تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-01-2014

اے اہلِ دانش‘ زندگی قصاص میں ہے

معاملات کو موخر کرنے کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ ع
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے 
کیاخواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف نے پیر کو سکیورٹی پالیسی پر برپا کابینہ کے اجلاس میں واقعی پرویز مشرف کے خلاف خطابت کے جوہر دکھائے ؟ جاوید ہاشمی اور پرویز رشید کے علاوہ ، ان دونوں لیڈروں سے فوجی اقتدار نے غیر معمولی بدسلوکی کا ارتکاب کیا۔ اس لیے کہ وہ آلہ کار نہ بنے ۔ آج مگر مسئلہ دہشت گردی ہے ، جنرل کو قوم مسترد کرہی چکی ۔ رہا مقدمہ تو عدالت پہ چھوڑ دیا جائے ۔ بلند مقاصد کے وابستگان انتقام نہیں پالتے ۔ اجتماعی کیا، ذاتی زندگی میں بھی سرخرو وہی ہوتے ہیں ، جو معاف کرسکتے ہیں ۔ امتحان میں وہ سرخرو رہے اور داد پائی ۔ اب اورکیا چاہیے؟
ان دونوں کے گرامی قدر مرحوم والد بھی رہنما تھے ۔ 1974ء میں غلام مصطفی کھر کی گورنری میں شہید ہونے والے خواجہ رفیق دیانت و نجابت کا پیکر تھے ۔ تحریکِ پاکستان کے معزز کارکن ۔ خواجہ صفدر بھی یہی تھے ۔ ان میں مفاہمت کا جذبہ تھا اور وہ جنرل ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ کے سپیکر ہو گئے تھے۔ یہ بات مگر کیسے بھلائی جا سکتی ہے کہ باقی بلوچ اور جناب حمزہ ایسے جانبازوں کے ساتھ مغربی پاکستان اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کا کردار انہوںنے کمال شوکت سے ادا کیا۔ 1947ء کے بعد قائداعظم نے اُن سب کو معاف کر دیا تھا جو شرارت سے باز آئے۔ خان عبدالغفار خان مان کر نہ دئیے کہ حریت پسند تھے مگر ضدی بہت وگرنہ بابائے قوم خود ان کے پاس گئے تھے۔ خواجگان کو اپنے اجداد کے قرینے کا کچھ تو احترام چاہیے۔ سرکارؐ نے فتح مکّہ کے بعد لطف و کرم کی کی جو بارش کی، وہ ایک حکمتِ عملی نہیں تھی ۔ فتح کے بعد عالی ظرفی ہی سچّوں کا شعار ہوتاہے ۔ وہ تو رحمتہ اللعالمینؐ تھے۔فرمایا: مسلمان سبھی کا خیر خواہ ہوتاہے ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے کہ ان جیسا منفرد صوفی زمین نے پھر کبھی نہ دیکھا ، یہ کہا تھا: جب تم کسی خطاکار کو پائو تو اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم بچ رہے ۔ پھر اس کے لیے دعا کرو کہ وہ بھی آلودگی سے نجات پائے... یہی مروّت ہے۔ 
صلاح الدین ایوبی ایسے فیّاض نے مگر شیخ الجبال کے قاتل گروہ کو معاف نہ کیا ۔اس کے ذہنی غسل سے گزرے جانباز مسلمان اکابر کو زہریلے خنجروں سے قتل کیا کرتے ۔انہی نے اس نادرِ روزگار شاعر، ماہرِ فلکیات اور ریاضی دان عمر خیام کواغوا کیا تھا۔ ژولیدہ فکری کی بات دوسری ہے وگرنہ طالبان باقی و برقرار نہیں رہ سکتے ۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیںہوا کہ دہشت گردوں کے کسی گروہ نے ریاست کو ہرا دیا ہو۔ ان کی عمر پوری ہو چکی۔ طاقت کے نشے میں سرشار ، ان کے حربے درندوں ایسے ہیں ۔ غیر ملکیوں سے وہ مدد لیتے ہیں اور اب بتدریج ان کا باطن قوم پہ آشکار ہے ۔ لیاقت بلوچ نے حیرت زدہ کر دیا۔ کہا: دیکھنا چاہیے کہ طالبان جن حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں ، کیا وہ واقعی ان کے مرتکب ہیں ؟ خود فریبی سی خود فریبی!
مذہبی جماعتوں نے قائدا عظمؒ سے شکست کھائی؛ درآں حالیکہ ان کے بعض رہنما ذاتی زندگیوں میں اُجلے مانے جاتے۔ قائداعظم کی حمایت کرنے والوں میں پارسی ، بوہرہ ، اسمٰعیلی ، حتیٰ کہ قادیانی شامل تھے ۔ مذہبی لیڈر جو بات سمجھ نہ سکے ، وہ یہ ہے کہ جناح صادق اور امین ہیں ۔ وہ امّت کے لیے دردمند ہیں اور ان کی کوئی ذاتی غرض نہیں ۔ جناح نے اہلِ اسلام ہی نہیں ، پورے بر صغیر کی بقا کا دروازہ کھولا وگرنہ ایک ہولناک اور ہمہ گیر خانہ جنگی مقدر تھی ۔ہندوستان جس میں جل مرتا۔ 
عمران خان، سید منور حسن ، مولانا فضل الرحمن اور جنرل حمید گل ایک بار پھر ویسی ہی تاریخی غلطی کے مرتکب ہیں۔ بے شک عفریت دو ہیں ، ایک امریکہ اور دوسرے دہشت گرد۔ بے شک افغانستان میں فساد کا آغاز روسیوں نے کیا۔ ان کے حق میں مگر دلائل کیوں دئیے جاتے ہیں ، جو بے گناہوں کا بے دردی سے خون بہاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے پرسوں وہ بات کہی، جو عمران خان اور سید منور حسن دہرایا کرتے ہیں: اُن اسباب کا تدارک کیا جائے ،جو دہشت گردی کا سبب ہیں ۔ پاکستان میں پولیس تباہ حال اور عدالتیں بے بس ہیں... کیا اس جواز پر قاتلوں، چوروں، ڈاکوئوں اوررہزنوں کومعاف کر دیا جائے؟ کیا نائن الیون کے بعد امریکی امداد کا محتاج پاکستان امریکہ کو افغانستان میں در آنے سے روک سکتا تھا؟ طالبان اور القاعدہ کی سرزمین پر جنہوںنے بے وقت لڑائی چھیڑی اور اپنی قوت کا غلط اندازہ کیا ۔ جو کسی خیرخواہ کی بھی سنتے نہیں تھے ۔ 
خوف ایک حربہ ہے ، بہت سلیقہ مندی کے ساتھ جسے نفاذِ قانون اور نظامِ عدل کے لیے برتنا چاہیے۔ پولیس کرپٹ اور کمزور، انٹیلی جنس کمتر اور ان اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان۔ تین ماہ پہلے جس سیکرٹریٹ کا چوہدری نثار صاحب نے اعلان کیاتھا، اس کاکیا ہوا؟ امن و امان ، سیاسی استحکام اور ٹیکس وصولی۔ خدا کے بندو ، اسی سے استحکام جنم لیتا اور معیشت فروغ پا کر آزاد خارجہ پالیسی کا در کھولتی ہے ؎ 
حالِ دل لکھوں کب تک، جائوں ان کو دکھلائوں 
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا
عصرِ حاضر اورتاریخ کا تجربہ آشکار ہے کہ جرم خوف سے تمام ہوتاہے ۔ قرآنِ کریم کی آیت بالکل واضح: ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب۔ اے اہلِ دانش، قصاص میں زندگی رکھی گئی ۔نزولِ قرآن سے بھی 4600برس پہلے ، اللہ کو ماننے والے پرنس ہمورابی کو یہ نقطہ معلوم تھا ۔ ان تخمینوں پہ تعجب ہوتاہے کہ پاک فوج دہشت گردوں کو ہرا سکے گی یا نہیں ۔ جی ہاں ! بالکل سری لنکا کی طرح ۔ وہ مذاکرات چاہتے ہی نہیں ، آپ کریں گے کیسے ؟ جو مانتے ہیں ، ان سے کر لیجئے مگر بیک وقت چھ سات غیر سرکار ی وفود کے ذریعے نہیں بلکہ سرکاری طور پر۔ اتفاقِ رائے اوّل سول اور فوجی قیادت میں ہونا چاہئیے ، فضا جس کے لیے سازگار ہے ۔ پھر عمران خاں سمیت ساری اپوزیشن کواعتماد میں لیا جائے۔ نظم و نسق میں سو فیصد اتفاقِ رائے کس چڑیا کانام ہے اور کل جماعتی کانفرنسیں کس ملک میں ہوا کرتی ہیں ؟ 
آپ کی منطقیں نرالی ہیں 
شیخ صاحب خدا خدا کیجے 
تحریکِ انصاف اور نون لیگ کی بچگانہ لڑائی ۔ ایک بیان رانا ثناء اللہ، دوسرا پرویز رشیدکا۔ جواب میں ملکۂ جذبات شیریں مزاری، حتیٰ کہ عمران خاں خود میدان میں کود پڑتے ہیں ؎
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل 
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
مسئلہ ہے الیکشن کی دھاندلی جانچنے کا۔ میاں صاحب چوہدری نثار کو کیوں نہیں بھیجتے کہ کپتان سے بات کریں ۔ اس کی رگ رگ سے یہ ناچیز واقف ہے ۔ سمجھایا اسے جا سکتاہے ، دبایا نہیں ۔ 
طویل المیعاد منصوبہ بندی درکار ہے ۔ پولیس کی تطہیرو تعمیر اور جدید خطوط پر خفیہ ایجنسیوں کی تشکیل ۔تین عشروں میں چین والوں نے اس فن کو عروج پر پہنچا دیا کہ امریکہ سے خطرہ تھا۔ ایسے حالات میں ،جو ملک کو درپیش ہیں ، مسافروں اور سڑکوں کی نگرانی کا ایک مربوط نظام درکار ہوتاہے ۔ انیسویں صدی کے وسط کی بدامنی کو انگریزوں نے اسی طریق سے نمٹایا تھا۔ آج اقوام کے کتنے ہی تجربات اور جدید آلات میّسر ہیں ۔ 
پیپلز پارٹی تاریخ کے کوڑے دان میںڈالی جا چکی ۔ وقت گزرتا جا رہا ہے ، نون لیگ کو لا محدود مہلت نہ ملے گی ۔ پھر ایک نئی سیاسی جماعت یا خدا نخواستہ مارشل لا ۔معاملات کو موخر کرنے کی ایک حد ہوا کرتی ہے ۔ ع 
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved