تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-01-2014

آج نہیں تو کل

کوئی جائے اور جا کر میاں صاحب کو بتائے کہ جو ریاست نفاذِ قانون سے دستبردار ہو جائے‘ وہ باقی و برقرار نہیں رہتی۔ جو حکمران بروقت فیصلہ نہ کرے اُسے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ 
عمران خان نے ٹھیک کہا: فوجی کارروائی کے لیے انہیں اعتماد میں لیا جائے۔ اب بھی ان کے تحفظات ہیں؟ فوج کے ساتھ ہیں مگر یہ بھی ارشاد کیا کہ امن کے دشمن جیت گئے۔ یہ نہ بتایا کہ مذاکرات کی کوشش ناکام کس نے بنائی۔ نون لیگ کی قیادت کو وہ ژولیدہ فکری کا مرتکب سمجھتے ہیں۔ شاید سبھی۔ سرکاری لوگوں یا دینی مدارس کے محترم‘ غیر متنازعہ علماء کے ذریعے بات چیت کی بجائے سرکار نے ایک سے زیادہ سیاسی شخصیات کو جھونک دیا۔ واضح پیغام دینے اور ایک متعین ایجنڈے پر بات کرنے کی بجائے‘ مختلف اور متوازی مذہبی‘ سیاسی لیڈروں سے درخواست کی۔ مولانا سمیع الحق نے تو باہر نکلتے ہی واویلا کیا کہ وزیراعظم کنفیوژن کا شکار ہیں اور اصل طاقت ان کے پاس نہیں۔ کیا ثالث یوں ایک فریق بن کر گفتگو کیا کرتا ہے؟ کیا ایک رابطہ کار کو زیبا ہے کہ وہ ایک کی مذمت اور کمزوری کے اعلان سے آغاز کرے؟ کس نے کہا کہ میاں صاحب کمزور ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس نے انہیں اختیار دیا۔ جنرل کیانی نے ان سے کہا کہ اگر بات چیت سے خون ریز تصادم رک سکے تو ان سے زیادہ خوشی کسی اور کو نہ ہو گی۔ مر تو فوج کے لوگ رہے ہیں۔ جانیں گنوانے کا فائدہ کیا۔ احتیاط کی حد یہ تھی کہ کارروائی کجا‘ معمول کی فوجی نقل و حرکت بھی روک دی کہ غلط فہمی نہ ہو۔ 
جواب میں طالبان نے کیا کیا؟ جنرل نیازی کی شہادت اور چرچ پہ حملہ‘ یلغار پہ یلغار۔ کیا کوئی اجازت دے سکتا ہے کہ مذاکرات کے ہنگام اس پر آگ برستی رہے؟ رائے عامہ کے رجحان میں جو تبدیلی برپا ہے‘ جو عمران خان کے علاوہ حکمران پارٹی کے لب و لہجے سے بھی عیاں ہے‘ وہ طالبان کے اسی رویے کا نتیجہ ہے۔ طالبان خود نہیں چاہتے یا ان کے سرپرست؟
عسکری قیادت نے چند چیزوں کی نشاندہی کی تھی۔ اوّل یہ کہ مذاکرات کی مدت مقرر کی جائے‘ ثانیاً وہ دستور کے تحت ہوں‘ ثالثاً بات چیت طالبان کے ہمدرد لیڈروں کو نہ سونپ دی جائے۔ حکومت نے حکمت عملی کو نظرانداز کیا اور سب سے بڑھ کر چودھری نثار نے‘ ذمہ داری جن کے سپرد تھی۔ 
ڈرون کے حملے میں حکیم اللہ محسود مارا گیا تو انہوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ کیا وہ ایک معصوم آدمی تھا۔ کیا خود چودھری صاحب نے یہ نہ کہا کہ طالبان نے چرچ اور پاکستانی جنرل پہ حملہ کر کے خود بھی حالات خراب کیے۔ انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ اگرچہ امریکیوں نے طالبان لیڈر کو ہدف بنا کر‘ مسئلہ پیدا کیا مگر طالبان کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘ جیسے کہ حکومت اور پاکستانی قوم نے۔ چودھری صاحب سیاست کی حرکیات خوب سمجھتے ہیں‘ ادراک گہرا ہے‘ اظہارِ خیال پہ قدرت۔ تامل کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا مگر ایک مسئلہ ہے‘ دبائو میں وہ ہیجان کا شکار ہو جاتے اور گھبرا اٹھتے ہیں۔ 
پاکستان کی اجازت سے امریکہ افغانستان میں داخل نہ ہوا تھا۔ تاویل تراشنا سہل ہے‘ تحمل اور بردباری سے تجزیہ کرنا مشکل۔ امریکہ پر مستقل اقتصادی انحصار کرنے والا پاکستان مزاحمت کیسے کرتا۔ درست کہ جنرل پرویز مشرف خوف زدہ ہو گئے اور سب کی سب شرائط انہوں نے مان لیں۔ ہوش مندی سے کام لیتے تو امریکی شرائط کم ہو جاتیں۔ کچھ چیزیں ہم منوا لیتے۔ انہیں تھوڑا سا وقت مانگنا چاہیے تھا۔ اپوزیشن‘ افواج اور حلیفوں سے مشورے کے لیے۔ جیسا کہ اس وقت کے وزیر خارجہ کولن پاول نے بعد میں لکھا: وہ تو ہر بات مان گئے‘ حتیٰ کہ تعاون کے بعض خطوط‘ خود اپنی طرف سے بھی تجویز کر دیئے۔ 
میاں محمد نواز شریف موجودہ سنگین حالات کے ذمہ دار نہیں۔ یہ انہیں ورثے میں ملے مگر وہ خود بھی دہشت گردی کے خلاف امریکہ کو تعاون کا یقین دلاتے رہے۔ میثاق جمہوریت کے ہنگام انہوں نے کہا: مشرف تو اقتدار کی خاطر‘ دکھاوے کے لیے دہشت گردوں کی مخالفت کرتے ہیں‘ ہم دل کی گہرائیوں سے ان کے مخالف ہیں۔ بھارتی صحافی کلدیپ نائر سے بھی کہا۔ اس کا مطبوعہ مضمون ریکارڈ پر ہے۔ 
میاں صاحب ڈرون حملوں کی مخالفت اور طالبان سے مکالمے کی حمایت کرتے رہے۔ حکومت سنبھالنے سے چند دن قبل یہ فرمایا کہ ہر چیز کی انہوں نے تیاری کر رکھی ہے۔ صلاح مشوروں کی کھکھیڑ میں پڑے بغیر‘ فوراً ہی اصلاح احوال کا آغاز کر دیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس لیے انہیں عمران خان پہ ترجیح دی کہ وہ کاروبارِ حکومت کا تجربہ رکھتے ہیں۔ فوجی قیادت نے بھی اسی لیے دھاندلی کی طرف سے آنکھیں بند کیے رکھیں‘ جب عربوں اور امریکیوں نے ان کی پشت پناہی کی۔ 2008ء میں وگرنہ جنرل کیانی نے مداخلت کی تھی۔ کور کمانڈروں کے ذریعے‘ انتظامیہ کو بتا دیا تھا کہ انتخاب شفاف چاہیے۔ اس وقت نون لیگ دھاندلی کا ہدف تھی۔ پرویز مشرف قاف لیگ کو جتانے پر تلے تھے۔ جنرل کیانی کے اسی اقدام پر برہم ہو کر‘ آنجناب نے ان کی برطرفی کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ بروقت جنرل کو علم ہو گیا اور اس نے تدارک کر لیا۔ 
جس لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کا میاں صاحب نے وعدہ کیا تھا‘ وہ کہاں ہے؟ غیر معمولی تیزی کے ساتھ نئی پالیسیاں انہوں نے تشکیل دینے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کو انہوں نے اپنی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کی دعوت دی اور موصوف نے گریز کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ بھارت سے کشیدگی ختم کرنے کے لیے انہیں تدریج سے کام کرنا چاہیے اور سفارتی ذرائع بروئے کار لانے چاہئیں۔ جیسا کہ ان کا مزاج ہے‘ وہ ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کے آرزو مند تھے۔ خوابوں کی دنیا میں رہنے والا خوش فہم آدمی‘ جو گاہے سیاسی اور سفارتی نزاکتوں کو بھول جاتا ہے۔ جس کا مطالعہ محدود ہے اور جو صرف اپنے لوگوں سے مشورہ کرنا پسند کرتا ہے۔ سلطانیِ جمہوری میں بادشاہت کے مزے لوٹنے کا خواہش مند۔ 
پیپلز پارٹی سے ہم نے نجات پائی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ زرداری صاحب کا حال کیا تھا؟ فوجی قیادت نے جب انہیں قومی سکیورٹی پالیسی بنانے کا مشورہ دیا تو جواب یہ ملا: آپ بنا دیں‘ ہم دستخط کر دیں گے۔ خاموش رہنے کے سوا‘ وہ اور کیا کرتے۔ قانون سازی درکار تھی‘ خاص طور پر قانونِ شہادت میں تبدیلی۔ پولیس‘ سپیشل برانچ‘ سی آئی ڈی اور انٹیلی جنس بیورو کی تشکیل نو مطلوب تھی۔ فوج اس میں کیا کرتی؟ جہاں کہیں میاں صاحب نے مثبت اقدامات کیے‘ ساری قوم نے ان کی تائید کی‘ مثلاً کراچی میں آپریشن کا فیصلہ‘ جو اگر جاری رہا‘ جس کے نقائص اگر دور کیے جاتے رہے تو لازماً نتیجہ خیز ہو گا۔ بھارت اور افغانستان سے تعلق کی نوعیت‘ وہ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کسی نے انہیں روکا نہیں۔ نون لیگ کی بالاتری کے باوجود کوئٹہ میں قوم پرستوں کو اقتدار سونپا تو ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسے۔ کچھ نہ کچھ بہتری بھی یقیناً آئی ہے اور مزید آ سکتی ہے۔ 
حلیف اور حریف سیاسی لوگوں کو اعتماد میں لینے کے بے شمار فوائد ہیں۔ تجربے سے مگر ثابت ہوا کہ کل جماعتی کانفرنس ناکام رہی۔ نظم و نسق میں حکمت عملی پہ مشورہ کیا جاتا ہے‘ اصولوں پر نہیں کہ وہ واضح ہوتے ہیں۔ ریاست کے باغی گروہ کو تھوڑی سی مہلت دے دی جاتی ہے‘ سمجھایا جا سکتا ہے۔ کوئی جائز مطالبہ ہو تو مانا جا سکتا ہے۔ بعض کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لیے سرکاری خزانہ صرف کیا جا سکتا ہے۔ ریاست انہیں فریق نہیں مان سکتی۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک دہشت گرد گروہ نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہو۔ یہ احساس خوف کی پیداوار ہے اور مریضانہ اندازِ فکر کی۔ یہ دانستہ خلطِ مبحث ہے یا ان کی تاویلات جو سیاسی حرکیات کو سمجھتے نہیں۔ آج نہیں تو کل‘ کارروائی تو میاں صاحب کو کرنا ہی ہو گی۔ ظلم نہیں‘ نفاذِ قانون کے لیے۔ جتنا جلد وہ فیصلہ کر لیں‘ اتنا ہی اچھا ہو گا۔ کوئی جائے اور جا کر میاں صاحب کو بتائے کہ جو ریاست نفاذِ قانون سے دستبردار ہو جائے‘ وہ باقی و برقرار نہیں رہتی۔ جو حکمران بروقت فیصلہ نہ کرے اُسے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved