تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     20-01-2014

منکہ ایک وزیر اعظم!

عباسی خلافت کے ساتھ ہی آل برامکہ کا ظہور ہوا۔بدھ مت چھوڑ کر مسلمان ہونے والے خالد ابنِ برمک نے پہلے عباسی خلیفہ کے ساتھ مل کر بنو امیہ کا قلع قمع اور پھر نئی خلافت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں جو کردار اداکیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ خالد کو خلیفہ کے مزاج میں اتنا دخل تھا کہ قصر خلافت میں وہی شخص عزت پاسکتا تھا جو اس کی وفاداری کا دم بھرے۔ ہارون الرشید کے دور تک بلخ کے گمنام برمک خاندان کا اتنا شہرہ ہوچکا تھا کہ اب اس خاندان سے تعلق رکھنے والوں کو آل برامکہ کہا جاتااور اپنی سخاوت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرجانے کے فن سے آگاہ ان لوگوں نے اتنا اثر ورسوخ حاصل کرلیا تھا کہ عوام اپنی حاجت روائی کے لیے خلیفہ کے بجائے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار ہارون الرشید نے اپنے دارالحکومت بغداد کا چکر لگایا تو اسے معلوم ہوا کہ شہر کے خوبصورت ترین محلات اور عالی شان عمارتوں کے مالک آل برامکہ ہی کے لوگ ہیں۔ روایت ہے کہ جب خلیفہ نے برمکیوں کا شکوہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو ان کے زوال کا بھی آغاز ہوگیا۔ پھر پے درپے کئی ایسے واقعات ہوئے کہ آل برامکہ سے تعلق رکھنا ایسا جرم قرار پایا جس کا انجام دردناک موت کے سوا کچھ نہ تھا۔غیرمعمولی ذہانت، مردم شناسی اور معاملہ فہمی کی ہر صلاحیت ان کا ساتھ چھوڑگئی۔ جو تاریخ دان کچھ عرصے کے لیے عباسی خلافت اور آل برامکہ کو لازم و ملزوم سمجھنے لگے تھے ایک بار پھر اپنی کتابیں کھول کر بیٹھ گئے کہ اس غلطی کو درست کرلیں جو وہ ظاہری 
حالت سے دھوکا کھا کے‘ کر چکے تھے۔ ان پر اب یہ کھُلا کہ برامکہ کی صلاحیتیں اپنی جگہ لیکن ان کا اظہار عباسیوں کی خوشنودی سے مشروط تھا۔برمکیوں نے جوکچھ اچھا کیا تھا اسے خلافت عباسیہ کے کھاتے میں لکھا اور جو برا کیا تھا اسے ان کے زوال کی وجہ قرار دے کر تفہیم حساب کرلی۔بات صرف برمکیوں تک محدود نہیں بلکہ انسانی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ریاستی امور چلانے کے لیے حکومت کا سربراہ اپنی دانست میں اہل لوگوں کو مختلف عہدوں پر فائزکرتا رہتا ہے، لیکن ان کی حدودِکاراوراثرونفوذ پر بھی گہری نظر رکھتا ہے۔ بادشاہوں کے زمانے میں جوشخص پسندیدگی کی فہرست سے خارج ہواوہ مال، مرتبے اور اکثر اوقات جان سے بھی گیا۔ سلطانیٔ جمہور کے زمانے میں یہ طے ہواکہ بادشاہ سلامت یا حکمران کی ناپسندیدگی کی سزاموت نہیں ہوگی، لیکن حکمران کا یہ اختیار کہ وہ کس قسم کے لوگوں کو مختلف عہدوں پر مقرر کرے گا، اس کا فیصلہ اسی پر چھوڑ دیا گیا۔ دنیا بھر میں رائج دساتیر میں کئی جگہ یہ لکھا جاتا ہے کہ فلاں عہدے پر تقرری کی میعاد ریاست کے چیف ایگزیکٹو کی خوشنودی پر منحصر ہوگی۔ مثال کے طور پر پاکستان کے دستور کے مطابق ایک وفاقی یا صوبائی وزیر اسی وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے جب تک اسے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا اعتماد حاصل رہے۔ ایک وزیر اپنے 'باس‘ سے کتنا جُڑا ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کسی ایک وزیر کے خلاف بھی عدم اعتماد کی قرارداد پاس کردے تو پوری حکومت تحلیل ہوجاتی ہے۔گویا وزیر اعظم کو اپنے سوئے انتخاب کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔ 
کسی بھی حکمران کی نیک نامی یا بدنامی میں اس کی مردم شناسی بنیادی کردار اداکرتی ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس کام کے لیے کسے مقرر کرے گا اور بڑے بڑے دعوے کرنے والوں میں سے ان لوگوں کو کیسے منتخب کرے گا جو اس کے دیے ہوئے اہداف کو حاصل کرسکیں۔ یہ اتنا پیچیدہ عمل ہے کہ اس کی تشریح آج تک ممکن نہیں ہوسکی، اسی لیے اسے بڑی حد تک حکمران کی نظر انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ آزادی سے اپنے کارندے چن سکے۔ ہندوستان کے پہلے مغل فرمانروا بابر نے دستر خوان پر شیرشاہ سوری کے سیب کھانے کے انداز سے معلوم کرلیا کہ ایک دن وہ بغاوت کرے گا اور پھر زمانے نے ایسا ہوتے ہوئے دیکھا اور بابر کی گہری نظر کی داد دی۔ چنیوٹ کے سعداللہ خان کی خوشنویسی نے اسے شاہجہاں کے کیسے قریب کردیا،اس کا جواب شاہجہاں ہی دے سکتا ہے۔ رنجیت سنگھ کو فقیر خاندان کے بھائیوں میں کیا نظر آیا کہ اس نے انہیں نہ صر ف اپنے قریب رکھا بلکہ مسلمان ہونے کے باوجود ان پر بے پناہ اعتماد کیا؟ انسان کو جانچ لینے کا پیمانہ قانون کی کسی کتاب میں نہیں لکھا، اس کے بارے میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ قدرت کی رہ نمائی اور تجربے کے تال میل سے یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور عین ممکن ہے کبھی پیدا نہ ہوپائے۔ 
جدید دور میں ملک چلانے کے لیے مستقل بیوروکریسی کا تصور نہ صرف رائج ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظریہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ افراد کی نظر انتخاب کی بجائے سرکاری اہلکاروں کی بھرتی ایک باقاعدہ ضابطے کے تحت کی جائے۔ لیکن اس میں بھی وہی مسئلہ درپیش ہے کہ اب تک کوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں کیا جاسکا جس کے ذریعے انسانی نظر کو اس نظام سے نکالا جاسکے۔ سرکاری ملازمتوں کے لیے ہونے والے تمام امتحانات آمنے سامنے گفتگو پر ختم ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر منتخب یا مسترد کرنے کا آخری فیصلہ کیا جاتا ہے۔ انٹرویو لینے والوں نے کسی کو کیوں بھرتی کیا اور کسی کو کیوں چھوڑدیا،اس بارے میں دوسرے توکیا، شاید وہ خود بھی واضح جواب نہ دے سکیں۔ اسی طرح سرکاری ملازموں کی ترقیوں کا معاملہ ہے، پاکستانی تناظر میںگریڈ بائیس کی ایک سیٹ کے لیے تین ایک جیسے امیدواروں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا طریق کار کیا ہوگا؟ پانسے پھینک کر یا سکے اچھا ل کر ان میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرلیا جائے یا اس شخص کی بصیر ت پر اعتماد کیا جائے جسے قوم نے منتخب کرکے وزارت عظمٰی پر فائز کیا ہے اور دستور کے مطابق وہ وفاقی معاملات میں کسی کے مشورے کا پابند نہیں؛ البتہ قانون اس کے ہاتھ باندھ سکتا ہے اورکبھی کبھارگردن بھی۔ 
یہ بات عجیب لگتی ہے کہ جس شخص کو قوم نے نازک ترین فیصلے کرنے کے لیے منتخب کیا ہے اسے اتنی بھی آزادی حاصل نہیں کہ اپنے رفقاء کا انتخاب اپنی مرضی سے کرسکے۔اگر وہ دنیا کے مانے ہوئے ہوابازی کے ماہرکو ملک میں لے آئے تو وہ کام نہ کرپائے، اگر وہ کسی کو اس کے عہدے سے ہٹانا چاہے تو ہٹا نہ سکے۔ کہنے کو اس کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر ہو اور عملی طور پر کسی سرکاری ملازم کی برطرفی یا تبادلہ اس کے گلے کا ہار بنا دیے جائیں۔ وہ آرمی چیف سے ناخوش ہو تو جلا وطن کردیا جائے اور کسی اہلکار کی تادیب کر بیٹھے تو رسوا ئی اس کا مقدر بن جائے۔ پاکستان کے وزیراعظم کے اختیار کا دائرہ اگر اتنا ہی مختصر ہے تو پھر اس عہدے کو کیبنٹ ڈویژن کے ماتحت کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ اختیار کاکوئی سوال ہی نہ اٹھنے پائے۔ کیا یہ ایک پوچھا جاسکنے والا سوال نہیں کہ جسے کروڑوں عوام نے اپنے ووٹ سے منتخب کیا ہو وہ تو ناقابل اعتماد قرار پائے جبکہ بندکمروں میں بیٹھے تاریخ سے ناواقف اور عمل کی دنیا سے دور رہنے والے لوگوں کی نظرِ رسا فیصلہ کُن ہو؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved