تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     26-01-2014

بدعنوانی‘ عقائد اور انتہا پسندی

پاکستان میں عقائد اور انتہا پسندی کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑکرنا کوئی نئی بات نہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو پرکھتے رہتے ہیں کہ اچھا مسلمان کون ہے؟ کیادہشت گرد مسلمان ہیں؟ یاان کے انتہا پسندانہ اور غیر لچک دار نظریات اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں؟ ان سوالات سے قطعِ نظر، عیاں صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں اپنی پسند کی تشریح کردہ شریعت کے نفاذ کے لیے طالبان خود کش حملوں جیسے انتہائی طریقے استعمال کررہے ہیں۔ وہ ان کو بھی ہلا ک کرنے کی دھمکی دیتے ہیں جو ان کے نظریات سے ہلکا سا بھی اختلاف رکھتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان جو طالبان اور ان کے موقف کے حامی ہیں، انہیں مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن وہ ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔
اس منظر نامے کے دوسری طرف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیرہیں جو ہمیشہ اپنا موقف ببانگِ دہل اور دو ٹوک انداز میں پیش کرتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق عاصمہ جہانگیر نے عمران خان پر طالبان کا حامی ہونے کا الزام لگایا۔ اُنھوںنے کہا: ''عمران خان کو سیاست کا مطلق علم نہیں ، وہ براہ ِ راست یابالواسطہ طور پر دہشت گردوںکی حمایت کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ ریاست سے دشمنی کررہے ہیں‘‘۔ پی ٹی آئی کے سربراہ پر جو یقیناً قومی سطح کے رہنما ہیں، عاصمہ جہانگیر کی طرف سے عائد کردہ الزامات بہت سنگین ہیں ، لیکن اگر ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ الزامات مکمل طور پر بے بنیاد بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان درست کہتے ہیں یا عاصمہ جہانگیر۔۔۔ ''آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘، یہاں بحث کی گنجائش نہیں کیونکہ طالبان نے عمران خان اور ان کے چند ہم خیال افراد کے سوا کسی کو ابہام میں نہیں رہنے دیا۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر بے گناہ شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروںکو ہلاک کررہے ہیں۔ 
پاکستان کے شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب، ڈاکٹر رفعت حسین جو امریکہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں، اس گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ بھی عاصمہ جہانگیر کی طرح صاف صاف بات کرنے کے قائل ہیں۔ وہ پشتون ہیں، اکثر اپنے شہر پشاور جاتے ہیں اور ایک کلینک میں کٹے ہوئے ہونٹوں کی مفت سرجری کرتے ہیں۔ اس دوران ان کا اپنے علاقے کے شعبہ صحت سے وابستہ افراد کے علاوہ مریضوں سے رابطہ رہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ''اسلام اپنے پیروکاروں کوجو بنیادی اصول سکھاتا ہے وہ سچائی اور دیانت داری ہے، لیکن افسوس، آج دنیا بھر میں مسلمانوں کا شمار انتہائی بددیانت افراد میں ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کسی سرچ انجن پر جانے کی ضرورت نہیں، اپنے وطن پاکستان کے حالات پر نظر ڈال لیں تو سب کچھ واضح ہوجائے گا‘‘۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ تر اپنے صوبے کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں مذہبی شدت پسندی تو غالب دکھائی دے گی لیکن انصاف نہیں۔ درحقیقت وہاں انتظامیہ نامی کسی چیز کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ایک شخص قتل کا ارتکاب کرتا ہے، اگر قاتل گمنام شخص ہے تو جب مقتول کے مدعی ایف آئی آر درج کراتے ہیں تو وہ اکثر ان افراد کو بطور ملزم نامزد کردیتے ہیں جن سے مقتول کے خاندان کی دشمنی ہوتی ہے۔ ایسا کسی واقعاتی شہادت کے بغیر کیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں مدعی خاندان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص قاتل نہیں۔ جب کوئی شخص کسی کی جائیداد یا زمین کرائے پر حاصل کرتا ہے تو اس پر قبضہ جماکر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ کیس عدالت میں جاتا ہے تو ملزم وہاں مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کرتے ہوئے کیس کو لٹکا دیتا ہے۔ ہماری ماتحت عدالتیں بھی جلدی فیصلے سنانا پسند نہیں کرتیں؛ چنانچہ وہ کیس برسوں چلتا رہتا ہے۔ اس دوران وہ شخص زمین پر بدستور قبضہ جمائے بیٹھا رہتا ہے جبکہ اس کا جائزمالک دربدر خوار ہورہاہوتا ہے۔ ایک آدمی اپنی بیوی کوطلاق دیتا ہے لیکن وہ اسے نان و نفقہ دینے سے گریز کرتا ہے اور اس کے لیے وہ کسی شرعی قانون کا سہارا لیتا ہے۔ عام طور پر بھائی اپنی بہنوں کو زمین میں حصہ نہ دینے کے لیے مختلف بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔اس طرح کے تمام لوگ اسلامی احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن وہ طالبان کی اس لیے حمایت کرتے ہیںکہ وہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ 
ڈاکٹر رفعت کا کہنا ہے: ''ملک میں جھوٹی گواہی دینا معمول ہے۔ اہم برانڈز کی نقلیں تیار کرکے فروخت کی جاتی ہیں اور اسے مذہبی احکامات کی خلاف ورزی نہیں سمجھا جاتا۔ سیکولر تعلیم کے نام سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے لیکن بات کرتے ہوئے انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہر قسم کی سائنسی پیش رفت اور ٹیکنالوجی ان کے گھر کی باندی ہے۔ ان کا آئیڈیل سعودی عرب کا اسلامی نظام ہے لیکن ٹریفک جیسے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی طرف نہیں دیکھتے‘‘۔
ڈاکٹر رفعت کی باتیں ہمارے مسائل کی درست عکاسی کرتی ہیں۔ ہم کئی عشروں سے ان معاملات سے واقف ہیں لیکن کوئی حکومت ان پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس ملک میں جہاں شریعت کے نفاذ کے لیے لوگ ایک دوسرے کو ماررہے ہیں، جعلی اشیا تیار کرنے پر کسی کو آخری بار سزا کب ملی تھی؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم منافقت سے باز کیوں نہیں آتے؟ تمام اقوام میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں لیکن ہمارے جیسی منافقت خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ سابق حکومت سے کچھ نہ ہوسکا توا س صوبے کا نام تبدیل کردیا ، لیکن کیا یہاں موجود مسائل کی نوعیت بدلنے کی کوئی کوشش بھی کی گئی؟ ایک وقت تھا جب یہ ایک انتہا ئی خوبصورت صوبہ تھا۔ اس کی تاریخ بہت رومانوی تھی، اس کے شہر پشاور کے بازار۔۔۔ جیسے موتی بازار، قصہ خوانی بازاراور خیبر بازار کے نام بھی تخیلات کی دنیا بسا دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر رفعت کا کہنا ہے کہ تین دہائیاں پہلے وہ اکوڑہ خٹک میں رہتے تھے جہاں مولانا سمیع الحق کا مدرسہ ہے۔ اُس وقت وہاں زندگی اتنی توانا اور جذبوںسے بھرپور تھی کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ علاقہ انتہا پسندی کا گڑھ بن جائے گا۔وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب معاملات خرابی کی طرف مائل تھے تو حکومتی ادارے اور سکیورٹی ایجنسیاں کہاں تھیں؟ اُنھوں نے یہاں آنے والی تبدیلیوں سے اغماض برتتے ہوئے معاملات کو خراب ہونے کی اجازت کیوں دی؟ ڈاکٹر رفعت کا کہنا ہے کہ اب تواٹک کا پل پار کرتے ہی خوف کے سائے دل میں گھر کر لیتے ہیں ، ہر چادر پوش خودکش حملہ آور دکھائی دیتا ہے۔ 
کیا پانچ وقت کی عبادت اور جعل سازی ایک ساتھ چل سکتی ہے؟ اگر ریاست ان معاملات سے اغماض برتتی رہی ہے تواس میں حیرت کی کوئی بات نہیںکہ اس کے نتیجے میں دہشت گردوںکو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ اگر کسی برائی کا شروع میں خاتمہ نہ کیا جائے تو بعد میں اس کی بیخ کنی دشوار ہوجاتی ہے۔ ہمارے ساتھ شاید یہی کچھ ہوا ہے۔آج دہشت گردی کرنے والے کبھی نہایت معصوم بچے ہوتے تھے۔ آج کے کسی خود کش بمبار کی انگلی پر لگنے والے زخم سے بھی اس کی والدہ تڑپ اٹھتی تھی،اس کے والد نے خود بھوکے رہ کر اُسے جوس کا پیکٹ اوربسکٹ کاڈبہ لا کر دیا ہوگا ۔ درست کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں، تو پھر تلاش کریں ان لوگوں کو جنہوںنے ان کو ہماری جان کا دشمن بنا دیا۔ یقین کریں ، وہ بھی آپ کے آس پاس ہی ہیں، لیکن ان کا نام لینے کی کوئی جرأت نہیںکرتا۔ ہم کس آتش فشاں میںکود چکے ہیں کہ ہزاروں جانوں کا لہو بھی کھولنے والے اس الائو کو سرد نہیں کرسکا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved