تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     25-01-2014

کیا یہ عذاب نہیں؟

وہ جناّت جنہیں ہم نے عقیدوں، مسلکوں، نسلوں، زبانوں اور علاقوئی تعصب کی چُوریاں کھلا کھلا کر پالا تھا، جنہیں ایک دوسرے سے نفرت کے گیت سنا کر موت کے رقص کے لیے مجبور کیا تھا اور جن کی تنی ہوئی بندوقوں کے سائے میں ہمارے شعلہ بیاں مقرروں کے حق میں نعرے بلند ہوتے تھے، سب کے سب اب اپنی بوتلیں توڑ کر باہر آچکے ہیں۔ ایسے جناّت جب بوتلوں سے باہر آتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے ہی آقا کی گردن پر سوار ہو جاتے ہیں اور پھر اس کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خون سے اپنے اندر پلنے والے نفرت کے الائو کو ٹھنڈا کرنے والے یہ لوگ جب اپنے گھروں سے جنازے اٹھاتے ہیں تو پھر ان کے نزدیک موت اور زندگی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ پوری شخصیت پر ایک ہی جذبے کی حکمرانی ہوتی ہے۔۔۔ نفرت بھرا انتقام! یہ ہے اس وقت میرے ملک کی حالت جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی سیّدالابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ہے: '' لترفعن رأیۃ الفساد فوق کل بیت‘‘ یعنی ہر گھر کی چھت پر فساد کا جھنڈا لہرا رہا ہو گا۔ یہ علامت اس دورِ فتن کی ہے جو قیامت کے قریب کا ہے اور جس میں ہم داخل ہو چکے ہیں۔ اس کا عرصہ کتنا ہے اور کب یہ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گا؟ اس کا علم صرف اور صرف اللہ کی ذات کو ہے۔ ہماری ذمہ داری تو اس دور میں ان تمام فتنوں سے بچنے کی ہے جو ہمارے گھروں، محلوں اور شہروں میں داخل ہو چکے ہیں۔ یاجوج اور ماجوج کے لشکر ہم پر تمام بلندیوں سے حملہ آور ہیں اور ہمیں اس کا ادراک تک نہیں۔ قرآن مجید کی آیات کی تفسیر پڑھنے اور پڑھانے والے، سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث وردِ زبان کرنے والے، اہلِ بیت اور خانوادۂ رسول سے علم کی روشنی لینے والے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی محبت میں زندگیاں وقف کرنے والے، سب کے سب اس احساس سے عاری ہوتے جا رہے ہیں کہ اس امت میں گروہوں میں تقسیم ہو کر گردنیں کاٹنا، کسی مسلک کے مولویوں کی تقریروں، عالموں کی کتابوں کا نتیجہ نہیں بلکہ خالصتاً اللہ کا عذاب ہے جو ہم پر مسلط ہو چکا ہے۔ یہ عذاب جب مسلط ہوتا ہے تو عقل و ہوش جاتے رہتے ہیں اور صلح و آشتی کا تصور خواب ہو جاتا ہے۔ ان تمام علماء نے سورۃ الانعام کی 65 ویں آیت یقیناً پڑھی ہو گی جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کے تین راستے بتاتا ہے: ''کہہ دو وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تم پر عذاب بھیجے‘ تمہارے اوپر سے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑا دے اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھا دے‘‘۔ کیا آج ہم گروہوں میں بٹ کر، ایک دوسرے سے لڑ کر ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ نہیں چکھ رہے۔ وہ صورتِ حال، وہ کیفیت، وہ المیہ جسے اللہ اپنے عذاب کی ایک قسم کے طور پر بیان کرتا ہے اور جس کے بارے میں صریحاً حکم دیا جاتا ہے کہ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو، اس کے بارے میں ہمارے علماء کی منطقیں نرالی ہیں۔ کوئی اسے عقیدے کی جنگ کہہ رہا ہے، کوئی فساد فی الارض کے فتوے لے کر آرہا ہے، کوئی خوارج کی علامتیں ڈھونڈھ رہا ہے اور کسی کو روافض سے مذہب کو پاک کرنے کا شوق ہے۔ میں ان علمائے کرام کی گفتگو سنتا ہوں تو حیرت میں گم ہو جاتا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف جنگ کی مثالیں وہ علماء دیتے ہیں‘ جو اپنے خطبوں میں ان کی خلافت کو حق پر نہیں مانتے اور حضرت امام حسینؓ کے نقشِ قدم پر چل کر جہاد کا اعلان وہ کر رہے ہیں‘ جو کربلا میں ان کی مظلوم شہادت کو جہاد نہیں مانتے۔ یہ ہے ہماری حالتِ عذاب جس کا ہمارے علماء تک کو بھی ادراک نہیں۔ ہر کسی کی شدید خواہش ہے کہ اس کے مخالف کو کافر، ظالم، دہشت گرد، ڈاکو یا لیٹرا ثابت کیا جائے اور ریاست اسے کچل دے۔ کس قدر منافقت ہے۔۔۔ ہمیں ادراک ہے اور ہمارے علماء کو بھی علم ہے، ان کی نپی تلی گفتگو عام آدمی کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مخلص ہیں، لیکن اپنے گروہوں میں ان کا جذباتی، اشتعال انگیز اور حیران کر دینے والا انداز خطابت لوگوں کو مرنے مارنے پر تیار کرتا ہے۔ کہیں لوگوں کو اُخروی نجات کی خوشخبریاں دی جاتی ہیں اور کہیں دنیا میں کامیابی اور غلبے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ یہ سارے گروہ، یہ سارے جوشیلے لٹھ مار اور یہ جذباتی فضا انہوں نے کئی سال کی محنت سے تیار کی ہے۔ اس فضا میں جب انسانوں کی گردنیں کٹنے لگیں، لوگ ایک دوسرے کو مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر قتل کرنے لگے تو خوف کی فضا نے ان علماء کو بھی گھیر لیا۔ گولیوں کی تڑاخ ان کی گردنوں تک بھی جا پہنچی، لیکن اب یہ واپس جانا بھی چاہیں تو مجبور ہیں۔ وہ جنّات‘ جو انہوں نے بوتل میں بند کر کے رکھے ہوئے تھے‘ اب انہیں واپس نہیں جانے دیں گے۔ یہ جن ان کی گردنوں پر سوار ہو چکے ہیں۔ اب ان سب کا ایک ہی رویّہ ہے کہ دوسرے کو فساد فی الارض کا ذمہ دار ٹھہرا کر حکومت، ریاست یا فوج کو کہا جائے کہ ان کا خاتمہ کر دے تاکہ نہ ان کے ہاتھ اپنے مخالفین کے
خون سے رنگین ہوں اور نہ انہیں زور آزمائی کرنا پڑے۔ ان کے شریک وہ تمام لوگ ہیں جن کی ازلی اور ابدی خواہش یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست اور سکیورٹی ادارے الجھے رہیں، ان کا خون رستا رہے، یہ سب لوگ پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ان میں حکومتیں بھی شامل ہیں اور وہ دانشور، ادیب، عالمی تجزیہ نگار اور دنیا کے بڑے بڑے تھنک ٹینک بھی، جن کی ساری توانائیاں اس ایک مقصد پر صرف ہو رہی ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کے گروہ آپس میں لڑتے رہیں، ان کا خون بہتا رہے۔ یہ مسلکی اختلاف میں لڑیں یا ریاست اور اس کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے۔ کہیں یہ اقلیت کی حکومت قائم کر کے لڑوا رہے ہیں اور کہیں یہ دو برابر متحارب گروہوں میں سے ایک کو حکومت دے کر خون خرابہ کرواتے ہیں۔ مصر‘ شام اور عراق ان کی بدترین منصوبہ بندی اس حکمت عملی کے مظہر ہیں۔ کہیں کربلا میں خون بہتا ہے تو کہیں فلوجہ میں لاشوں کے انبار لگائے جاتے ہیں۔ دونوں جانب اسلحہ کی ترسیل کرنے والے ممالک موجود ہیں۔ شام میں امریکہ سے لے کر روس تک مل کر دس فیصد اقلیت والے بشارالاسد کی حکمرانی کو قائم رکھتے ہیں اور مسلمانوں کو ایسے قتل اور بے گھر کیا جاتا ہے کہ علماء کو فتویٰ جاری کرنا پڑتا ہے کہ بھوکے پیاسے حالتِ مجبوری میں کتے اور بلیاں بھی کھا سکتے ہیں۔ مصر میں فوج کو اقتدار پر قابض کروایا جاتا ہے اور اکثریت کی جمہوری حکومت کے حامیوں کو پرندوں کی طرح گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ کیا ان سب واقعات اور حالات کا ذکر علمائے کرام نے احادیث کی کتابوں میں نہیں پڑھا۔ کیا سنّیوں کی صحاح ستہ اور شیعوں کی کتب اربعہ میں ان کا ذکر نہیں ہے؟ انہیں سب معلوم ہے لیکن پھر بھی یہ اس حالت سے باہر نہیں نکلنا چاہتے، یہ اپنی نفرت کی بندوق خود بھی چلاتے ہیں اور دوسرے کے کندھے پر بھی رکھتے ہیں، لیکن میرے اللہ نے تو سورۃ الحجرات کی 8ویں آیت میں وہ راستہ دکھا دیا ہے جو اس صورت حال کو حل کرنے کی حکمتِ عملی کو واضح کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ''اور اگر دو گروہ اہل ایمان میں سے آپس میں لڑ پڑیں تو صلح کرا دو ان دونوں کے درمیان، پھر اگر کوئی زیادتی کرے ان میں سے ایک دوسرے گروہ پر تو جنگ کرو اس سے جس نے زیادتی کی ہے یہاں تک کہ وہ پلٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو صلح کرا دو ان دونوں گروہوں کے درمیان عدل کے مطابق اور انصاف کرو، بلاشبہ اللہ پسند کرتا ہے انصاف کرنے والوں کو‘‘۔ ایسی واضح حکمتِ عملی کے بعد کیا کسی اور پالیسی کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ کسی اے پی سی یا کیبنٹ میٹنگ میں کسی قسم کی پلاننگ چاہیے؟ لیکن اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہم سب قرآن پڑھتے ہیں لیکن اسے زندگی میں اپنا رہنما نہیں مانتے۔ یہی اللہ کا عذاب ہے جو ہم پر مسلط ہے۔ وہ ہمیں ایک دوسرے سے لڑا کر ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھا رہا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved