تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-01-2014

ماسٹر رشید ترابی

''ماسٹر رشید ترابی بقضائے الٰہی انتقال کر گئے ہیں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون‘‘۔ گورنمنٹ مڈل سکول کبیروالہ کے گیٹ پر چسپاں یہ تحریر ماسٹر رشید ترابی کے کسی شاگرد نے اے فور سائز کے سفید کاغذ پر سیاہ روشنائی سے لکھ کر لگائی ہوئی تھی۔ آج اس تحریر کو پڑھے گیارہ برس گزر چکے ہیں مگر سکول کا دروازہ اور اس پر قلم سے خوشخط لکھی ہوئی تحریر اب بھی میری نظروں کے سامنے ہے۔ سکول کا میدان اور اس میں آخر تک بیٹھے ہوئے بچے۔۔۔ ماسٹر رشید ترابی کے شاگرد۔ میری پوری کوشش تھی کہ میرا سامنا خادم رزمی سے نہ ہو۔۔۔ ماسٹر خادم رزمی، رشید ترابی کے والد، ریٹائرڈ سکول ماسٹر اور شاعر۔ کسی باپ کو اس کے بیٹے کی جوانمرگی پر پرسہ دینے کا مجھ میں حوصلہ ہی نہیں تھا۔ میں تو اس کے بڑے بھائی اور اپنے دوست منیر ابن رزمی سے بھی نہیں ملنا چاہتا تھا مگر اس نے مجھے پچھلی صفوں میں دیکھ لیا اور بے اختیار اٹھ کر میرے پاس آ گیا۔ میں اسے پرسہ دینا چاہتا تھا، اسے حوصلہ اور صبر کی تلقین کرنا چاہتا تھا مگر سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔ جب میں اس کے گلے لگا تو پھر اس کو مجھے چپ کرانا پڑا اور حوصلہ دینا پڑا۔ 
یہ 1975ء کا ذکر ہے‘ جب گورنمنٹ انٹر کالج میاں چنوں سے وہاں کی طلبہ یونین کا سابق صدر رشید احمد ترابی جنوبی پنجاب کی سب سے معتبر درسگاہ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ میں داخل ہوا۔ اگلے سال وہ اس نامور درسگاہ کی طلبہ یونین کا صدر منتخب ہو گیا۔ اس کے والد‘ خادم حسین رزمی جو بڑے منجھے ہوئے اور کہنہ مشق شاعر ہیں‘ تب تلمبہ میں سکول ماسٹر تھے۔ رشید ترابی کوئی خوش رو شخص نہ تھا۔ اس کا رنگ پکا ''بلالی‘‘ تھا۔ جب وہ جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی درسگاہ کی طلبہ یونین کا صدر منتخب ہوا۔ وہ بلا کا مقرر تھا اور خلوص و محبت اس کی کل متاع تھی۔ وہ ایک نڈر‘ بے خوف اور بہادر شخص تھا۔ رشید ترابی کو ہوسٹل میں بڑے حساب کتاب سے ملنے والی رقم میں گزارا کرنا ہوتا تھا‘ جو بہرحال اس کی ضروریات سے بہت کم ہوتی تھی۔ ہم دوست تھے‘ لیکن مجھے آج اٹھائیس سال بعد بھی باوجود بہت یاد کرنے کے‘ یہ یاد نہیں آ رہا کہ میں نے اسے ''چاچا‘‘ کہنا کب اور کیوں شروع کیا۔ تنگ آ کر اس نے بھی مجھے ''بھتری آ‘‘ (بھتیجا) کہنا شروع کر دیا۔ میں نے اور رشید ترابی نے پہلی بار جیل کی شکل اکٹھے دیکھی۔ 
وہ پیدائشی طور پر قائدانہ صلاحیتوں سے بھرپور شخص تھا۔ مالی مشکلات اس کے راستے کی دیوار نہ ہوتیں اور ہماری سیاست پیسے کی لونڈی نہ ہوتی تو وہ عوامی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرتا‘ لیکن ہمارے دوست اور بہت خوبصورت شاعر فیضی کے بقول ؎ 
یہ عمر تو کسی عجیب واقعے کی عمر تھی 
یہ دن فقط سپرد روزگار کیسے ہو گئے 
رشید ترابی جو صلاحیتوں کے اعتبار سے کہیں آگے جانے کے لائق تھا‘ معاشی مجبوریوں اور حالات کے جبر کے باعث سکول میں ''ماسٹر‘‘ لگ گیا‘ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے وہ پیدائشی طور پر قائدانہ صلاحیتوں کا مالک تھا‘ وہ ''ماسٹروں‘‘ کا لیڈر بن گیا۔ وہ کئی بار پنجاب ٹیچرز یونین ضلع خانیوال کا صدر اور سیکرٹری رہا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اس سے کہیں آگے جانے کا حقدار تھا‘ لیکن وہ اس سے زیادہ افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ آخری برسوں میں الیکشن وغیرہ کے مرحلے سے کہیں آگے جا چکا تھا۔ وہ ضلع بھر کے اساتذہ کا بلاشرکت غیرے قائد تھا اور اب وہ کنگ سے بڑھ کر ''کنگ میکر‘‘ بن چکا تھا۔ صوبہ بھر میں سکولوں کی پرائیویٹائزیشن کے خلاف چلنے والی تحریک کو ضلع خانیوال میں رشید ترابی نے زندہ رکھا ہوا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایک سال میں وہ اس تحریک کے سلسلے میں بڑا متحرک تھا اور بڑے تسلسل سے اندر باہر آتا جاتا رہا۔ قیدوبند اسے کبھی خوفزدہ نہ کر سکے تھے۔ 
اس رات جب چودھری فیاض اسلم نے مجھے بتایا کہ رشید ترابی فوت ہو گیا ہے تو میں پہلے تو سُن سا ہوا‘ پھر ہنس پڑا۔ مجھے یقین تھا فیاض اسلم اپنی عادت کے عین مطابق مذاق کر رہا ہے‘ مگر جب چودھری فیاض اسلم نے دوبارہ یہی بات کہی تو میں نے جھنجھلا کر اس سے کہا کہ مذاق کی بھی حد ہوتی ہے‘ مگر فیاض اسلم بالکل سنجیدہ تھا۔ اس نے میری بے یقینی دیکھ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا اسے کل بعد دوپہر سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ مجھے اور کچھ نہ سوجھا، میں نے چودھری فیاض اسلم سے ہاتھ ملایا اور گھر روانہ ہو گیا۔ وہ رات میں نے جاگ کر گزار دی۔ 
ملتان سے کبیروالا صرف 45 کلومیٹر دور ہے‘ مگر یہ فاصلہ اس روز کٹنے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ جب میں گورنمنٹ سٹی مڈل سکول کبیروالا میں داخل ہوا تو دیواروں کے ساتھ سکول کے طلبہ کھڑے تھے۔ یہ ''ماسٹر‘‘ رشید ترابی کے شاگرد تھے‘ سب بچے ملول اور اداس تھے۔ مجھے ملال ہوا کہ میں رشید ترابی کا آخری دیدار نہ کر سکا۔ پھر یوں تسلی ہوئی کہ میں اس کا آخری دیدار کس طرح کر پاتا اور مجھ کو اس کی ضرورت بھی کیا ہے؟ میں جب چاہوں یادوں کی کھڑکی کھول کر اسے دیکھ سکتا ہوں۔ پھر دکھ کی ایک لہر سی امڈ آئی کہ میں اس کا جنازہ نہ پڑھ سکا، لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ بھلا میں اس کا جنازہ کس طرح پڑھ پاتا جسے گھر سے سکول تک ''ماسٹر‘‘ رشید ترابی کے مڈل سکول کے بچے اپنے کندھوں پر اٹھا کر لائے۔ 
ماسٹر رشید ترابی ایک مجلسی آدمی تھا اور اساتذہ کی سیاست میں گلے گلے تک دھنسا ہوا تھا۔ میں جب بھی اس سے شادی کے حوالے سے ''چاولوں‘‘ کی فرمائش کرتا تو وہ ہنس کر کہتا: ''بھتری آ! جے میں پرنے دے چاول نہ کھوائے تو مرنے دے چاول ضرور کھوا چھوڑساں‘‘ (بھتیجے! اگر میں نے اپنی شادی کے چاول نہ کھلائے تو مرنے کے ضرور کھلا دوں گا) رشید ترابی کے ہمسائے کی بیٹھک میں جب منیر ابن رزمی نے چاولوں کی پلیٹ میرے سامنے رکھی تو اس پلیٹ سے مسکراتے ہوئے ماسٹر رشید ترابی نے اپنے مخصوص انداز میں کہا: ''بھتری آ! میں تینوں آکھیا ہائی ناں‘ جے پرنے دے چاول نہ کھوائے تے مرنے دے ضرور کھواساں۔ میں اپنا وعدہ پورا کر دتا اے‘‘۔ (بھتیجا! میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ اگر شادی کے چاول نہ کھلائے تو مرنے کے ضرور کھلائوں گا۔ میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے) میں نے پلیٹ میز پر رکھی اور بیٹھک سے باہر آ گیا۔ 
ماسٹر رشید ترابی کی 6 فروری 2003ء کو شادی تھی‘ مگر وہ اپنے سر پر سہرا سجانے سے 12 روز پہلے 25 جنوری کو پھولوں کی چادر اوڑھ کر سو گیا۔ 6 فروری کو ضلع کے اساتذہ نے اس کے لیے قرآن خوانی کی۔ اس روز ضلع خانیوال کے تمام سکول بند رہے۔ اس کی دعائے مغفرت کے لیے اکٹھا ہونے والا ماسٹروں کا ہجوم اس کی بارات سے کئی گنا بڑا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ ماسٹر رشید ترابی کے لیے یہ بہت کم ہے کہ گورنمنٹ سٹی مڈل سکول کبیروالا کے ایک بلاک کو اس کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے اور مجھے یہ بھی علم ہے کہ اس کے لیے ایک کالم بہت ناکافی ہے‘ مگر میں آپ کو یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اسے تو زندگی میں بھی اس کی صلاحیتوں سے بہت کم نصیب ہوا تھا اور اسے تو آج دفن ہوئے بھی گیارہ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ 
ماسٹر چاچا رشید ایک طیب آدمی تھا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ طیب لوگ رخصت ہوتے جا رہے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور ہم سے اس کی ناراضگی ہے کہ دھرتی پر بوجھ لوگ مخلوق خدا کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم اور مرحوم ماسٹر رشید ترابی پر اپنا کرم فرمائے۔ ''ماسٹر‘‘ نے اس کی دنیا میں بڑی تنگی سے وقت گزارا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved