تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     22-01-2014

جس کا کھاتے ہو ، اس کا گائو بھی

گزشتہ چار دہائیوں سے یہ فقرہ سنتے سنتے کان پک گئے ہیں کہ دنیا میں پاکستان‘ پاکستانیوں اور پاکستانی پاسپورٹ کی کوئی عزت نہیں۔ ہر ملک کے ہوائی اڈوں پر ہم ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ ہر ملک ہمیں دو نمبر کا شہری سمجھتا ہے۔ ہمیں دیکھتے ہی لوگ منہ پھیر لیتے ہیں‘ ہر مجرم کا کوئی نہ کوئی تعلق ہمارے ملک سے ہی نکلتا ہے۔ جس زمانے میں صرف اخبارات ہوتے تھے اور انہیں پڑھنے والوں کی بھی تعداد محدود تھی‘ اس دور میں بھی مملکت خداداد پاکستان کی توہین کا کوئی چھوٹا سا پہلو بھی نظر آ جاتا تو ایسے دانشور ‘ محقق‘ تبصرہ نگار اور شاعر ہر دور میں موجود رہے ہیں جو اس ملک کی ذلت و رسوائی کو اپنی تحریروں اور تقریروں کا خاص موضوع بناتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں جب دنیا میں چھپنے والی اکثر معاشیات کی کتابوں میں پاکستان کی ترقی کو ''سبز انقلاب‘‘ کے طور پر ایک مثال کی حیثیت سے درج کیا جاتا تھا اور یہ کتابیں بھی پاکستان کے اکثر شہروں میں دستیاب تھیں لیکن ان لوگوں کو کبھی اس بات کی توفیق نہ ہوئی کہ چند فقرے اس ملک کے لیے خیر کے بھی کہہ دیں۔ میں گزشتہ چالیس سالوں سے نفرت کے اس مرض کا گواہ بھی ہوں اور اس کی اصل وجوہ کا شاہد بھی۔ اس لیے کہ یہ سب افراد میرے قبیلے اور میری برادری کے لوگ ہیں جنہیں پاکستان کے بارے میں کوئی بری خبر ملے سہی‘ ان کی باچھیں کھل اٹھتی ہیں۔ یہ شاعر‘ ڈرامہ نگار ‘ مصنفین‘ تجزیہ نگار‘ اداکار‘ صحافی اور بیورو کریٹ ہیں۔ ستر کی دہائی میں مجھے شاعروں کی صحبت میسر ہوئی۔ اسّی کی دہائی سے اب تک بیورو کریٹ مجھے برادری کا فرد ہونے کے ناطے برداشت کرتے ہیں اور اپنی محفلوں میں دخل دینے کی اجازت۔ نوے کی دہائی میں ڈرامہ نگاری نے مجھے اداکاروں‘ موسیقاروں‘ گلوکاروں اور ہدایت کاروں کے جھرمٹ میں لا بٹھایا اور گزشتہ پندرہ سالوں سے اس ملک کے ''اعلیٰ ترین دماغ‘‘ یعنی کالم نگار اور تجزیہ نگار‘ مجھے گھاس ڈالتے ہیں کہ میں ان کی برادری میں ایک گھس بیٹھیا ہوں۔ ان سب طبقات کے کچھ افراد میں پاکستان کی نفرت ایسے لمحوں میں عروج پر ہوتی ہے جب '' جام مے توبہ شکن‘‘ سامنے ہو‘ گرم گرم بھنے ہوئے میوہ جات اور نمکو کے چٹخارے اور اگر ساتھ میں ٹھنڈی ہوا بھی چلنے لگے تو پہلا فقرہ جو منہ سے نکلتا ہے وہ یہ ہوتا ہے'' یار یہ کوئی ملک ہے‘‘ اور پھر ساری دبی ہوئی حسرتیں اور ناکام خواہشوں کا غصہ اس ملک پر نکلتا ہے۔ یہ سب لوگ وہ ہیں جنہیں اس ملک نے رزق کے وافر ذرائع مہیا کیے ہیں‘ رہنے کو گھر‘ گھومنے کو سواری اور عزت کرنے کے لیے لاکھوں عوام دیئے ہیں۔ لیکن ان کی نفرت اس ملک سے کم ہونے کو ہی نہیں آتی۔ جب ان سے بحث چھیڑو تو اس عالم مدہوشی میں ایک سچی بات ان کے منہ سے نکل جاتی ہے۔ '' یار یہ ملک بنا ہی غلط تھا‘‘۔ یہ ہے اس مرض کی اصل وجہ اور اس ملک سے نفرت کی بنیاد۔ یہ نفرت انہیں اس قدر اندھا کر دیتی ہے کہ انہیں اس ملک میں کوئی بھی قابل ذکر خوبی نظر نہیں آتی۔ اگر آ بھی جائے تو اسے بیان کرنا ان کی پاکستان سے نفرت کے نظریئے کو متاثر کرتا ہے۔ اسی لیے وہ چپ سادھ لیتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کب کوئی پاکستانی چوری کرتا پکڑا جائے‘ کہیں کوئی کسی ملک سے نکالا جائے‘ بم دھماکہ ہو‘ سیلاب آئے‘ کہیں غیرت کے نام پر کوئی قتل ہو جائے‘ بس پھر یہ ہوتے ہیں اور چوبیس گھنٹے کبھی نہ رکنے والا میڈیا۔ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ صرف میرے ملک میں ہی ہے۔ دلیل وہی دی جاتی ہے جو سعادت حسن منٹو نے دی تھی کہ اگر معاشرے میں گندگی‘ غلاظت اور تعفن ہے تو میں اسے ہی دکھائوں گا۔ 
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں غلاظت‘ گندگی اور تعفن ہے‘ لیکن کیا یہ صرف ہمارے ملک میں ہی ہے؟ کیا دوسرے معاشروں میں یہ سب نہیں ہوتا؟ لیکن یہ ہزاروں کیمرے اس مکھی کی طرح ہیں جس کی بینائی تو بلا کی ہوتی ہے لیکن اگر پھولوں کے اوپر بھی اڑ رہی ہو تو غلاظت کو ڈھونڈ نکالتی ہے۔ جاپان کے سب سے بڑے میڈیا ادارے '' این ایچ کے‘‘ میں انٹرویو دیتے اور لوگوں سے ملتے یہ سب لوگ بہت یاد آئے۔ اس کی وجہ ''این ایچ کے‘‘ کی وہ ڈاکومنٹری تھی جو انہوں نے پاکستانی قوم کی تعریف میں بنائی تھی۔ جاپان وہ ملک ہے جس میں پاکستانی قوم اور پاکستانی پاسپورٹ کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یوں تو گزشتہ چالیس سال سے مقیم پاکستانی استعمال شدہ گاڑیوں کے سب سے بڑے تاجر ہیں‘ کیسی بھی نیلامی ہو رہی ہو پہلی دس پوزیشنیں عموماً پاکستانیوں کی ہوتی ہیں۔ ان کے کاروباری رویے پر جاپانی بہت بھروسہ کرتے ہیں۔ اس لیے کہ پاکستانی صاف ستھرا کاروبار کرتے چلے آئے ہیں۔ لیکن پاکستانیوں کی بحیثیت قوم عزت و تکریم میں اس وقت بے پناہ اضافہ ہوا جب جاپان میں سونامی آیا۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش نے بھی دو جہاز بھیجے اور اپنے شہریوں کو لے گیا‘ لیکن آفت کی اس گھڑی میں پاکستانی وہ واحد قوم تھی جو تھویاما کے برف پوش علاقوں اور ٹوکیو کی گنجان آباد بستیوں سے دیوانہ وار سامانِ خورو نوش لے کر سونامی کے علاقوں میں جا پہنچے۔ جاپانی گرم گرم کھانا پسند کرتے ہیں۔ وہ حیران رہ گئے‘ یہ کیسی قوم ہے‘ اپنے ساتھ کھانا پکانے کا سامان لے کر آئی ہے اور ہمیں گرم گرم کھانا پکا کر کھلا رہی ہے! وہ جگہیں جہاں ان کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ ہوا تھا اور جاپانی بھی تابکاری کے ڈر سے نہیں جاتے تھے‘ پاکستانی وہاں بھی جا پہنچے۔ حیرت کی بات یہ کہ یہ لوگ جب وہاں گئے تو ان میں کوئی کسی جماعت یا مذہبی گروہ کا علمبردار بن کر نہیں بلکہ پاکستانی بن کر گیا۔ جاپان کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار پاکستانیوں کے کیمپوں میں جا کر تصویریں بناتے کیونکہ ''این ایچ کے‘‘ نے پاکستانیوں پر سونامی کے سلسلے میں امدادی کارروائیوں پر ڈاکومنٹری بنائی تھی۔ جس رات یہ ڈاکومنٹری چلی‘ پاکستانی بتاتے ہیں کہ اگلے روز ان کے جاپانی دوست اور ساتھ کام کرنے والے انہیں دیکھتے ہی جھک جاتے‘ آنکھ میں آنسو بھر لاتے اور صرف اتنا کہتے یہ قوم آپ کا شکریہ کیسے ادا کرے گی۔ ان کے دل میں پاکستانیوں کی عزت تو پہلے ہی تھی۔ اس کا صرف ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ سلمان رشدی کی کتاب کا ترجمہ جاپان کی ایک پروفیسر نے کیا، اس کی تقریب رونمائی تھی۔ چند پاکستانی اس تقریب میں گئے اور کہا کہ اس کتاب سے ہمارے اور پوری امت مسلمہ کے دل دکھے ہیں۔ پولیس نے نہ صرف اس تقریب کو روکا بلکہ جاپان کے تمام بک سٹالوں سے وہ کتاب اٹھا دی۔ آج بھی وہ پاکستانیوں سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ وہ کتاب کہیں نظر تو نہیں آئی؟ اس پروفیسر کو چند ہی دنوں بعد کسی نے قتل کردیا تھا۔ توہین رسالت پر کسی غیر مسلم معاشرے میں یہ قتل بہت اہم تھا۔ لیکن پاکستانیوں پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ کسی ایک بھی پاکستانی کو تفتیش کے لیے نہیں بلایا گیا۔ پاکستان کا جاپان میں سفیر فرخ عامل میرا اکیڈمی کا ساتھی ہے‘ اس نے بتایا کہ تم سوچ نہیں سکتے بحیثیت پاکستانی کسی غیر ملک میں میرا سر پہلی بار فخر سے بلند ہوا‘ جب میں بادشاہ کو اسناد سفارت دینے گیا تو اس نے اور پھر اس کی ملکہ نے کہا کہ پاکستانی وہ واحد قوم ہے جس نے سونامی میں ہماری مدد کی۔ جاپان کے پاکستانی بہت سادہ دل اور خوبصورت ہیں‘ انہیں دیکھ کر اور ان سے مل کر پاکستان کے مستقبل سے امید وابستہ ہونے لگتی ہے۔ یہ سب کے سب ابھی تک چار چار عیدیں کرانے والے پاکستانی مولویوں سے بھی دور ہیں اور اپنی سیاسی پارٹی کا ایک دفتر بیرون ملک کھولنے والے سیاسی شعبدہ بازوں سے بھی علیحدہ۔ لیکن ان سب تنظیموں کے نمائندے اب وہاں پہنچ چکے ہیں‘ سب نے اپنی اپنی نرسریاں بنانا شروع کردی ہیں‘ لیکن ابھی تک یہاں کے پاکستانیوں پر پاکستانیت غالب ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام غالب ہے۔ وہ پاکستان کی بنیاد سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن سب ان لوگوں کو کیسے نظر آ سکتا ہے جو کافی کے تلخ گھونٹ، سگریٹ کے مرغولے اور توبہ شکن مشروب کی ترنگ میں صرف یہ کہنا جانتے ہیں '' یار یہ کوئی ملک ہے؟‘‘، ''یہ ملک بنا ہی غلط ہے!‘‘ لیکن کیا کریں 80 کے قریب چینلوں میں کاش کوئی ایک ''این ایچ کے‘‘ کی اس ڈاکومنٹری کی اردو میں ڈبنگ کر کے نشر کردے۔ کاش کسی کو تو اس ملک کی عزت سے محبت ہو۔ جس زمین نے ہمیں عزت دی ہے‘ جس قوم نے انہیں سر پہ بٹھایا ہے ‘ اسے بھی تو عزت دو!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved