حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعدمیں نے عرض کیا تھا کہ اب ہمیں طالبان کے ساتھ مذاکرات یا مفاہمت کا خیال ذہن سے نکال دینا چاہیے۔ ملا فضل اللہ کا انتخاب طے شدہ پالیسی کے تحت کیا گیا ہے۔ یہ محض پاکستانی طالبان کا انتخاب نہیں‘ اسے ملاعمر کی سرپرستی حاصل ہے۔ انہی کی ہدایات کے تحت فضل اللہ کو امیر بنایا گیا۔میری باتیں شروع میں بیشتر لوگوں کو بعید ازقیاس لگتی ہیں۔جیسے میں نے تحریک طالبان پاکستان بننے سے‘ کچھ ہی دن پہلے لکھ دیا تھا کہ اب پاکستان اور امریکہ کے مابین‘ اپنے اپنے طالبان کے پردے میں کشمکش پیدا ہو گی۔ میںنے امریکی اور پاکستانی طالبان کی اصطلاحیں استعمال کی تھیں۔ بیشتر ''ماہرین‘‘نے ان کا مضحکہ اڑایا تھا۔ بہت سے ماہرین تو آج بھی یہ فرق ماننے کو تیار نہیں۔ میرا خیال ہے کہ حکومت پاکستان اور اس کے بعض متعلقہ ادارے اس گیم پلان کا صحیح اندازہ نہیں کر پا رہے‘ جس کے تحت حالیہ واقعات ہو رہے ہیں۔ ماہرین کی مہارتوں کو‘ ان پر چھوڑتے ہوئے‘ ہم اپنے طور سے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بہت سے منتشر اور بکھرے ہوئے اجزاکے اندر پوشیدہ ‘وہ خاکہ دریافت کرنا آسان نہیں‘ جس میںہمارے شہدا کے خون سے رنگ بھرے جا رہے ہیں۔ برصغیر کے لئے امریکہ کا بنیادی اسٹریٹجک منصوبہ‘ 1971ء میں نکسن ڈاکٹرین کے عنوان سے سامنے آیا تھا۔ جس کے تحت ایشیا میں بھارت کو‘ایک ریجنل پاور کی حیثیت سے منوانے میں مدد دینے کا مقصد کارفرما تھا۔ اگر اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو دیکھا جائے‘ توجتنا کچھ اب تک ہوا ہے‘ اس کی ایک ہی سمت واضح ہے اور وہ ہے کہ بھارت کی علاقائی طاقت کی حیثیت سے‘ پیشرفت اور پاکستان کو اپنی جغرافیائی دائرے میں محدود کر کے رکھ دینے کی حکمت عملی۔ پاکستان نے اس جال کو توڑنے کے لئے ایٹمی اسلحہ بنا کر بھی دیکھ لیا۔ مگر اصل منصوبے کو آگے بڑھانے کا سلسلہ‘ نہ رُک سکا۔ منصوبے میں پیشرفت کے چند بڑے بڑے موڑ یہ ہیں۔ مشرقی پاکستان پر بھارت کا غلبہ۔ پاکستان کے پاور سٹرکچر میں امریکی مفادات کے مطابق سوچ‘ رکھنے والوں کا کنٹرول۔ معیشت کوبھارت سے منسلک کرنا۔ پاک بھارت تنازعات کو نیم منجمد کر کے‘ دوتین عشروں کی مہلت حاصل کرنا اور پاکستان کو مجبور کر دینا کہ بھارتی بالادستی کی بڑھتی ہوئی گرفت کی مزاحمت نہ کر سکے۔ اس مرحلے تک پہنچنے کے لئے بھی بڑے بڑے واقعات عبور کئے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی برطرفی اور پھانسی۔ جنرل ضیاالحق کی مکمل پشت پناہی کر کے‘ پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر‘ بھارت کے مقابلے میں جذبہ مزاحمت کی شکست و ریخت اور پاکستان کے معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کی توڑپھوڑ۔ جب یہ واقعات رونما ہو رہے تھے‘ تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وقت کے دھارے پر‘ ایک دوسرے سے دوردور بہتے ہوئے تنکے‘ ایک ہی سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ ایک نگاہ واپسیں ڈال کر پھر سے دیکھئے ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ جنرل ضیاالحق نے امریکی شہہ اور معاونت سے‘ افغانستان میں پنگا لے لیا اور پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہم دو محاذوں پر لڑائی نہیں کر سکتے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت نہ کرنے کا اعلان کر کے ضیاالحق کی مدد کی۔ تاکہ پاکستانی فورسز کے اندر بھارت کی نیک نیتی کا تاثر پیدا ہو۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم مرارجی ڈیسائی سے خیرسگالی پر مبنی تعلقات کو آگے بڑھایا اور انہیں پاکستان کا سب سے بڑا قومی اعزاز دے ڈالا۔ دشمنی کی طویل تاریخ رکھنے والے ملک پاکستان کے اندر ‘ایک جارح ملک کے حق میں خیرسگالی پیدا کر دینا چھوٹا کام نہیں تھا۔یہاں صرف بڑے بڑے واقعات کا ذکر ہو رہا ہے۔ درمیان میں ''پاک بھارت تعاون‘‘ کے حق میں خیرسگالی کی متعدد لہریں اٹھائی گئیں‘ جو اپنے اپنے اثرات چھوڑ کر تحلیل ہوتی رہیں۔ جیسے محدود‘ پاک بھارت تجارت کی کوشش۔ دونوں ملکوں کے عوام میں رابطوں کو فروغ دینے کے متعدد سمجھوتے۔ واجپائی کا دورہ لاہور۔ یہ ساری کوششیں واقعات کے رخ کو ایک ہی طرف موڑنے کی خاطر ہوتی رہیں۔ ان سب نے اپنی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ اثرات ضرور چھوڑے اور یہاں تک کامیابی حاصل کر لی کہ وہ پاکستانی ذہن‘ جو بھارت کے ساتھ انصاف اور برابری کی سطح پر رہنے کا خواہش مند تھا‘ آہستہ آہستہ عزمِ مزاحمت سے دستبردار ہوتا رہا اور وہ سیاسی قوتیں‘ جو ''پہلے کشمیر‘ پھر تعلقات‘‘ کے نعرے پرڈٹی ہوئی تھیں‘ کشمیر کا تذکرہ چھوڑ کے‘ ثقافتی‘ سماجی اور تجارتی تعلقات بحال کرنے میں بھارتی حکمرانوں کی حصہ دار بن رہی ہیں۔
بھارت کا پرانامنصوبہ ہے کہ ایک بار پاکستان کے سرمایہ داروں‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مالیاتی امور میں رابطے پیدا کر لئے جائیں۔ اس کے بعد انہیں زیراثر لایا جا سکتا ہے۔ آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں‘ جہاں بھارت اپنے دیرینہ منصوبوں پر عملدرآمد کر سکتا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے ''پرانی طرز کی قوم پرستی‘‘ کے بندھن سے آزاد ہو چکے ہیں۔ پیشہ ورانہ دیانت‘ قو می مفادات اور قواعد و ضوابط کی پابندی جیسی فضولیات‘ اب ہمارے ہاں قصہ پارینہ ہیں۔عدلیہ جو کسی بھی معاشرے میں کردار‘ نظریات اور اصول پسندی کی سب سے مضبوط علامت ہوتی ہے‘ گزشتہ چند سال کے دوران اپنی روایتی عظمتوں کو برقرار نہیں رکھ سکی۔ سابق چیف جسٹس صاحب اور ان کے بیٹے کا مقدمہ ایک ایسی مثال ہے‘ جو کسی دوسرے ملک کی عدلیہ کو نصیب نہیں ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لالچیوں کے شہر میں بنئے راج کرتے ہیں۔ آج کا پاکستانی معاشرہ‘ بھارتی بنئے کے لئے سازگار ہو چکا ہے۔
سماجی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہر طرح کے انتہاپسندوںکی منزل ایک ہوتی ہے اور وہ ہے مظلوم عوام کے خلاف طاقتور طبقوں کی مدد اور اعانت۔ میری بات کا پھر کسی کو یقین نہیں آئے گا۔ لیکن اگر ذر
ا سی توجہ دے کر القاعدہ کی کہانی پڑھ لی جائے‘ تو یہ سمجھنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی کہ القاعدہ کی سرگرمیوں سے حتمی فائدہ کس کو پہنچا؟ آپ دیکھیں گے چند ہی روز میں دہشت گردوں کے نعرے کتنی تیزی سے بدلتے ہیں؟ یہ تو ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ طالبان پہلے دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات کرتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ ہم نے فلاں واقعے کا انتقام لیا ہے۔ جیسے بنو ں میں سکیورٹی فورسز پر حملے کی وجہ‘ لال مسجد کا انتقام بتائی گئی۔ حالانکہ خونریزی کی کئی ایک وارداتوں کو لال مسجد کا انتقام بتایا جا چکا ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک ہی کام کر رہے ہیں کہ ریاستی طاقت اور اہلیت پر عوام کا یقین متزلزل ہوتا رہے۔معاشرے میں بے یقینی اور عدم استحکام پیدا ہو۔قیادت قوت فیصلہ سے محروم ہو جائے اور سکیورٹی فورسز‘ راہنمائی کے لئے ایک سے زیادہ مراکز کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔ ان مقاصد کی روشنی میں دیکھا جائے‘ تو یہ ہر اعتبار سے پورے ہو رہے ہیں۔ میں اشارے کنائیوں میں بہت دنوں سے لکھتا آ رہا ہوں کہ حکمرانوں کی کرپشن‘ ان کی بے اعتباری‘ بے اصولی‘ ریاستی امور میں عدم دلچسپی‘ معیشت اور امن و امان کے شعبوں میں مسلسل عدم کارکردگی سے‘ عوامی اعتماد بری طرح مجروح ہو چکا ہے۔ حکمران طبقوں سے عوام کی مایوسی‘ بیزاری اور بیشتر حالات میں نفرت ایک ایسی کیفیت کو جنم دے رہی ہے‘ جس میں انسان ہر وقت کے خوف اور بے یقینی سے نجات حاصل کرنے کے لئے‘ کچھ بھی قبول کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ ملاعمر کی امارت اسلامی میں پاکستان شامل ہے اور ہمارے ہاں سرگرم طالبان کے بیشتر گروہ بطور امیر ملاعمر کی اطاعت کرتے ہیں۔ ہمارے عوام کو مایوسی‘ بے بسی‘ عدم تحفظ اور خوف کی کیفیت میں مبتلا کر کے‘ ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں گے کہ ہم کسی بھی تبدیلی کے خیرمقدم پر آمادہ ہو جائیں۔ اس وقت ہمیں ملاعمر‘نجات دہندہ کی صورت میں دکھائی دے رہے ہوں گے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ طالبان ‘ فاٹا کے علاوہ پاکستان میں کئی جگہوں پر اپنا نظام انصاف قائم کر چکے ہیں۔ ان کے مجاہدین‘ ستم زدگان کی مدد کرتے ہیں۔ ان کی عدالتیں انصاف مہیا کر رہی ہیں‘ جو عمومی طور پر فریقین کے لئے اطمینان بخش ہوتا ہے۔حکمت عملی کی باریکیوں کے باوجود‘ طالبان سچائی بیان کر دیتے ہیں۔ آج ہی شاہد اللہ شاہد نے صاف بتایا کہ ''شریعت کے نفاذ تک جہاد جاری رہے گا۔‘‘مذاکرات کے لئے ان کی یہی شرط ہے۔ہتھیار ڈالیے اور بات کر لیجئے۔ورنہ دہشت گردی سے لوگوں کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنے کا کام جاری رہے گا۔ اندھیرے دور کرنے کا کریڈٹ ملاعمر کے ماننے والے حاصل کرتے رہیں گے۔ اگر منصوبہ اسی طرح آگے بڑھتا رہا‘ تو افپاک کے معاملات ملاعمر کے ہاتھ میں چلے جائیں گے اور بھارت سے تعاون کی صورت میں کسی کو ملاعمر پر انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہو گی۔ پاکستانی عوام سروں کی پکی ہوئی جو فصل کاٹنے کو بیتاب ہیں‘ ملاعمر سب کی خواہشوں اور تمنائوں کے مطابق یوں کاٹیں گے کہ سب کے دل خوش ہو جائیں۔ ہر انتہاپسندی کی منزل ایک ہوتی ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے''تالوں گھسی ڈومنی تے گاوے تال بتال۔‘‘ یعنی گویّا تال سے اکھڑ جائے‘ تو وہ تال بتال گاتا ہے۔ کسی ایک تال پر نہیں رہتا۔ آج کا کالم کچھ اسی قسم کا ہے۔