تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-01-2014

وزیراعظم کو درپیش مسائل

قوم کا حال ان پانچ نابینائوں جیسا ہے جن کو ایک ہاتھی کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ وہ اسے چھو کر بتائیں کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ ایک نابینا ہاتھی کے نیچے گھس گیا اور اوپر ہاتھ لگا کر ہاتھی کے پیٹ کو چھو کر کہنے لگا کہ ہاتھی چھت جیسا ہے۔ دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھی کی دم آ گئی‘ وہ کہنے لگا کہ ہاتھی موٹے رسّے جیسا ہے۔ ایک نے سونڈ پکڑ کربتایا کہ ہاتھی درخت کی موٹی شاخ جیسا ہے۔ چوتھے نے ہاتھی کی ایک ٹانگ کو دونوں بازوئوں میں لے کر بتایا کہ ہاتھی ستون جیسا ہے‘ پانچویں کے ہاتھ ہاتھی کا کان لگا تو اس نے بتایا کہ ہاتھی پنکھے جیسا ہے۔ جس کا ہاتھ ہاتھی کے جسم کے جس حصے پر جا ٹھہرا‘ اس نے اسی کے مطابق ہاتھی کی تشریح کر دی۔ قوم کا بھی یہی حال ہے۔ ہر شخص اپنے دائرہ کار کے مطابق مسائل کا تعین کر رہا ہے‘ ہر طبقے کا مسئلہ اپنا اپنا ہے اور ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
میاں نواز شریف کا مسئلہ غالباً یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں ان کے موج میلے میں حارج نہ ہوں۔ وہ دیسی مرغی(اصلی گھی میں پکی ہوئی)‘ گھروڑی والا زردہ‘ تلوں والے کلچے اور ہریسہ کھانا چاہتے ہیں‘ مری میں مزے کرنا چاہتے ہیں‘ چولستان میں رات گزارنا چاہتے ہیں‘ لیکن احمق قوم ان سے اور قسم کی توقعات لگائے بیٹھی ہے۔ لوگ پیپلز پارٹی کی حکومت سے جن باتوں پر تنگ تھے‘ ان سے نجات چاہتے تھے اور انہوں نے اسی توقع پر میاں نواز شریف کو ووٹ دیے تھے مگر میاں صاحب کے نزدیک اس قوم کا مسئلہ صرف پیپلز پارٹی سے نجات تھی‘ وہ قوم کو مل گئی ہے‘ لہٰذا میاں صاحب مطمئن ہیں کہ ان کی ذمہ داری پوری چکی ہے اور قوم کو پیپلز پارٹی سے نجات مل چکی ہے۔
قوم کے مسائل پر لعنت بھیجیں۔میاں نواز شریف کے تین بنیادی مسائل ہیں۔ میری مراد ہے آج کل میاں صاحب کے تین مسائل ہیں۔ پہلا مسئلہ مریم نواز شریف کی سربراہی میں چلنے والا ''یوتھ لون پروگرام‘‘ہے ۔ انہیں ملکی ترقی اور دیگر مسائل ازقسم دہشت گردی‘ روپے کی قدر میں کمی‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ امن و امان کی صورتحال اور سمجھ سے بالاتر گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے‘ لگتا ہے‘ اول تو غرض ہی نہیں ہے‘ اور اگر ہے بھی تو ان کا خیال ہے کہ ان کی دختر کی زیر نگرانی چلنے والا قرضہ پروگرام ملک کے سارے مسائل حل کر دے گا۔ شاید انہیں صرف قرضہ سکیم والے پروگراموں کی فکر ہے اور اسی میں شرکت کے لیے وقت میسر ہے۔
ان کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں فارغ ہونے والے یا کروائے جانے والے عہدوں پر کشمیری بھائی کس طرح فٹ کروانے ہیں۔ اٹارنی جنرل کے عہدے پر سلمان بٹ فائز کروائے جا چکے ہیں اور پی سی بی کی چیئرمینی کے لیے ندیم بٹ صاحب نامی کشمیری تیاریاں پکڑ رہے ہیں۔ پچھلی مرتبہ بھی ان کے جوابی انقلاب کی بری طرح ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے ہوا میں معلق جنرل پرویز مشرف کی جگہ پُر کرنے کے لیے کسی پکے فوجی (لڑاکا فوجی یونٹ سے تعلق رکھنے والے) جرنیل کے بجائے مرمتی یونٹ (انجینئرنگ کور) سے تعلق رکھنے والے جنرل ضیاء الدین بٹ کو چیف آف آرمی سٹاف لگا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جوابی کارروائی کی قبل از وقت ہی ہوا نکل گئی۔ تاہم میاں نواز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی او جی ڈی سی کا چیئرمین لگاتے وقت میٹرک فیل جیل فیلو کا انتخاب کرتے تھے جبکہ میاں صاحب کسی بٹ کا انتخاب کرتے ہوئے بنیادی کوالیفیکیشنز پوری کروا لیتے ہیں۔ کشمیری ہونا ایڈیشنل کوالٹی ہوتی ہے۔ پی آئی اے‘ایچ ای سی‘ پیمرا‘ نادرا‘پیپکو‘ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن‘ این ٹی ڈی سی‘ نیشنل انشورنس کمپنی‘ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن‘ پی ایس او ‘سوئی سدرن گیس پائپ لائن‘سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ‘ منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن‘پی ایس او‘ سٹیل ملز‘اور دیگر کئی اداروں میں کل وقتی چیئرمین یا سربراہ غالباً اسی لیے نہیں لگائے جا سکے کہ ابھی تک ان عہدوں کے مناسب عزیزو اقارب دستیاب نہیں ہو سکے۔
میاں صاحب کا تیسرا مسئلہ نجکاری ہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ درجنوں ادارے فروخت کرنے ہیں اور حالات سازگار نہیں ہیں۔ اداروں کی ٹریڈ یونینز اڑی ہوئی ہیں اور مخالف سیاسی جماعتیں بھی خم ٹھونک کر میدان میں ہیں۔ الٹے سیدھے 
پروگراموں میں پیسے خرچ کرنے کے لیے رقم کی ضرورت ہے اور رقم ہے نہیں۔ فی الحال پرنٹنگ پریس صرف اور صرف نوٹ چھاپ رہا ہے لیکن آخر پرنٹنگ پریس کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ وہ اپنی استعداد کے مطابق تو چھپائی کر سکتا ہے‘ عزیزم اسحاق ڈار کی طلب کے مطابق تو نوٹ نہیں چھاپ سکتا۔پرنٹنگ مشین کی تکنیکی مجبوریاں ہیں جو خواہش کی نہیں بلکہ ڈیزائن کی تابع ہوتی ہیں۔ اب مشین کا ڈیزائن ہی ایسا ہے کہ وہ اتنے نوٹ نہیں چھاپ سکتی جتنی حکمرانوں کو ضرورت ہے۔ باوجود اس کے کہ آج کل پرنٹنگ پریس پیپلز پارٹی کے دور سے دوگنے نوٹ چھاپ رہا ہے بات نہیں بن پا رہی۔ خواہش اور حقیقت کے درمیانی فرق کو پورا کرنے کے لیے سرکاری ادارے بیچے جانا آسان ترین حل ہے اور اسے مزید آسان بنانے کے لیے مناسب پرائیویٹائزیشن کمیشن کی تشکیل بہت ضروری تھی۔میاں صاحب نے یہ مرحلہ بھی آسانی سے طے کر لیا ہے۔
پرائیویٹائزیشن کمیشن کا نیا بورڈ بناتے ہوئے میاں صاحب نے ان اداروں کا تیا پانچہ کرنے کے لیے جس ٹیم کا انتخاب کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کمیشن کا چیئرمین محمد زبیر ہے۔ موصوف کا مرتبہ وزیر مملکت کے مساوی ہے اور بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئرمین کا عہدہ بھی اسی کے پاس ہے۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کی اکنامکس‘ ٹیکس ریفارمز‘میڈیا کمیٹی کا رکن رہا ہے۔ یعنی چیئرمین مکمل طورپر گھر کا آدمی ہے۔ مسلم لیگی ہے اور متوالا ہے۔ اسی کمیشن کا ایک اور رکن منیر کمال چیئرمین محمد زبیر کا بھائی ہے۔ یعنی ایک ہی گھر سے دو لوگ پرائیویٹائزیشن کمیشن کے ممبر ہیں۔ میاں صاحب ساری ریوڑیاں اپنوں ہی میں بانٹ رہے ہیں۔ منیر کمال پرائیویٹائزیشن کمیشن کا ممبر ہونے کے علاوہ کراچی سٹاک ایکسچینج کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین بھی ہے اور نیشنل بنک آف پاکستان کے چیئرمین کا سب سے مضبوط امیدوار ہے۔ فاروق خان میاں نواز شریف کا قریبی دوست‘بزنس مین‘ پنجاب کے چند امیر ترین افراد میں شامل ہے۔ شوگر اور بیوریجز انڈسٹری چلاتا ہے اور مسلم لیگ ن کی مالی سرپرستی کرنے والوں میں شامل ہے۔ شنید ہے کہ میاں نواز شریف کی گزشتہ نجکاری میں جن لوگوں نے فائدہ اٹھایا ان میں یہ بھی شامل تھا۔ اسی طرح ایک اور ممبر ظفر اقبال ثوبانی کا تعلق توانائی کے شعبے سے ہے اور ایک کمپنی کا سی ای او رہا ہے۔ اس کمپنی کی نجکاری بھی ایک داستان ہے۔ اب جبکہ کوٹ ادو پاور کمپنی‘ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی‘حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی اور جامشورو پاور جنریشن لمیٹڈ کے علاوہ دیگر کئی الیکٹرک ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کی جانے والی ہے‘ موصوف کی ممبر بننے کی رمز سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اسی طرح ایک ممبر ارسلہ خان ہوتی مسلم لیگ ن ضلع مردان کا جنرل سیکرٹری ہے اور ایک صوبائی حلقے سے شکست خوردہ امیدوار ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ممبران بھی میاں صاحب کے قریبی لوگ ہیں اور ملکی اداروں کی من پسند افراد میں ارزاں نرخوں پر نجکاری کرنے کے عظیم ارادوں سے لیس ہیں۔
فی الحال آج صرف میاں نواز شریف کو درپیش مسائل کا ذکر تھا۔ دیگر طبقوں اور مسائل کا ذکر پھر سہی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved