اگرچہ اس وقت بھارت میں وزیر مملکت برائے تعلیم ششی تھرور کی اہلیہ سنندا پشکر کی غیرفطری موت اور وزیر موصوف کا ایک پاکستانی خاتون کالم نویس کے ساتھ مبینہ تعلق ذرائع ابلاغ میںموضوعِ بحث ہے، مگر سیاسی گلیاروں میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کی حالیہ کامیابی اور اس سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں اس کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پچھلے ہفتے مجھے دہلی کے صوبائی سیکرٹریٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ گیٹ کے باہر حسب توقع لمبی لائن دیکھ کر میں پریس کارڈ دکھا کر لائن کراس کرنے کا سوچ ہی رہاتھا کہ قطار میں مجھے وزیر صحت ستندر جین اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے نظر آئے۔ اسی دوران پاس میںہی ایک آٹو رکشہ ُرکا اور سماجی بہبود کی وزیر راکھی برلا اس میں سے برآمد ہوئی۔ نوزائیدہ عآپ پارٹی اور اس کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے سیکریٹریٹ کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ وی وی آئی پی کلچر قصہ پارینہ بن چکا ہے۔
اسمبلی انتخابات کے موقع پر عام آدمی پارٹی نے سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے نیز عام آدمی کو مہنگائی اور رشوت ستانی سے نجات دلانے کی غرض سے18 وعدے کئے تھے ۔ ان پر 8 دسمبر کو انتخابی نتائج آنے کے بعد سے گرم گرما بحث ہو ر رہی ہے۔عآپ نے جو دعوے اور اعلانات کیے ہیں، ان کے مطابق کسی بھی ایم ایل اے اور وزیر کی کار پر لال بتی استعمال نہیں ہوگی ، انہیں سرکاری رہائش گاہ نہیں دی جائے گی، اگر ان کے پاس ذاتی مکان ہے ۔ حکومت بنانے کے بعد پندرہ دن کے اندر لوک پال یعنی احتساب بل پاس کیا جائے گا۔ محلہ کمیٹی کو فیصلہ سازی کااختیار دینے کے لیے سوراج ایکٹ وضع کیا جائے گا، سوشل سکیورٹی فنڈقائم کیا جائے گا، بجلی کمپنیوں کے حسابات کی جانچ کی جائے گی، دہلی جل یعنی پانی بورڈ کی تشکیل نو کی جائے گی، کانٹریکٹ پر روزگار دینے کا سلسلہ ختم کیا جائے گا، ویٹ ( ویلیو ایڈیڈ ٹیکس سسٹم ) کوآسان بنایا جائے گا، طبقہ اناث کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی دستہ تشکیل دیاجائے گا جسے پولیس کے اختیارات نہیں ہوں گے۔ وہ وعدے جنہیں پورا کرنے کے لئے صرف دہلی کابینہ کی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت ہے ان میں ہرمکان کو 700 لٹر مفت پانی فراہم کرنے ، 500 نئے اسکول تعمیر ، نئے اسپتال تعمیر کرنے ، نئی عدالتیں قائم کرنے اور ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنے نیز بیرونی راست سرمایہ کاری کو بند کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ چند ہی ایسے موضوعات ہیں جن میں مرکزی حکومت کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہے جیسے دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینا ، غیر قانونی کالونیوں کو قانونی طور پرجائز اور قانونی بنانا ، ان کا انہدام روکنا اور دیہی اراضیوں کی تحویل پر پابندی لگانا وغیرہ۔
جہاں تک پینے کے پانی کا معاملہ ہے دہلی حکومت کے سال 2012,2013ء میں کرائے گئے سروے کے مطابق ایک فرد کو یومیہ 172لٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ ایک اوسط خاندان کو یومیہ688 لٹر پانی ملنا چاہیے ۔ دہلی جل بورڈ یومیہ 835 ملین(دس لاکھ) گیلن پانی فراہم کرتا ہے جو اس کے34 لاکھ 19ہزار کنکشنوں کے ذر یعہ پہنچایاجاتا ہے۔یعنی ہر مکان کو تقریباً دو ہزار لیٹر پانی ملتا ہے۔ ایک ماہر کے مطابق بہت سا پانی سپلائی اور پائپ لائنوں میں لیکیج کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے ۔اسی طرح وی آئی پی علاقوں کو زیادہ پانی ملتا ہے جبکہ بیشتر غیر قانونی بستیوں میں پائپ لائنیں نہیں ہیں وہاں مشکل سے یومیہ50لٹر پانی مل پاتا ہے ۔
لیکن وزیر اعلیٰ اروند کیجروال کے لئے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے حسابات کی جانچ اور بجلی کے نرخ میں 50 فی صد تخفیف کا معاملہ سب سے زیادہ ٹیڑھی کھیر ثابت ہوسکتا ہے۔ 'عآپ‘ نے یہ بھی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کانگریس کے دورِ حکومت میں ہوئی مبینہ بدعنوانیوں کی جانچ بھی کرنا چاہتی ہے ۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ دولت مشترکہ کے کھیلوں میں خرد برد کے بارے میں وی کے شنگلو کی رپورٹ کو دوبارہ کھولا جائے ۔ اس رپورٹ میں دہلی کی سابق وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ کے متعلق بھی کچھ باتیں آئی ہیں۔ یہ معاملہ 'عآپ ‘ اور کانگریس کے درمیان ٹکرائو کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے سیاسی مبصرین نئی حکومت کی عمر عارضی قرار دے رہے ہیں۔ اپنی شکست سے بوکھلائی سابق وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ ابھی سے سخت تیور دکھا رہی ہیں۔
بلا شبہ اب تک کے طرزِعمل سے عآپ نے ثابت کیا کہ وہ واقعتاً عام آدمیوں کی جماعت ہے ۔ اس نوخیز جماعت نے دہلی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کرکے ملک کے جاگیردارانہ اور بدعنوان سیاسی کلچر میں ایک طوفان برپا کردیا ہے ۔ لوک پال ( محاسب اعلیٰ) بل کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں آناً فاناً منظور کیاجانا ان کی اسی گھبراہٹ کا ایک واضح مظہر ہے۔
اسی تناظر میں جب ' عآپ ‘ نے دہلی اسمبلی الیکشن لڑنے کا علان کیا تو شاید ہی کسی نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہوگا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے ۔ الیکشن لڑناجوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔سیاسی شعور کی کمی
اور تعلیم یافتہ طبقہ کی بے حسی کے باعث عموما ً اچھے اور ایماندار امیدوار کے لیے انتخابی میدان میں اترنا حماقت ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ نہ پانی کی طرح پیسہ خرچ کرسکتا ہے، نہ اس کے پاس غنڈوں کی فوج ہوتی ہے، نہ وہ دھاندلیوں کا سہارا لے سکتا ہے ۔میرا بھی یہی خیال تھا کہ 'عآپ ‘ کی انتخابات میں موجودگی محض نمائشی ہوگی یا وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ برباد کرنے کا سبب بنے گی۔لیکن جب نتائج آئے تو سب ششدر رہ گئے ۔ حکمران کانگریس کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا،جبکہ بی جے پی کی پیش قدمی بھی نریندرمودی کے طوفانی دوروں کے باوجود رک گئی۔ 'عآپ‘ کی کامیابی دراصل سیاسی، سماجی اور اقتصادی بیداری کی چھوٹی سی علامت ہے ۔ آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخا بی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں امراء کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا اس نے ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ عام آدمی پارٹی کی تشکیل اچانک نہیں ہوئی بلکہ اس کے لیے عملی طور پر کام کیا گیا ۔ جس طرح امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں میں سیاسی جماعتیں اپنے اخراجات کے لیے عوام سے عطیات جمع کرتی ہیں ٹھیک اسی طرز پر عام آدمی پارٹی نے بھی عطیات جمع کرنا شروع کئے ۔عآ پ کی کامیابی کے بعد الیکشن کے مصارف ریاست کی طرف سے ادا کرنے کا سوال مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔ دنیا کے متعدد ملکوں میں اس پر عمل ہورہا ہے ۔ یہ بین حقیقت ہے کہ جو امیدوار منتخب ہونے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہائے گا لا محالہ وہ منتخب ہونے کے بعد اسے جائز، ناجائز ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کر ے گا۔ اسی لئے سیاست پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص اسمبلی یا پارلیمنٹ کا رکن بنتا ہے اس کا بنک بیلنس اس کی رکنیت کی میعاد ختم ہونے تک کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ دہلی اسمبلی کی 70 میں سے68 نشستوں پر بی جے پی نے 58 کروڑ پتی امیدوار کھڑے کئے۔
مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ 'عآپ ‘ کے ارکانِ اسمبلی کے پاس حکمرانی اور انتظامی امور چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ وہ بالکل کورے ہیں ۔تاہم کیجروال اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے، کوئی بھی وزیر اعلیٰ پیدائشی نہیں ہوتا ۔ ہر ایک پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ بنتا ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ارکان اسمبلی کو کوئی انتظامی تجربہ نہیں ہے لیکن اس سے کوئی مشکل پیش نہیں آئی گی ۔حکو مت کے کام کاج میں ماہرین سے مدد لی جائے گی ۔گو پارٹی کی صفوں میں وزارت کے حوالے سے انحراف کی خبریں منظرِ عام پر آئیں ۔علم بغاوت بلند کرنے والے ونود کمار بنی ہیں جو اس بات پر ناراض تھے کہ انہیں کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ بنی نے کانگریس کے طاقتوروزیر اے کے والیہ کو ان کے روایتی حلقہ لکشمی نگر میں شکست دی تھی ۔
' عآپ‘ کی کامیابی نے صرف بی جے پی بلکہ نریند ر مودی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے ۔ اور ان کے نیچے کی سیاسی زمین کھسکنے لگی ہے کیونکہ ' عآپ‘ اس کے مڈل کلاس ووٹ بنک میں نقب زنی کرچکی ہے ۔ نئے وزیراعلیٰ کیجروال نے سکیورٹی کا تام جھام لینے سے بھی انکار کرکے ایک مثبت شروعات کی ہے ۔ عام آدمی کو اس تبدیلی سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔خود کیجروال کو بھی اس کا شدید احساس ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ اقتدار بڑی ذمہ داریا ں لاتا ہے ۔ وہ بھی ایسا اقتدار جو دوسرے کے سہارے پر کھڑا ہوا۔ اگر 'عآپ‘ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس سے عام آدمی کی مایوسی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ادھر بی جے پی اور کانگریس حمایت دینے کے باوجود نئی حکومت کو گرانے کے لئے گھات لگائے بیٹھی ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ اروند کیجروال اس مشکل راہ کو کیسے پار کرتے ہیں ۔