میں امیر المومنین حکیم اللہ محسود کے حکم پر بوڑھے اور بیمار کرنل امام کو قتل کرنے والا نقاب پوش ہوں ۔ وہی نہیں ، میں نے بے شمار افراد کا خون بہایا ہے اور اس پر مجھے کوئی ندامت نہیں ۔ہاں مگر خود اپنی موت کو پکارنے والا وہ پاگل نوجوان اب جب کہ ملبے تلے دبا، میں اپنی آخری سانسیں لے رہاہوں ،وہ میرے سامنے کھڑا مجھے گھور رہا ہے ۔
دو ماہ قبل بازار میں گشت کے دوران بغیر داڑھی کے اس نوجوان کو میں نے تھپڑ رسید کیا تو جیسے اس پر جنون طاری ہو گیاتھا ۔ اس نے کہا تھا : یہ دیکھو میرے ٹخنے ننگے نہیں ۔ جب تک خدا کی یاد نہ ستائے، میں نماز نہیں پڑھتا۔ میری 5برس کی بہن دوپٹہ اوڑھتی نہیں اور میری ماں ایک استانی ہے ۔ وہ اپنی گاڑی خود چلا کر جامعہ جاتی ہے ۔ ہماری عورتیں برقعے کی بجائے چادر اوڑھ کر بازار جاتی ہیں۔ میرا دل مسرور ہو تو میں گانے سنتا ہوں ۔کبھی بوریت دور کرنے کے لیے انگریزی فلم بھی۔ دیکھتے کیاہو، سر سے پائوں تک میں کافر ہوں۔ میرا وجود اسلام کے لیے باعثِ شرم ہے ۔مار ڈالو، مجھے مار ڈالو۔ پھر جب میں نے گولی چلائی تو وہ باقاعدہ گنگنا رہا تھا۔
سب ترے سوا کافر، آخر اس کا مطلب کیا؟
سر پھرا دے انساں کا ، ایسا خبطِ مذہب کیا؟
ہم رحم نہیں کرتے کہ جدوجہد خون مانگتی ہے ۔ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں اسے تسلیم نہ کرنے والوں کے لیے تلوار ہے ۔ ریاست کے خلاف ہماری جنگ اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہمیں جاہل اورگنوار سمجھا جاتاہے لیکن ہم اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق تمام اہداف حاصل کرتے چلے جارہے ہیں ۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں مذاکرات کی مخالف سیاسی جماعتوں کو ہم نے اپنی دہشت سے دبکا کر ایک کونے میں بٹھا دیا تھا۔ ہم کچھ نہ بھی کرتے تو پچھلے پانچ برس کی ان کی کارکردگی کفریہ جمہوری نظام کے تحت منعقد ہونے والے الیکشن میں انہیں رسوا ہی کرتی ۔
نئے جمہوری سیٹ اپ میں بہت سی جماعتیں اور افراد ہمارے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔تحریکِ انصاف کے کئی رہنما ہم نے قتل کر ڈالے ہیں ۔ زخم آلود ہونے کے باوجود وہ صرف امریکہ کے خلاف نعرہ زن ہے ۔ باوجود اس کے کہ پچھلے چھ ماہ میں ہم نے ریاست کے بے شمار باشندوں کو قتل کر ڈالا، کوئی ہمارے خلاف منہ کھولنے کی
جرأت نہیں رکھتا ۔ یہی نہیں کئی جماعتیں تو ایک دوسرے سے نفرت کرتی اور باہم برسرِ پیکار ہیں ۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں اپنی کرپشن تلے دب کے مر چکی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں نہیں، خطرہ ہے تو امریکہ کی حامی غیر سیاسی قوتوں سے ۔ افغانستان میں عالمی طاقت کا ساتھ دینے پر اخبارات ، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ہمارے حامی دن رات اس کے خلاف زہر اگلتے ہیں ۔ پھر اس لادین ریاست میں فوج کو کارروائی کاحکم سیاسی حکومت ہی جاری کر سکتی ہے اور اس کا حال میں پہلے بیان کر چکا۔ اندازہ یہی تھا کہ اس تما م صورتِ حال میں فوج رسوا ہوکر پسپائی اختیار کرے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ وہ اب تک لڑ ر ہی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ بڑی جری فوج ہے ۔
18دسمبر کو شمالی وزیرستان میں ہمارے خودکش بمبار نے 5فوجیوں کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر ڈالا تو اگلے ہی دن وہ ہم پہ پل پڑی ۔ ہمارے ہمدردوں نے خوب واویلا کیا۔ فوج کے جوابی حملے کو روکنے کے لیے بنوں اور راولپنڈی جی ایچ کیو کے قریب حالیہ حملوں کے ساتھ ہی ہم نے مذاکرات کی پیشکش دہرائی۔ اندازہ یہ تھا کہ اب مجبوری کے عالم میں فوج خاموش رہے گی۔ بالفرض ایسا نہ ہوا تو سیاسی اور مذہبی حلقوں میں ہمارے ہمدرد اسے امن عمل میں روڑے اٹکانے پر آڑے ہاتھوں لیں گے۔اس سارے ردّعمل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ، فوج نے اپنے طیاروں سے وہ بمباری کی ، جس کے نتیجے میں ، میں اپنے مکان کے ملبے تلے دبا موت کا منتظر ہوں۔
گو کہ امیر المومنین ملّا فضل اللہ کے قیادت سنبھالنے کے بعد محسود اور غیر محسود قبائل میں جاری کشمکش میں تیزی آرہی ہے۔ گو کہ فوج کی حالیہ کارروائیوں نے بعض طالبان لیڈروں کو امیر المومنین کا باغی بنا ڈالا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب پاکستان پہ ہماری حکومت ہوگی ۔مجاہدین میرا انتقام ضرورلیں گے۔ وہ وقت دور نہیں ، جب شریعت نافذ ہو گی۔ وہ وقت دور نہیں ،جب بے نمازیوں ، داڑھی نہ رکھنے والوں اور بے پردہ عورتوں پہ کوڑے برسیں گے ۔وہ سب ہمارے غلام اور لونڈیاں ہوں گی اور ان کی جائیداد مالِ غنیمت ۔