تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     23-01-2014

کوئی روکے یہاں دستِ اجل کو

ماتم زدہ سے شب و روز ہیں۔ ہر دِن کا چہرہ بے گناہوں کے لہو سے سرخ ہوتا ہے۔ ہر روز کتنے ہی گھروں میں صفِ ماتم بچھتی ہے۔ ہر روز ہی تاریک راہوں میں مارے جانے والے معصوم انسانوں کے جنازے اٹھائے جاتے ہیں۔ ہر روز مائیں اپنے جوان بیٹوں کی لاشوں سے لپٹ کر بین کرتی ہیں اورکتنی ہی ایسی کم نصیب مائیں ہیں جنہیں ہمیشہ کے لیے بچھڑنے والے بیٹے کی لاش کی جگہ اُس کے خوب صورت وجود کے چیتھڑے ملتے ہیں۔ یہاں ہر روز موت کا رقص ہوتا ہے۔ ہر روز موت کتنے ہی گھروں کے چراغ بجھا کر وحشت ناک رقص کرتی ہے۔ اور ہر روز صاحبِ اقتدار ایک نیا مذمتی بیان جاری کر دیتے ہیں۔گلیاں‘بازار‘گھر، آنگن‘ کوچہ کوچہ‘بستی بستی قتل گاہ بنتی جا رہی ہے۔بے گناہوں کے قاتل، ظالم اور بموں سے حملے کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں۔ انسانوں کے لہو کے پیاسے وحشت اور بربریت کا وہ بھیانک کھیل کھیل رہے ہیں جس کی مذمت لکھتے ہوئے الفاظ ختم ہو جاتے ہیں ، معنی کم پڑ جاتے ہیں۔ اس سنگین صورت حال پر حکمرانوں کی بے حسی سمجھ سے باہر ہے ۔ دہشت گردوں کے پے درپے حملوں پر اب بھی حکمران روایتی قسم کے گھسے پٹے سیاسی بیانات دے کر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔
بنوں میں خودکش حملہ آوروں نے ایف سی 23کے جوان شہید کر دیے۔ کل 26افراد کیا شہید ہوئے ، چھبیس گھرانے تباہ ہوگئے۔ کیا جاں بحق ہونے والوں کی تعداد صرف ہندسوں میں بیان کر دینا کافی ہوتا ہے کہ ایف سی کے اتنے اہلکار شہید ہو گئے۔میڈیا میں ان کے نام اور ان کی تصاویر بھی جاری ہونی چاہئیںجو اپنے فرض کی راہ میں جاں سے گزر گئے ، اُن کو اتنا خراج عقیدت تو پیش کرنا چاہیے اور قوم کو بھی خبر ہونی چاہیے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں کیسے کیسے جوان رعنا اپنے لہوسے دھرتی کو گلزار کر رہے ہیں۔وحشی دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم میں یکجہتی پیدا ہونی چاہیے کہ یہ جہنمی اسلام اور انسان دشمن ہیں ، ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ وہ گروہ جو اب بھی ان ظالمان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور علی الا علان ان کی اسلام دشمن بہیمانہ کارروائیوں کی مذمّت نہیں کرتے ان کو بھی بے نقاب ہونا چاہیے۔نوازحکومت کو اب تو جاگ جانا چاہیے اور بیانات اور عزائم سے آگے جا کر ٹھوس بنیادوں پر ان منظم دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
وطنِ عزیز میں امن و امان کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ امن کی بحالی اور دہشت گردی کا خاتمہ حکومت کی ترجیحی فہرست میں پہلے نمبر پر ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت کی اب تک کی کارکردگی میں ایسا نہیں ہوسکا ۔ایک طرف کراچی کی صورت حال قابو میں نہیں آ رہی،دوسری جانب فاٹا‘پشاور،جنوبی پنجاب،لاہوراور بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں تک دہشت گردوں نے اپنا بھیانک نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے‘اس کو کچلنے کے لیے بہت منظم اور ٹھوس انداز میں کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ایک دن بنوں میں دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو اگلے روز مستونگ میں زائرین کی بس دہشت گردی کا شکار ہوجاتی ہے ، اُسی روز کراچی جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں لیڈی پولیو ورکرز پر گولیاں چلا کر انہیں موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔پھر راولپنڈی میں دھماکے کی خبر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد مختلف اطراف سے وار کر کے حکومتی مشینری کو کنفیوزکرنا چاہتے ہیں اور یقیناً وہ اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب بھی ہوتے نظر آرہے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف ، وزیر داخلہ چودھری نثار اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے متضاد بیانات سے حکمرانوں کے ذہنی انتشار کا اظہار ہوتا ہے۔ آٹھ مہینے اسی بیان پر گزار دیے گئے کہ طالبان سے مذاکرات ہوں گے۔ 
جب دیکھا کہ مذاکرات کا عمل اتنا سادہ اور رواں نہیں تو کہا کہ مذاکرات کے ساتھ جنگ کا آپشن بھی موجود ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اکیلی حکومت طالبان سے مذاکرات نہیں کر سکتی ، دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی شامل ہونا چاہیے۔اس میں یقیناً دوسری رائے نہیں کیونکہ دہشت گردی صرف حکومت یا ن لیگ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اپوزیشن کو بھی اتنا ہی اہم کردار ادا کرنا چاہیے جتنا اہم کردار حکومت ادا کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیںکسی نہ کسی شکل میں صوبائی حکومتوں میں شامل ہیں،اس لیے سب کی ذمّہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کے ایشو پر سیاست نہ کریں بلکہ اس عفریت سے جان بچانے کا حل پیش کریں۔ عمران خان بہت دعوے سے کہتے تھے کہ اُن کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کا حل موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق جیسے علماء تو طالبان کے مختلف گروہوں سے باقاعدہ مراسم رکھتے ہیں۔ انہیں بھی اس وقت سنجیدہ انداز میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور کھل کر بتانا چاہیے کہ اگر مذاکرات کو کامیاب بنانا ہے تو ان نکتوں پر زیادہ توجہ دینا ہو گی 
اوریہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا۔ صرف مولانا سمیع الحق کا یہ کہہ دینا انہیں بری الذمہ نہیں کر سکتا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں۔ دوسری جانب حکومت کا بنیادی فرض ہے کہ وہ عوام کے جان اور مال کے تحفظ کی ضمانت دے جس میں حکومت اب تک ناکام ہے۔معصوم اور نہتے شہریوں کا قتل کرنے والے عناصر کے خلاف جنگ ضروری ہے ،انہیں انہی کی زبان میں جواب دینا چاہیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے چھیالیس گروپوں میں سے صرف تیرہ گروپ مذاکرات کے لیے تیار ہیں ، باقی ہارڈ لائنر ہیں اور بات چیت کے خلاف ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ جو بے گناہوں کوخون میں نہلا رہے ہیں اُن کا سر کچل دے ۔ خدارا اب تو حکومت ایک واضح لائن آف ایکشن بنائے۔وزیر اعظم صاحب آرمی چیف اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں ، قوم سے خطاب کرکے اسے اعتماد میں لیں اور اللہ کا نام لے کر دشمن عناصر کو کچلنے کے لیے ہر ممکن کارروائی کا آغاز کردیں۔
اب بہت ہو چکا ، قتل و غارت کا یہ گھنائونا کھیل بند ہونا چاہیے، کب تک میرے وطن کی مائیں اپنے بیٹوں کی لاشوں پر بین کرتی رہیں گی‘کب تک غریب پولیو ورکرز ڈھائی سو روپے دیہاڑی کے پیچھے ظالمان کی گولیوں کا نشانہ بنتی رہیں گی!
کوئی روکے یہاں دست اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved