ہمارے سٹریٹجک ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان اور خصوصاً پاک افغان سرحدی علاقوں کی 24گھنٹے مانیٹرنگ کرنے والے امریکی سیارے کی سروسز‘ بھارت کو کرائے پر دستیاب ہیں۔ یہ راز کی بات نہیں‘ ان دونوں ملکوں کے مابین سفارتی زبان میں ''باہمی تعاون‘‘ کے جو متعدد معاہدے موجود ہیں‘ یہ ''تعاون‘‘ انہی میں سے ایک ہے۔ فاٹا میں جو مختلف فوجی آپریشنز ہوئے ‘ ان کے بارے میں آئی ایس پی آر نے متعدد میڈیا بریفنگز دے رکھی ہیں۔ مجھے ان میں شرکت کا موقع تو نہیں ملا‘ لیکن خیبرپختونخوا کے سیکرٹری داخلہ نے ایک فوجی ماہر کے ساتھ گورنرہائوس لاہور میں بریفنگ دی تھی۔ گورنرپنجاب سلمان تاثیر شہید اس کے میزبان تھے۔ جب ہمیں باجوڑ ایجنسی کے معرکوں کی تفصیل بتائی گئی‘ تو سیکرٹری داخلہ نے کچھ حیرت انگیز انکشافات کئے‘ جن میں سے چند یہ ہیں۔ جب ہمارے فوجی دستوں نے نام نہاد طالبان کے ایک مقبوضہ علاقے کو فتح کیا‘ تو ہمیں پہاڑوں کے اندر کھدائی کر کے بنائی گئی پناہ گاہوں میںجو سامان اور اسلحہ ملا‘ وہ ہمارے حربی ماہرین کے لئے بھی حیرت انگیز تھا۔ ان کے پاس ایسی موثر اور مکمل نائٹ ویژن گوگلز تھیں‘ جو تب تک پاک فوج کو بھی نہیں ملی تھیں۔ان کے آئی ٹی یونٹس انتہائی جدید ترین تھے۔ ایسے یونٹس پاک فوج نے محاذ جنگ پر استعمال نہیں کئے تھے۔وہاں سے برآمد ہونے والے جن مشروبات کی تفصیل بتائی گئی‘ اسے سن کر تو جی چاہا کہ کسی دن طالبان کے ساتھ ایک ڈنر کر ہی لیا جائے۔(اغوا ہو کے نہیں)۔ ڈبہ بند خوراک کی متعدد اقسام محفوظ حالت میں پڑی تھیں۔ تفریحی ویڈیوز کا بھی خاصا سٹاک دستیاب ہوا۔ جنگی اعتبار سے کی گئی تعمیرات حیران کن تھیں۔
یہ بتایا جا چکا ہے کہ ا ن کی پناہ گاہیں زمین دوز تھیں۔ انہیں کسی بھی طرح کے راکٹ یا میزائل کا نشانہ بنانا انتہائی مشکل تھا۔زمین دوز پناہ گاہوں میں داخل ہونے کے دروازے‘ پیرٹ نوز (توتا ناک) کی شکل میں بنائے گئے تھے۔ اس طرح کے دروازے پر باہر سے فائر کیا گیامیزائل‘ اندر نہیں جا سکتا۔ وہ کنکریٹ سے بنی ہوئی رکاوٹ کو ہٹ کر کے رہ جاتا ہے۔ جادوئی دنیا کی وہ سہولتیں جو دہشت گردوں کو میسر ہیں‘ ان کی جھلکیاں بھی مجھ ایسے اناڑیوں کو حیران کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مثلاً ان کے پاس سیٹلائٹ گائیڈڈ سسٹم کی وہ سہولتیں موجود ہیں‘ جن کے تحت وہ کسی بھی ٹارگٹ کو کافی دور سے مانیٹر کر سکتے ہیں۔ دستیاب معلومات کی روشنی میں‘ میرے لئے بھی قیاس کرنا دشوار نہیں کہ جب بنوں گیریژن پر دھماکے سے اڑائے جانے والے ٹرک میں آخری سپاہی سوار ہو رہا تھا‘ تو دور کسی مقام پر بیٹھے طالبان اس کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ جب انہوں نے بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلیں توڑیں‘ توانہیں ریڈیائی رہنمائی کی سہولت میسر تھی۔ ہمارے شہروں کے اندر کوئی مقام ایسا نہیں‘ جو طالبان کی نظروں سے اوجھل ہو۔ اس سہولت کا مشاہدہ میں خود بھی کر چکا ہوں۔ امریکہ کا پہلا ایٹمی مرکز‘ نیومیکسیکو کے شہر البقرکی میں قائم ہوا تھا۔ ہیروشیما پر گرایا گیا ایٹم بم‘ اسی عمارت میں تیارکیا گیا تھا‘ جس کا ماڈل آج بھی وہاں رکھا ہے۔میلوں پر پھیلی ہوئی اس لیبارٹری کے کچھ حصے دیکھنے کا موقع ملا۔جب ہم لیبارٹری کے مختلف حصے دیکھتے پھر رہے تھے‘ تو کسی نے بتایا کہ یہاں کا پورا علاقہ سیٹلائٹ کی نگاہ میں ہے۔ میں نے مشاہدے کی فرمائش کی‘ تو ہمیں ایک مانیٹرنگ روم میں لے جا کر‘ باہر کے مناظر دکھائے گئے۔ شہر کا ہر کونہ اور جس عمارت کے اندر ہم بیٹھے تھے‘ اس کے گردونواح کی ہر چیز ‘ہم مانیٹرپر دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب میں نے ایک گاڑی کی نمبرپلیٹ دیکھنے کی فرمائش کی‘ تو چند ہی سیکنڈ میں وہ سکرین پر میرے سامنے تھی۔ یہ 18سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اب ٹیکنالوجی کہاں پہنچ چکی ہو گی؟ سوچ کر بھی سر چکرانے لگتا ہے۔
شمالی وزیرستان میں باجوڑ کے مقابلے میں کہیں زیادہ جدید ترین سہولیات میسر ہیں۔ میں نے کسی ٹاک شو میں دوران گفتگو کہہ دیا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے ہمیں سازگار موسم کا انتظار کرنا ہو گا۔ طالبان‘ ہمیں اشتعال دلا کر قبل ازوقت ایکشن کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ یہ کہیں ٹریپ نہ ہو؟ ٹاک شوز کی دنیا میں ایک سے ایک بڑھ کر ایک جنگی ماہر موجود ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ میری گفتگو کے تھوڑی ہی دیر‘ بعد ایک ماہرنے میرا مضحکہ اڑاتے ہوئے فرمایا ''پاکستان کی بہترین پروفیشنل آرمی کو یہ نیم تربیت یافتہ اور کم علم طالبان کیسے ٹریپ میں لا سکتے ہیں؟‘‘ خوشنودیاں حاصل کرنے کے ایسے ہی خواہش مند ہوتے ہیں‘ جو اپنے ممدوحوںکو پھنسواتے ہیں۔ ٹریپ‘ فریب کاری کا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے‘ جس میںدنیا کی اعلیٰ ترین تربیت یافتہ فوج بھی پھنس سکتی ہے۔ 1965ء میں کیا ہوا تھا؟ جب یہاں سے گوریلا جنگ کی تربیت دے کر چند ہزار کمانڈوز وہاں داخل کئے گئے‘ تو 90 فیصد پکڑے گئے۔ وہ ٹریپ سے کیوں نہ بچ سکے؟ مشرقی پاکستان میں کیا ہوا تھا؟ نیم برہنہ اور ننگے پیر مکتی باہنی والوں نے ہمارے‘ اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی دستوں کو گھیروں میں لیا۔ کارگل پر کیا ہوا تھا؟ کیا وہاں ہمارے مجاہد ٹریپ میں نہیں آئے تھے؟ فاٹا میں ہماری ایک پوری بٹالین کو‘ نرغے میں آ کر ہتھیار نہیں ڈالنا پڑے تھے؟ افغانستان میں سوویت یونین اور دنیا بھر کے اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی‘ جگہ جگہ ٹریپ میں نہیں آئے۔ امریکیوں نے ایران میں فضائی آپریشن سے پہلے 6دفعہ ریکی کی تھی۔ ایرانیوں نے ایسا کیموفلاج کیا کہ امریکی ایک مرتبہ بھی یہ نہیں جان سکے کہ ایرانی کمانڈو ز نے وہ پورا علاقہ کنٹرول میں کر رکھا ہے‘ جہاں امریکی ہیلی کاپٹرز کو اترنا تھا۔ جیسے ہی وہ اترے‘ گھیر لئے گئے۔ کیا امریکیوں کی اعلیٰ ترین ٹریننگ انہیں ٹریپ سے بچا سکی؟ آج کے دور میںچھوٹے چھوٹے بچے بھی ویڈیوگیمز میں جنگی منصوبے بنا کر‘ ان پر عمل کرتے ہیں۔ خلاف حقیقت قیاس آرائیاں کر کے ایکسپوز نہیں ہونا چاہیے۔
مجھے اندیشہ ہے کہ پاکستان اس جنگ کے کنارے پر آ چکا ہے‘ جو لبیا‘ شام‘ عراق‘ بحرین اور افغانستان میں لڑی جا رہی ہے۔ پاکستانی طالبان‘ ان ساری جنگوں میں عملی طور پر حصہ لے کر تجربات حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان کے اندر برسرکار دہشت گرد گروہوں میں سے‘ کئی ایک کا تعلق براہ راست القاعدہ سے ہے۔ گستاخی معاف! طالبان میںعملی جنگوں کا وسیع تجربہ رکھنے والے جتنے ماہر اور تجربہ کار جنگجو موجود ہیں‘ ان کی اہلیت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے اور جس طرح'' میڈیا مقابلے‘‘ میں طالبان نے‘ ریاست پاکستان کے سارے محکموں کو چت کیا ہے‘ اس کے بعد بھی کوئی خوش فہمی رکھی جا سکتی ہے؟ مولانا سمیع الحق کے نان ایشو کو کس نے زیادہ مہارت سے استعمال کیا؟ وزیراعظم نوازشریف کے ٹوئٹر اکائونٹ کے جھوٹ یا سچ کے ساتھ‘ کون اچھی طرح کھیلا؟ کیا ہمارے میڈیا ایکسپرٹس کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اس ٹویٹ کے چکر میں طالبان نے کیسے پینترے دکھائے؟
سب سے پہلے وزیراعظم کے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹ کیا گیا کہ ''جو ہمارے لوگوں کو مارتا ہے‘ وہ ہمارا دشمن ہے اور ہمیں اپنی قوم کو اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں سے کنفیوژ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ اس کے فوراً بعد نوازلیگ کے کسی مرکزی اہلکار سے رابطہ کیا گیا‘ تو اس نے ایس ایم ایس کے ذریعے تصدیق کی کہ مذکورہ ٹوئٹر اکائونٹ پیڈ یعنی ملازم سٹاف چلاتا ہے اور یہ اکائونٹ اصلی ہے۔اس کے بعد پھر ایک ٹویٹ آئی ''ہماری افواج پر حملہ پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہے اور ہم اس کا جواب دیں گے۔ ہماری بات چیت کی پالیسی کا دہشت گردوں نے غلط مطلب لیا ہے۔‘‘ بی بی سی نے اس کی ایک لمبی چوڑی تفصیل جاری کی ہے۔ مگر میں صرف وزیراعظم سے منسوب کئے گئے پیغامات کے حوالے سے بات کروں گا۔ کیا یہ دونوں جعلی پیغامات‘ انتہائی خطرناک نفسیاتی جنگ کا حصہ معلوم نہیں ہوتے؟ کیا ان پیغامات کی تردید سے کسی اور بات کی نشاندہی نہیں ہوتی؟ پہلے جعلی پیغامات‘ اس کے بعد وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے ان کی تردید اور ان پیغامات کی نوعیت نے کیا صورتحال پیدا کی؟ یقینی طور سے اس جعلی پیغام پروزیراعظم کے دفتر کو تردید یا تصدیق کرنے کی صورتحال میں دھکیلا گیا۔ میں پھر سے عرض کروں گا کہ پیغام دوبارہ پڑھیے اور پھر یاد کیجئے کہ شمالی وزیرستان میں فضائی کارروائی کے دوران جو کامیابی حاصل ہوئی‘ اس پرملک کے چیف ایگزیکٹو کی طرف سے اپنی فورسز کی تحسین میں ایک لفظ بھی سامنے آیا؟ وزیراعظم نے سی ایم ایچ جا کر زخمی غازیوں کی عیادت کی۔ کیا انہیں زخمی کرنے والوں کی مذمت میں ایک لفظ بھی سامنے آیا؟ سوات آپریشن سے پہلے‘ جنرل کیانی کا اصرار کس بات پر تھا؟ جنہیں یاد نہیں‘ ان کے لئے عرض ہے کہ انہوں نے منتخب حکومت سے کہا تھا کہ ''اونرشپ اسے لینا چاہیے‘‘ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاک فوج نے کتنی بڑی بغاوت کو‘ کیسی بہادری اور مہارت سے ختم کر دیا؟ جنگوں میں کسی نہ کسی کو فتح یا شکست کی ذمہ داری لینا ہوتی ہے۔ یہ وہی کر سکتا ہے‘ جس کے پاس اختیار ہو۔ طالبان نے ''اختیار‘‘ کا لفظ استعمال کر نے کی ترکیب کیوں لڑائی؟ ایک ورق۔ ایک ورق۔ کی گردان سے کچھ نہیں ہوتا۔شمالی وزیرستان میں ایکشن کے بعد‘ ایک ورق کہاں ہے؟