرائمری سکول میں چھ کمرے ہونے چاہئیں۔ آدھے سرکاری اور ایک تہائی نجی سکولوں میں نصف ہوتے ہیں۔ پنجاب کے 95 فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی میسر ہے‘ بلوچستان میں فقط 29 فیصد۔ پنجاب کے 82 فیصد سکولوں میں لائبریریاں ہیں‘ بلوچستان میں صرف 29 فیصد۔ 
1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نجی سکول قومیانے کا فیصلہ کیا اور فروغ پاتے نجی تعلیمی شعبے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ بہت بعد میں‘ اس موضوع پر لکھا گیا تو حمید اختر مرحوم نے مسترد کردیا۔ اعدادو شمار تو کچھ اور کہتے ہیں۔ حمید اختر ایک سادہ سے آدمی تھے‘ شائستہ اطوار لیکن فقط ادبی اور انقلابی تحریکوں کے شناور۔ سات برس ہوتے ہیں‘ عرض کیا کہ امسال پاکستان نے اپنی ضرورت کا 51 فیصد پٹرول اندرون ملک کشید کیا ہے تو مرحوم کو یقین ہی نہ آتا تھا۔ سروے آف پاکستان میں درج تھا۔ 
نصف صدی پہلے جمعیت طلبہ والے‘ نصاب میں تبدیلی کی تحریک چلاتے تو بار بار لارڈ میکالے کا حوالہ دیا کرتے۔ اس نے کہا تھا: تمام تر مشرقی دانش دو الماریوں میں سما سکتی ہے۔ کہا جاتا کہ انگریزوں نے تعلیمی نصاب کو غیر اسلامی بنا دیا۔ یہ بات درست ہے کہ انگریزی عمل داری قائم ہونے کے بعد شرح خواندگی کم ہوتی گئی۔ 1849ء کے پنجاب میں یہ 80 فیصد تھی۔ پنجاب سے بنگال تک بہت بڑے بڑے ٹرسٹ قائم تھے‘ جو تعلیمی اداروں کی ضروریات پوری کرتے۔ ان کی کروڑوں ایکڑ زمینیں انگریز نے ہتھیا لیں۔ میکالے کا اعتراض بہرحال غیر سائنسی تعلیم پر تھا‘ جو تقلید کو جنم دیتی ہے۔ صدیوں سے نصاب میں تبدیلی نہ آئی تھی۔ سرسید احمد خان کے سوا اس نکتے کو کوئی سمجھ نہ سکا۔ باایں ہمہ جو بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم پاتے‘ ان کی قابلیت آج سے بدرجہا بہتر تھی۔ اس ناچیز نے میٹرک تک ہی باقاعدہ تعلیم پائی۔ تعمیر ملت ہائی سکول رحیم یار خان سے؛ اگرچہ بعدازاں ظہیر کاشمیری ایسے اساتذہ سے پڑھا مگر تعلیم کا ذرا سا شغف چودھری عبدالمالک‘ انیس احمد عظمی اور سرور صدیقی ایسے اساتذہ کا مرہون منت ہے۔ مؤخرالذکر دونوں سے‘ بعدازاں بھی رابطہ رہا۔ سرور صاحب سے انگریزی اور انیس صاحب سے اردو ادب پڑھتا رہا‘ جب وہ جامعہ ملیہ کالج کراچی اور سرگودھا کے انبالہ کالج سے وابستہ تھے۔ مردِ نجیب‘ ڈاکٹر خورشید رضوی کا کہنا ہے: جس نے انیس صاحب سے پڑھ لیا‘ اسے کسی اور کی ضرورت نہ رہی۔ اللہ انہیں صحت اور ایمان کے ساتھ سرسبز رکھے‘ نجابت بھی ایسی کہ باید و شاید! 
نصاب اہمیت رکھتا ہے مگر تعلیم کا انحصار استاد پہ ہوتا ہے۔ اگر وہ محترم نہیں ‘ اگر اسے تربیت نہیں دی گئی‘ اگر وہ احساس ذمہ داری نہیں رکھتا تو نتیجہ معلوم۔ پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی کے وائس چانسلروں کی طرح‘ اگر وہ حکّام سے مراسم کو ترجیح دیتا ہے۔ نصاب جدید چاہیے‘ استاد لائق اور ذمہ دار۔ 
اقوام میں مقابلہ برپا ہے۔ اب کاہلی کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک ہزار برس ہوتے ہیں‘ وزیر نظام الدین طوسی سے بادشاہ نے پوچھا کہ اس نے افواج کا بجٹ بھی تعلیم پہ کیوں صرف کردیا تو جواب یہ تھا: ''دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے‘‘۔ یورپ‘ جاپان اور چین میں بچے سہ پہر تک پڑھتے ہیں۔ برطانیہ میں بچوں کے ہوسٹلوں میں کمرے گرم کرنے کا بندوبست نہیں ہوتا تاکہ وہ سرد و گرم کے عادی ہو سکیں۔ ہم سہل پسند نسلیں پروان چڑھا رہے ہیں۔ 
ہمارے ہاں تعلیم کے لیے بجٹ ہی نہیں‘ نصاب ادنیٰ لوگ بناتے ہیں۔ درسی کتب چھاپنے اور چھپوانے والے بازاری اور راشی۔ تعلیمی اداروں کی نگرانی کا کوئی نظام ہی نہیں۔ مدارس کے طلبہ معاشرے کا حصہ بنتے ہیں اور نہ نجی انگریزی سکولوں کے۔ دینی طلبہ ماضی میں جیتے ہیں اور انگریزی والے ذہنی طور پر مغرب میں۔ ساری دنیا میں تعلیم اپنی زبانوں میں دی جاتی ہے۔ یہی فطری ہے اور استعداد اسی سے بڑھتی ہے۔ ہم مگر پنجابی‘ سندھی‘ پشتو‘ بلوچی اور اردو کی بجائے انگریزی پڑھاتے ہیں۔ 
ڈاکٹر نواز شریف اور مقامی نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری! اللہ کے بندو‘ اپنا مستقبل تم نے کسے سونپ دیا؟ Someone should cry halt.کوئی تو چیخ کر کہے‘ خدا کے لیے اب تو رک جائو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved