تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     23-01-2014

یہ عروج‘ زوال میں نہ بدل جائے

عام آدمی پارٹی جیسا چمتکار ہندوستان کی سیاست میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آج تک ہندوستان میں کوئی ایسی پارٹی پیدانہیں ہوئی جس کے روزانہ لاکھوں ممبر بن رہے ہوں اور جسے گھر بیٹھے لوگوں نے کروڑوں کا چندہ بھیج دیا ہو۔ ایسی پارٹی کوئی نہیں ہوئی جسے چلانے والے بالکل نوآموز ہوں اور جنہیں اپنے پہلے ہی الیکشن میں برسر اقتدار آنے کا موقع مل گیا ہو۔ کیا آپ کسی ایسی پارٹی کوجانتے ہیں جس نے اپنی پیدائش کے پہلے ہی سال میں لوک سبھا کے لیے 400 امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہو ؟ 
ہاں ، چمتکار تو پہلے بھی ہوئے ہیں لیکن ان میں اور جو اب ہورہا ہے اس میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ 1977ء میں اندرا گاندھی جیسی بارعب وزیر اعظم کو شکست دینا اس لیے ممکن ہوا کہ ایمرجنسی کے سیاہ بادلوں نے سارے ہندوستان کوگھیر لیا تھا۔ اس کے علاوہ مخالفت کا پرچم جے پرکاش، مرارجی ڈیسائی، جگ جیون رام وغیرہ جیسے لوگوں کے ہاتھ میں تھا جو اندرا گاندھی سے بھی زیادہ تجربہ کار تھے۔ اسی طرح راجیو گاندھی کے خلاف 1989ء میں جو لہر چلی تھی اس کی قیادت چندرشیکھر، دیوی لال، وشواناتھ پرتاپ سنگھ جیسے سرکردہ لیڈر کررہے تھے۔ بوفورس توپوں کی رشوت کا پورے ملک میں اتنا شور تھاکہ کانگریس کا طوطی اس میں ڈوب گیا ، لیکن جہاں تک عام آدمی پارٹی کا سوال ہے ، اس کے پاس نہ تو کوئی پَرکھے ہوئے تجربہ کار لیڈر ہیں ، نہ ہی اس کے پاس متبادل سیاست کا کوئی نقشہ ہے، نہ کوئی ملک گیر تنظیم ہے اور نہ ہی قارون کے خزانے ہیں (جیسے دیگر پارٹیوں کے پاس ہیں) تو اس کے پاس کون سی ایسی جادو کی چھڑی ہے کہ جسے گھما کر دلی نام کی ریاست میں برسراقتدارآگئی ہے؟ 
برسراقتدار تو یہ اس لیے آئی ہے کہ کانگریس نے جوا کھیل لیا۔ بی جے پی کوبرسراقتدار تو آنا تھا کیونکہ اس کو سب سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں ، لیکن کانگریس نے ایک زبردست دائو چلا ، دہلی میں چکنا چور ہوئی کانگریس نے سوچا کہ پورے ملک میں اس کی اصل دشمن بی جے پی ہے، اس لیے وہ کسی بھی قیمت پر اسے تخت پر نہیں بیٹھنے دے گی۔چنانچہ اس نے طشتری میں رکھ کر دہلی سلطنت ' عاپ‘ کو پیش کردی۔ یہ پیشکش یونہی کر دی گئی ہو ، ایسا مجھے شروع سے نہیں لگ رہاتھا ، اس شک کی اب تصدیق ہورہی ہے۔ ' عاپ‘ کے ایک ناراض ممبر اسمبلی کا تازہ ترین انکشاف اگر درست ہے تو دہلی کے ووٹر اپنا سرپیٹ لیں گے۔ جس پارٹی کو انہوںنے کانگریس کو سبق سکھانے کے لیے سرچڑھا یا وہی اب کانگریس کے قدموں میں بیٹھ کر اس کی چوکیداری کررہی ہے۔ کانگریس اب دہرا کھیل کھیل رہی ہے ، وہ ایک طرف تو 'عاپ‘ سرکار کے اقدامات پر تنقید کررہی ہے اور اس کے وزیر قانون سے استعفیٰ مانگ رہی ہے اور دوسری طرف اس اقلیتی سرکار کو سہارا بھی دے رہی ہے۔ کانگریس کے لوگ دنیا میں سیاست کے سب سے شاطر کھلاڑی ہیں۔ انہوںنے 'عاپ‘ پارٹی کے منہ میں اقتدار کا رس گلہ ڈال کر اسے خاموش کردیا ہے۔ اب 'عاپ‘ پارٹی کی بندوق کی نال بی جے پی کی طرف مڑ گئی ہے ۔ 'عاپ‘ پارٹی کے پنڈتوں سے کوئی پوچھے کہ اب آپ کس کے خلاف لڑیں گے ؟ بدعنوانی کے خلاف لڑنے پر آپ کا دارومدار ہے اور اسی پارٹی کے کندھے پر کھڑے ہیں جو بدعنوانی کا دوسرا متبادل بن گئی ہے۔ کانگریس کو مبارکباد کہ ان نوآموز لیڈروں کو بہت سستے میں پٹا لیا۔ اقتدار کا رس گلّہ اتنا رسیلا تھا کہ کانگریس سے ہاتھ ملا کر 'عاپ‘ کے لیڈروں نے اپنے بچوں کی قسم بھی توڑ دی۔ 
جو بھی ہو ، یہ اقتدار میں آنے کی کہانی ہے لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ دہلی کے الیکشن میں 'عاپ‘ پارٹی کو 28سیٹیں کیسے مل گئیں؟ دہلی کے لوگوں کا دل کیا کسی نے پڑھا ہے؟ شاید نہیں۔ دہلی کے لوگوں کا دل دولت مشترکہ کھیلوں، ٹیلی کام گھپلا، کوئلہ گھپلا 
اور سب سے زیادہ رام لیلا میدان کی لیلائوں سے اتنا عاجز تھا کہ وہ 'صرف لیڈروں‘ سے اکھڑ گئے تھے۔ اگر انہیں ذرا بھی بھنک لگ جاتی کہ 'عاپ‘ پارٹی کو 28سیٹیں مل سکتی ہیں تو وہ اسے 60سیٹیں تک دے دیتے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی خالی کٹورا بجاتے رہتے۔ ایسا اس لیے نہ ہوتا کہ 'عاپ‘ پارٹی کی اپنی کوئی خوبی تھی بلکہ اس لیے ہوتا کہ دہلی کا کھسیا یا ہوا ووٹر کسی بھی نئے چہرے کو گلے لگانے پر آمادہ تھا۔ دہلی کے عوام نے بھی جوا کھیلا۔ 'عاپ‘ پارٹی اقتدار کے لالچ میں پھنسنے کے بجائے مخالفت میں رہی ، اگر بی جے پی سرکار کو مروڑ تی نچوڑتی تو اس کی کچھ کل ہند سطح کی امیج بنتی ۔ لیکن اب کیا ہورہا ہے؟ 
اب غبارے میں روز روز نئے نئے سوراخ ہورہے ہیں۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ یہ پارٹی سادگی پسند اور بااصول لوگوںکی ہے تو اس کے وزیراعلیٰ نے 10کمروں والے مکان کی ہامی کیوں بھری تھی؟ وزیر اعلیٰ کے روایتی رہائش گاہ میں رہنے کے خرچ سے بھی زیادہ اضافی خرچ اس عمارت میں ہوتا۔ ڈر کے سبب صحیح راستہ پکڑا اور یہ اچھا کیا۔ بجلی ،پانی ، وزرا کے لیے سادہ کاریں وغیرہ اچھے فیصلے ہیں ، لیکن تجربہ کار منتظمین اور لیڈروں کی رائے ہے کہ ان افلاطونی فیصلوں سے سرکاری خزانہ خالی ہوجائے گا، 
لیکن 'عاپ‘ والوں کو کیا فکر ہے؟ انہیں کون سا 5سال تک راج کرنا ہے؟ اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری اور رشوت کے اسٹینگ آپریشن جیسی باتوں کو بھی صرف دل بہلانے والی ترکیبیں مانا جارہا ہے۔ یہ سب کام اصل میں نگر پالیکا(عالمی) سطح کے ہیں۔ ہندوستان جیسے ملکوں کو 'عاپ‘ پارٹی کی چمتکار دکھا دکھا کر حکومت کرنے کا خواب دکھانا کیا بچگانہ حرکت نہیں ہے؟ ابھی آپ یہ ثابت نہیں کرپائے کہ آپ سائیکل کی سواری ٹھیک سے کرپائیں گے یا نہیں اور آپ جیٹ طیارے کی پرواز کرنے کی ضد کرنے لگے۔ ہندوستان کے عوام جذباتی ضرور ہیں لیکن اتنے سمجھدار بھی ہیں کہ وہ کسی ڈگمگاتے سائیکل سوار کو جیٹ اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ عام آدمی پارٹی دو تین ہفتوں میں ہی عام پارٹیوں کی طرح برتائو کرنے لگی ہے۔ پارٹیاں تو پھر بھی پارٹیاں ہیں، یہاں تو میلے ٹھیلے کی سی ریل پیل ہے۔ ایک بٹن دبا یا اور پارٹی کے رکن بن گئے۔ ذرا سا پھٹکا ہوا نہیں کہ ایک ہی جھٹکے میں سب کھسک لیں گے۔ یہ پارٹی ہے کہ چوں چوں کا مربہ ہے؟ نہ کوئی لیڈر ہے ، نہ ہی کوئی پالیسی۔ کشمیری ہوں، مائونواز ہوں ، غیر ملکی سرمایہ کار ہوں، مودی ہو، ہومو سیکس کا معاملہ ہو، کانگریس ہو 'عاپ‘ پارٹی کی لیڈروں کی اپنی اپنی بین ہے او راپنا اپنا راگ ہے۔ ڈر یہی ہے کہ لوک سبھا انتخابات آتے آتے دہلی میں مِلا یہ عروج سارے ملک میں زوال میں نہ بدل جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved