تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-01-2014

ایک لاحاصل گفتگو پر کالم

ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔اپنے مزے سے زیادہ دوسروں کا مزہ خراب کرنے میں لگے رہتے ہیں۔اپنے قصور اور خرابیاں بھی دوسرے کے ذمے ڈال دیتے ہیں۔ دوسروں کی خوشی ہمیں بالکل پسند نہیں۔ کل دوپہر کو دوستوں کے ساتھ کھانے پر بیٹھا تھا کہ محسوس ہوا کہ ہم من حیث القوم ''ایذاپسند‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی کو خوش‘ خوشحال‘ آسودہ اور اُس کے چہرے پر رونق دیکھ کر مارے حسد کے جل جاتے ہیں۔ اپنی حالت کی درستی پر اتنی توجہ نہیں دیتے‘ جتنی دوسروں کی حالت خراب کرنے کے لیے کاوش کرتے ہیں۔ خواہ مخواہ کے اعتراضات اور فالتو کی تنقید۔ جہاں جائیں تنقید ہو رہی ہوتی ہے۔ ہر بات پر‘ہر مسئلے پر اور ہر واقعے پر ۔کورٹ فیصلہ کر دے تب تنقید ۔نہ کرے تب تنقید۔ سابق چیف جسٹس کو بلٹ پروف گاڑی نہ دے تب تنقید اور اگر دے تب تنقید۔
دو ہفتے پہلے اسی طرح دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ وہاں حکومت پر تنقید ہو رہی تھی کہ وہ‘ درویش صفت اور فقیر منش سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بلٹ پروف گاڑی نہیں دے رہی۔ تنقید کرنے والے دوست کا کہنا تھا کہ اس ملک میں اپنی غلطیوں اور حماقتوں کے باعث حالات کو خراب کرنے کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے بجائے بلٹ پروف گاڑیاں دی گئی ہیں۔ عوام اور جمہور کے جذبات کا مذاق اڑانے اور ٹھیس پہنچانے والوں کو اقتدار سے علیحدگی کے بعد عوام کے سامنے پیش ہونا چاہیے تھا مگر انہیں‘ ان کے کرتوتوں کے طفیل‘ عوام کی نفرت سے بچانے کے لیے قومی خزانے سے بلٹ پروف گاڑیاں‘ سکیورٹی اور پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں وہ ہر دلعزیز اور مقبول عام سابق چیف جسٹس کو بلٹ پروف گاڑی کیوں نہیں دے رہی؟پروٹوکول اور سکیورٹی دینے سے کیوں انکار کیا جا رہا ہے؟۔
کل پھر کھانے پر اکٹھے بیٹھے تھے کہ وہی دوست کہنے لگا۔ یہ عجیب و غریب ملک ہے۔ لوگوں کو کھانے کے لیے روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور لوگوں کو بلٹ پروف گاڑیوں کی پڑی ہے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اور مقتدر طبقے کو جان بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔مائیں بھوک سے بچے فروخت کر رہی ہیں یا نہروں میں پھینک رہی ہیں اور افتخار چودھری صاحب کو ارسلان افتخار کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ انہیں یہ بلٹ پروف گاڑی اپنے لیے نہیں اربوں روپے کے معاملات میں ملوث بیٹے کی سکیورٹی کے لیے چاہیے۔ میں نے دوست کو کہا کہ صرف دو ہفتے پہلے تم سابق چیف جسٹس کو درویش صفت‘فقیر منش اور ہردلعزیز قرار دے رہے تھے آج انہیں بلٹ پروف گاڑی ملی ہے تو ان کے خلاف بولنے لگ گئے ہو۔ کیا تمہارا دماغ درست ہے؟۔ وہ تائو کھا گیا اور کہنے لگا ہاں میں احمق تھا‘بیوقوف تھا‘ پاگل تھا بلکہ یوں سمجھو الو کا پٹھا تھا۔مجھے اعتراف ہے کہ پندرہ دن پہلے میں غلط تھا۔ میری سوچ غلط تھی۔ میرا موقف غلط تھا۔ مجھے اپنے خیالات پر افسوس ہے‘معذرت ہے۔ میں اپنے سابقہ خیالات سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ ان سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں۔ غضب خدا کا ملک پر قرضوں کا انبار ہے۔ ریٹائرڈ چیف جسٹسوں کی ایک قطار ہے۔ جسٹس افضل ظلہ‘جسٹس نسیم حسن شاہ‘ جسٹس سجاد علی شاہ‘جسٹس اجمل میاں‘جسٹس سعید الزمان صدیقی‘ جسٹس ارشاد حسن خان‘ جسٹس محمد بشیر جہانگیری‘جسٹس شیخ ریاض احمد‘ جسٹس ناظم حسین صدیقی اور تین ایکٹنگ زندہ ریٹائرڈ چیف جسٹس موجود ہیں۔ اس طرح تقریباً ایک درجن ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان کے علاوہ افتخار محمد چودھری موجود ہیں۔ ان کو بلٹ پروف گاڑی اور سکیورٹی کیوں نہ ملے؟انہیں بھی ایک ڈی ایس پی اور سپاہیوں کی ایک گارد کیوں نہ دی جائے؟موجودہ حاضر سروس چیف جسٹس نہ تو بلٹ پروف گاڑی مانگتا ہے نہ پروٹوکول۔ نہ وہ روٹ لگواتا ہے اور نہ اس کی سکیورٹی پر تین ایس پی اور چار سو سپاہی ہیں۔ ہمارے ٹیکس کی رقم کن چیزوں پر ضائع کی جا رہی ہے؟ کل کلاں ہر ریٹائرہونے والا چیف جسٹس بلٹ پروف گاڑی مانگے گا۔ یہ الٹی روایت ایک بار پڑ گئی تو ختم کرنا مشکل ہو جائے گی۔ اگر وہ مقبول ہیں اور انہوں نے اچھے فیصلے کیے ہیں‘ تو خوف کس بات کا؟ دوسروں کو عدالت میں خوف خدا یاددلانے والوں کو خود خوف خدا کیوں نہیں؟ اگر دل میں اللہ کا خوف ہو تو پھر باقی ہر خوف ختم ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو بہادری اور دلیری کا درس دینے والے خود وقت پڑنے پر دلیر کیوں نہیں بنتے؟ اگر باہر نکلنے میں خوف ہے‘ اپنے ماضی پر اعتماد نہیں اور اپنے فیصلوں پر دل مطمئن نہیں تو پھر گھر سے باہرہی نہیں نکلنا چاہیے۔یہ کیا ہوا کہ دوران ملازمت بھی مزے کیے اور بعداز ریٹائرمنٹ بھی ہمارے ٹیکس پر موج میلہ کیا جائے۔ میں نے کہاتم سوائے تنقید کے اور کیا کر سکتے ہو؟ کل کلاں اگر افتخار محمد چودھری سے بلٹ پروف گاڑی کسی نے واپس لے لی تو تم اس کے خلاف بھی اتنی ہی دھواں دھار تقریر کرو گے ۔ کہنے لگا کل کی بات میں آج کیسے کر سکتا ہوں؟ ۔ ممکن ہے کل حالات ایسے ہوں کہ مجھے اپنے آج کے نظریات سے برأت کا اظہار کرنا پڑ جائے۔ ممکن ہے میں اپنے ان خیالات سے رجوع کر لوں اور بوجوہ ان سے دست کش ہو جائوں۔ کل کا کیا پتا؟۔
ایک دوست کہنے لگا ایک روز قبل لاہور میں جی سی یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت کے لیے میاں نواز شریف ایئر پورٹ سے براستہ مال روڈ گئے تو سارے راستے بند کر دیے گئے تھے۔ لوگ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہے۔جو طلبہ اس کانووکیشن میں ڈگریاں لینے آئے تھے ان میں سے کئی طلبہ سکیورٹی کے باعث کالج میں داخل ہی نہیں ہو سکے۔ اس بدترین ٹریفک جام میں ایک حاملہ خاتون نے رکشے میں بچی کو جنم دے دیا۔ حکمرانوں نے یہ کیا وتیرہ بنا رکھا ہے؟۔ کوئٹہ میں کچھ عرصہ پہلے اسی طرح وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے لیے بھی روٹ لگا کر ٹریفک روکی گئی تھی کہ خاتون نے رکشے میں بیٹا جنم دے دیا۔ ایسے رویوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ کوئی حل نکالنا چاہیے۔
چودھری کہنے لگا ''آپ نے وہ سردارجی والا لطیفہ سنا ہے ناں۔اس میں بھی سردار جی نے ایک مشکل کا حل نکالا تھا۔ ایک سردار بتا رہا تھا کہ ایک دن وہ گھر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی صوفے پر غیر مرد کے ساتھ جڑ کر بیٹھی ہے۔ چند روز بعد وہ پھر بے وقت گھر آیا تو پھر وہی منظر تھا۔ اب وہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھی۔ ایک دو بار پھر ایسا ہی ہوا تو معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہو گیا۔ سردار کہنے لگا‘ وہ روز روز کی اس بے غیرتی سے تنگ آ گیا ہے اور اب قصے کو سرے سے ہی ختم کر دے گا۔ لوگ گھبرا گئے کہ کہیں وہ اپنی بیوی کو ہی قتل نہ کردے۔اگلے روز سردار نے بتایا کہ اس نے قصہ ہی ختم کر دیا ہے۔ اس نے وہ صوفہ ہی بیچ دیا ہے‘‘۔ پھر چودھری کہنے لگا۔ ''آئندہ سے زچگان کو چاہیے کہ وہ دو باتوں کی احتیاط کریں۔ پہلی یہ کہ وہ رکشے پر ہسپتال نہ جائیں۔ یہ رکشے اپ گریڈ ہو کر زچہ بچہ وارڈ بنتے جا رہے ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ بڑے لوگوں کے لیے لگے روٹ پر نہ جائیں۔ بھلا ان لوگوں کو دیکھیں۔ایک تو اس رکشے والی ڈیلیوری سے اس مہنگائی میں ہسپتال کا خرچہ بچ رہا ہے اوپر سے یہ اعتراض کر رہے ہیں۔ ان خواتین کا عجیب مسئلہ ہے کہ گھر کے فضول کاموں میں خواہ مخواہ مصروف رہنے کے بہانے ہسپتال جان بوجھ کر تاخیر سے روانہ ہوتی ہیں اور پھر جان بوجھ کر عین اس وقت رکشے پر چڑھ کر ہسپتال کے لیے روانہ ہوتی ہیں جب بڑے لوگوں نے نہایت اہم اور ضروری تقریبات میں شرکت کے لیے جانا ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں اس خاتون نے یہی کیا‘ اب لاہور والی خاتون نے بھی وہی کیا ۔ ادھر لواحقین اور میڈیا کو دیکھیں۔ بجائے اس کے کہ مفت کی ڈیلیوری پر وزیر اعظم کی درازی عمر اور اقبال مندی کی دعا کریں اور معاملہ ہسپتال کے باہر ہی نپٹ جانے پر شکر ادا کریں کہ اس مہنگائی میں ہسپتال کا خرچہ بچ گیا ہے‘ خواہ مخواہ اعتراض کر رہے ہیں۔ کبھی ٹریفک جام پر اور کبھی سابق چیف جسٹس کی بلٹ پروف گاڑی پر۔ سابق چیف جسٹس بلٹ پروف گاڑی پر نہ چڑھیں تو کیا کریں؟‘‘ پہلا دوست تائو کھا کر کہنے لگا۔ ''انہیں چاہیے کہ وہ آنکھوں کے امراض کا خیراتی ہسپتال چلائیں۔اللہ اسی میں عزت اور برکت ڈال دے گا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved