تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-01-2014

سرخیاں‘ متن اور ’’الحمرا‘‘ کا سالنامہ

شعبہ تعلیم پر وسائل مختص کرنے 
کے لیے پُرعزم ہیں...صدر ممنون
صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ '' شعبہ تعلیم پر وسائل مختص کرنے کے لیے پُرعزم ہیں‘‘۔ تاہم پُرعزم ہونے کا لفظ میں نے ڈرتے ڈرتے ہی استعمال کیا ہے کیونکہ حکومت جس مسئلے پر بھی پُرعزم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے‘ اس کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہو جاتی ہے‘علاوہ ازیں‘ دوسری مشکل یہ ہے کہ حکومت جس مقصد کے لیے بھی وسائل مختص کرتی ہے، وہ کسی دوسری مد میں استعمال ہو جاتے ہیں جن میں میٹرو بس‘پکی پکائی روٹی‘لیپ ٹاپس کی تقسیم اور لاہور کے پوش علاقوں کی ترقی وغیرہ شامل ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے وسائل بھی انشاء اللہ کسی ایسے ہی منصوبے پر لگ جائیں گے ورنہ تعلیم کے لیے وسائل اگر واقعی خرچ کیے گئے ہوتے تو اب شرحِ تعلیم اس قدر شرمناک نہ ہوتی جتنی کہ کئی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں ملائشین ہائی کمشنر سے ملاقات کر رہے تھے۔
دہشت گردی کا مسئلہ مذاکرات 
سے حل ہو سکتا ہے...فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے‘‘ کیونکہ اگر کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ سے لے کر وزارتوں کے حصول کے مسئلے تک، خاکسار کے حکومت کے ساتھ مذاکرات سے حل ہوسکتے ہیں تو دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات سے کیوں نہیں ‘بس ذرا دہشت گردوں کی طرف سے مذاکرات پر رضا مندی کی دیر ہے‘ علاوہ ازیں وہ کم از کم میرا ہی خیال کرتے لیکن انہوں نے مجھے بھی مسترد کر دیا کیونکہ وہ، شاید بجا طور پر ، سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے میں اپنے ہی مسائل حل کرانا جانتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ ''جمعیت علمائے اسلام آپریشن کے حق میں نہیں‘‘کیونکہ حکومت خود اگر آپریشن سے یرکی ہوئی ہے تو میرے حق میں نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے‘علاوہ ازیں‘اگر وہ آپریشن کے بعد اپنی بالادستی مزید قائم کر لیتے ہیں تو کم از کم ہمارا نام تو آپریشن کے مخالفین اور مذاکرات کے حامیوں میں شامل ہو گا اور وہ ہمارے بارے میںہاتھ ذرا ہَولاکھیں گے کیونکہ خاکسار کو اِن حضرات کے قدموں کی چاپ صاف سنائی دے رہی ہے۔ آپ اگلے دن اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
دہشت گردوں کے ساتھ نہ نمٹا گیا تو حالات
قابو سے باہر ہو جائیں گے...وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''اگر دہشت گردوں کے ساتھ نہ نمٹا گیا تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے‘‘حالانکہ ہم نے پانچ سال تک حالات کواپنے قابو میںرکھا اور پوری مستقل مزاجی کے ساتھ بے خوف ہو کر اپنے کام میں لگے رہے بلکہ حالات کی بجائے اللہ کا فضل ہی اتنا تھا کہ وہ خود قابو سے باہر ہوتا رہا جس کی ہم نے کبھی پروا نہیں کی کیونکہ ہم قناعت پسند لوگ تھے اور کمی بیشی پر کبھی فکر مند نہ ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے‘‘حالانکہ ہم نے اپنی جمع پونجی کو بھی مکمل طور پر تحفظ دے رکھا تھا‘ملک کے اندر بھی اور باہر بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردوں کے خلاف بھر پور کارروائی کا وقت آ گیا ہے‘‘ جبکہ میں اور عزیزی بلاول بھی ان کے خلاف اسی لیے تابڑ توڑ بیانات دے رہے ہیں کیونکہ ہمارے خیال کے مطابق بھی حکومت نے ان کے خلاف بھر پور کارروائی کا پروگرام بنا لیا ہے۔ آپ اگلے روز ماڈل ٹائون میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
..................
شاہد علی خاں کی ادارت میں چھپنے والے جریدے''الحمرا‘‘کا سالنامہ شائع ہو گیا ہے۔400صفحات کو محیط‘ہر ماہ باقاعدگی سے شائع ہونے والے اس رسالے کی قیمت 500روپے رکھی گئی ہے جس میں اعزاز احمد آذر کے لیے گوشہ مختص کیا گیا ہے۔ فی الحال اس میں سے اقتدار جاوید کی یہ نظم دیکھیے:
سُرنگیا
یہیں پہ تھا سُرنگ والا
اک سرنگ سے نئی سُرنگ کھودتا ہُوا
مجھے بتا رہا تھا
آنا ہی نہیں قریب اپنے آپ کے
نقاب اُتارنا نہیں
خود اپنے آپ کو بھی دیکھنا نہیں
پلک جھپک کے
لوٹنا نہیں مدارِ اوّلین کی سمت
جوڑنی نہیں
پلک سے دوسری پلک
لبوں پہ کوئی بات آئے
اُس کو ڈھالنا نہیں حروف میں
خیال
جو جھٹک دیے گئے تھے
جمع کرنا ہے انہیں
نہیں ہے سونے کے لیے سیاہ رات
جاگنے کے واسطے بنی ہے رات
جسم کو تیاگنے کے واسطے
بنا ہے دن
تمام عمر ایک سانس کھینچنا ہے اپنی سمت
سانس کو نکالنا ہے موت پر!
مجھے ترا وجود یاد آ گیا
خطوط جو خیال سے اُتر گئے تھے
اُن کو جوڑتا ہُوا
کُھلی فضا میں آ گیا
میں سانس توڑتا ہُوا!
آج کا مقطع
زندہ رکھتا تھا‘ ظفر‘ شکل دکھا کر اپنی
کہیں رُوپوش ہُوا اور مجھے مار دیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved