قدرت نے ہمارے لیے جو اُصول طے کر دیے‘ وہ ابدی ہیں‘ مگر کچھ لوگ ہیں جو اِن اُصولوں کے خلاف زندگی بسر کرتے ہیں۔ مگر ٹھہریے! ایسے لوگوں کو اللہ کا نافرمان قرار دینے میں عُجلت سے کام مت لیجیے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے اِسی دُنیا میں گناہوں کی سزا مقرر کر دی گئی ہو۔ ہم نے اِسی خوش گمانی میں رات کی ڈیوٹی کو برداشت کر رکھا ہے! ع
دِل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
ہمارے کئی دوست ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ کے اِس فرمان پر یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ رات آرام کے لیے بنائی گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے یہ احباب رات کی ڈیوٹی کا بیشتر حصہ سو کر گزارتے ہیں اور جب تک یہ دفتر میں ہوتے ہیں تب تک اِن کے گھر والے بھی (اِن کے دور رہنے کی بدولت) ڈھائی تین پہر سکون سے سوتے رہتے ہیں۔ یہ کچھ کچھ وہی کیفیت ہے جو ضمیرؔ جعفری مرحوم نے بیان کی ہے ؎
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے
وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے
رات کی ڈیوٹی کے دوران ہم نے بہتوں کا مزاج برہم دیکھا ہے۔ مرزا تنقید بیگ ایک زمانے تک یہ سمجھتے رہے کہ رات کی ڈیوٹی شاید ماں کی بددُعا کا نتیجہ ہے۔ ماں کے حوالے سے ایسا گمان رکھنا درست نہیں۔ مرزا کو ہم نے بارہا سمجھایا ہے کہ آپ کے اعمال ہی ایسے تھے کہ اللہ نے خالہ جان کو بددعا کی زحمت سے بچا لیا ہو گا۔
28 سالہ کیریئر میں تقریباً دو عشروں تک رات کی ڈیوٹی دیتے ہوئے ہم نے اِتنا ضرور محسوس کیا ہے کہ رات بھر جاگنے اور اذانوں کے وقت سونے سے چہروں پر ایسا شدید قسم کا کھچاؤ پیدا ہو جاتا ہے کہ شخصیت میں عجیب سا رعب جھلکنے لگتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے جیسے ہمالیہ کی چوٹیوں پر پندرہ بیس سال تپسیا کرکے ابھی ابھی اِنسانوں میں تشریف لائے ہیں۔ ہمارے بہت سے عامل صحافی دوستوں کے چہرے تین چار عشروں تک رات کی ڈیوٹی دینے کی بدولت اُس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اب اگر وہ ذرا سی توجہ دیں، چند مُستند جملے سیکھ لیں، آٹھ دس معروف وظائف ذہن نشین کر لیں تو لوگ سَروں پر ہاتھ بھی پِھروائیں اور تعویذ بھی لے جایا کریں اور بدخطی اِن کا بھرم رکھ لے گی۔ اگر وظیفے کے نام پر کسی پریس ریلیز کا پیراگراف بھی لکھ ماریں گے تو کوئی پکڑ نہیں پائے گا۔
ایک اِضافی فائدہ یہ ہے کہ رات کی ڈیوٹی والے صحافی جب کام ختم کرکے دفتر سے نکلتے ہیں تو اُن کے چہرے کا ''جلال‘‘ دیکھ کر آوارہ جانور بھی سہم کر مزید دُم دبا لیتے ہیں اور رسمی طور پر ایک آدھ مصرعِ طرح داغنے کی جُرأت بھی اپنے اندر پیدا نہیں کر پاتے۔
عامل صحافی کی اصطلاح عام ہونے کی بدولت اب لوگ بعض سینئر صحافیوں کو ''عامل‘‘ سمجھ کر اُن سے ملک کے ماضی و مستقبل کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں اور قسمت کی خوبی دیکھیے کہ پیش گوئی کے نام پر سینئر صحافی جو باتیں کرتے ہیں وہ بیشتر اوقات درست ثابت ہوتی ہیں۔
کراچی اچھا خاصا شہر تھا۔ تین ساڑھے تین عشروں تک اِس شہر کا معمول یہ تھا کہ رات آٹھ بجے کھا پی کر 9 بجے پی ٹی وی کا خبرنامہ دیکھنے کے بعد بستر لگا دیے جاتے اور 10 بجے تک لوگوں کی آنکھوں پر نیند کا تسلط قائم ہو جایا کرتا تھا۔ مگر پھر یہ ہوا کہ ٹیکنالوجی نے پلٹا کھایا اور چند چیزوں کی آمد نے لوگوں کے معمولات تبدیل کر دیے۔ پہلے وی سی آر نے غضب ڈھایا، پھر ڈش نے ہوش اڑائے اور اب موبائل فون قیامت ڈھانے پر تُلا ہوا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بعض عاقبت نااندیشوں نے ''روشنیوں کے شہر‘‘ کی ایسی گردان لگائی کہ اِس شہر کے باشندے رات بھر اُلّو کی طرح جاگنے کو بھی فخر کی بات سمجھنے لگے۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ اچھی خاصی پُرسکون نیند کا گلا گھونٹ کر رات بھر اُلّو کی طرح جاگتے رہیے اور سڑکوں پر خواہ مخواہ گھوم پھر کر اُنہیں اپنی موجودگی کا احساس دلائیے جو بے چارے دِن بھر کی لاحاصل بھاگ دوڑ کے بعد دُم دبائے سڑک کے کنارے یا کسی کونے کھدرے میں سُستا رہے ہوتے ہیں۔ رات بھر کا بے مصرف جاگنا انسانوں کو تو کیا سُکون دے گا، ہاں یہ عمل بعض بے زبانوں کا سُکون ضرور غارت کرکے دم لیتا ہے۔
کہتے ہیں رات کے پچھلے پہر جب انسان سو جاتے ہیں تو اللہ کی دوسری بہت سی مخلوقات جلوہ افروز ہوتی ہیں۔ کراچی میں کئی علاقے ایسے ہیں‘ جو رات بارہ بجے کے بعد بیدار ہوتے ہیں۔ اِن علاقوں میں رہنے والے زمانے سے اُلٹے چل رہے ہیں۔ یہ لوگ دن کے بارہ یا ایک بجے بیدار ہوتے ہیں، دو بجے دکان کھولتے ہیں اور رات دس بجے واپسی کے بعد ریفریش ہو کر گھر سے نکلتے ہیں اور پوری رات خوش گپّیوں میں گزارتے ہیں۔ آپ چاہیں تو اِنہیں رات کو نکلنے والی مخلوق میں شمار کر لیں۔
کراچی میں کھارادر، رنچھوڑ لائن، حسین آباد، برنس روڈ، صدر، سولجر بازار اور چند دوسرے علاقوں میں لوگ دن کو رات اور رات کو دن کے طور پر برتتے ہیں۔ اِن کی گھڑی اُلٹی ہے۔ یہ رات کے راہی ہیں۔ دِن میں مِلیے تو اِن کے حواس ٹھکانے پر نہیں ملیں گے۔ سورج کی روشنی اِن کے لیے کاہلی کا پیغام لاتی ہے۔ اُدھر سُورج ڈوبا اور اِدھر یہ طلوع ہوئے۔ شام کا دُھندلکا پھیلتے ہی اِن کے دِل و دِماغ کا اُفق رنگ و نُور سے بھر جاتا ہے۔ شام ڈھلے سے صبح ہونے تک اِن کے لیے زندگی ہی زندگی ہے۔ ع
یہ کاروبارِ شب اِنہی سوداگروں سے ہے
رات بھر جگمگانے والے علاقوں میں ہر معاملہ رواج کے برعکس ہے۔ حلوہ پوری صبح کے وقت کھائی جانے والی چیز ہے، کھارادر وغیرہ میں یہ آئٹم رات بھر چلتا ہے۔ اِن علاقوں کے فوڈ اسٹالز پر توے رات بھر کھڑکھڑاہٹ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ خوشبوئیں اُٹھتی رہتی ہیں اور لوگ کھا کھا کر ایسے بوجھل ہو جاتے ہیں کہ اُٹھ نہیں پاتے۔
چوبیس گھنٹے کھلے رہنے والے ہوٹلوں نے بھی منزل کا کردار ادا کرکے قدم قدم پر رات کے راہی پیدا کیے ہیں۔ رات کی پُرسکون نیند سے الرجک اور دُنیا بھر کے لاحاصل موضوعات پر بحث کے شوقین اپنی لایعنی باتوں سے ہوٹل آباد کرتے ہیں اور کراچی کو روشنیوں کا شہر ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ رات رات بھر باتیں کرنے پر بھی اِن کا دِل نہیں بھرتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اگر پوچھیے کہ بھائی رات بھر کیا باتیں کرتے ہو تو کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ کبھی اِن کے درمیان بیٹھ کر گفتگو سُنیے تو آپ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔ دو تین باتوں ہی کو رات بھر دُہراتے رہنا ممکن ہے؟ اگر آپ سمجھتے ہیں ممکن نہیں تو آپ غلطی پر ہیں۔ رات کے راہی جب بولنے کے فن میں طبیعت کی جولانی دِکھانے پر آتے ہیں تو دو تین جُملوں کو سو طریقوں سے رات بھر رگڑتے رہتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ ہر بار بات نئی معلوم ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ ''اہلِ دَہَن‘‘ موضوع کے بھی مُکلّف نہیں ہوتے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب یہ رات کے راہی ہائی پچ پر ہوتے ہیں تو ہر موضوع پتلی گلی سے نکل لیتا ہے۔
جن کی زندگی رات سے وابستہ ہے اُن کے سَروں پر رات کا نشہ ایسا سوار ہے کہ لاکھ منتر پُوچھیے، کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اور سچ پوچھیے تو یہ مُلک بھی مزاجاً رات کا راہی ہے۔ دُنیا اُجالوں کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم اندھیرے کی رفتار ناپنے پر کمربستہ ہیں۔