اماں نے آج گڑیا کو صبح ہی صبح جگا دیا تھا۔ جلدی جلدی رات کی سوکھی روٹی اور ٹھنڈی چائے کا پیالہ تھمایا۔ گھونٹ کے ساتھ حلق میں اتار رہی تھی کہ اماں کی آواز آئی: جلدی کر اب شہر جانا ہے تجھے اپنے ابا کے ساتھ۔ پھر شاپر میں اس کے دو تین جوڑے ڈالے اور گڑیا کو اس کے ابا کے ساتھ شہر روانہ کر دیا۔ گڑیا کے لیے بس کا سفر بھی نیا سا تھا۔ وہ سارے سفر میں سہمی رہی۔ ایک دو بار ابا سے پوچھا‘ ابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ابا نے بس اتنا بتایا کہ تجھے شہر میں کوٹھی پر رکھوانا ہے اور بس۔ 10سالہ گڑیا کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس سے پہلے اس نے نہ کوئی کوٹھی دیکھی تھی اور نہ ہی وہ کبھی شہر گئی تھی۔ ہاں اس کے رشتے کی ماسی شہر میں کام کرتی تھی۔ وہ کبھی کبھی گھر آکر ابا اماں سے کہتی کہ گڑیا کو کوٹھی پر رکھوا دیں۔ کچھ پیسے آجایا کریں گے اور اس طرح چھ بچوں میں سے ایک بچے کی روٹی کا خرچ بھی کم ہو جائے گا۔ غربت کے مارے اماں اور ابا ماسی کی اس بات پر قائل ہو چکے‘ اسی لیے تو آج اماں نے اپنی لاڈلی گڑیا کو ابا کے ساتھ شہر بھیج دیا تھا۔
دو گھنٹے کی مسافت کے بعد اب گڑیا ایک بڑی سی کوٹھی کے پورچ میں کھڑی تھی۔ ماسی صغراں بھی وہاں آگئی تھی اور ابا سے مل کر اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی: بیگم صاحب گڑیا کو پسند کریں گی کیونکہ کوٹھی والے گھر میں کام کاج کے لیے چھوٹی بچیوں کو ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد بیگم صاحبہ بھی آ گئیں۔ انہوں نے گڑیا کو پسند کیا اور ابا کے ہاتھ میں نیلے نیلے نوٹ تھما دیے اور کہا کہ تین مہینوں کی ایڈوانس تنخواہ ہے۔ اب تین مہینے بعد ہی ملنے آنا۔ ابا کی آنکھیں ایک ساتھ اتنے نوٹ دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ بیگم صاحبہ آپ فکر نہ کریں۔ ابا کے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا۔ پھر ابا نے گڑیا کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا... پُتر میں اب چلتا ہوں‘ بیگم صاحبہ کو کسی شکایت کا موقع نہ دینا‘ تابعداری کرنی ہے مری دھی۔ اچھا اللہ بیلی۔ ابا چلا گیا۔ بیگم صاحبہ نے ماسی صغراں کے ہاتھ میں بھی پیسے تھما دیے اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ ماسی بھی چلتی بنی۔ اب 10سالہ گڑیا اجنبی لوگوں میں تنہا تھی۔ ننھا سا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اماں اور چھوٹے بہن بھائی یاد آئے۔ گڑیا کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ بیگم صاحبہ کی نظر پڑی تو غصے سے بولیں۔ اب رونا دھونا نہیں ہے۔ چلو آئو میرے ساتھ کام شروع کرو۔ تمہارا ابا پورے دس ہزار لے کر گیا ہے۔ تین مہینوں کے۔
شہر میں آئے ہوئے گڑیا کو ڈیڑھ ماہ ہو چکا تھا۔ مگر اسے لگتا جانے کتنی صدیاں گزر گئی ہیں۔ اس نے اماں ابا کا چہرہ نہیں دیکھا۔ اس بڑی سی کوٹھی میں ننھی گڑیا صبح سے رات گئے تک کام کرتی۔ کچن میں برتن دھوتے اس سے کچھ ٹوٹ جاتا تو بیگم صاحبہ اسے زور دار طمانچہ رسید کرتیں۔ سارے گھر کی صفائی جھاڑ پونچھ سب کچھ گڑیا کے ذمے تھا۔ اس دوران ذرا سی کوتاہی ہوتی تو گڑیا کی شامت آجاتی۔ بیگم صاحبہ کے تین بچے تقریباً اسی کے ہم عمر تھے۔ گڑیا ان کے جوتے پالش کرتی‘ کپڑے دھوتی‘ استری کرتی‘ ان کے بھاری بستے اپنے نازک کندھوں پر اٹھا کر سکول وین تک لے جاتی۔ وہ کھیلتے، ہلا گلا کرتے تو ننھی گڑیا دور سے انہیں دیکھتی رہتی۔ اسے اجازت نہیں تھی کہ بچوں کے کھلونوں کو ہاتھ بھی لگائے۔ ایک دن اس نے چابی سے چلنے والی گاڑی کو اٹھا کر دیکھا تو بیگم صاحبہ کے بیٹے نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔
یہی اس کی قسمت تھی۔ جس کا جی چاہتا اس پر اپنا غصہ اتار دیتا۔ سارا دن کام کرتی تو بیگم صاحبہ اسے کھانے کو آدھی روٹی اور بچا کھچا سالن دیتیں۔ بچے اس کے سامنے انواع و اقسام کے کھانے کھاتے تھے۔ اسے پھل ،دودھ اور تازہ کھانے کو ہاتھ لگانے کی قطعاً اجازت نہ تھی۔ ایک روز اس کا جی چاہا کہ وہ بھی فریج سے سیب نکال کر کھائے۔ سب اس کے سامنے مزے سے کھاتے رہتے تھے مگر اسے کوئی بھی نہ پوچھتا۔ بخار سے اس کا حلق بھی کڑوا ہو رہا تھا۔ شاید اسی لیے گڑیا نے اس روز خود فریج کھولنے کی جرأت کی اور ایک لال لال سیب فریج سے نکال لیا۔ بد قسمتی سے اس وقت گھر کی ظالم مالکن نے گڑیا کو دیکھ لیا اور اسے تھپڑوں اور گھونسوں سے مارنا شروع کر دیا۔ چوری کرتی ہو؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟ میں ابھی تمہیں تھانے بھیجتی ہوں... باجی معاف کر دیں‘ میرا سیب کھانے کو دل تھا... یہ واپس... میں... میں نے تو ابھی کھایا بھی نہیں۔گڑیا روتی جاتی اور کہتی جاتی‘ لیکن مالکن اس پر تشدد کرتی رہی اور پھر اسے بالوں سے پکڑ کر سیڑھیوں سے نیچے دھکا دے دیا۔ کئی روز سے بخار میں تپتی، تھکن زدہ کمزور سی گڑیا سیڑھیوں سے ٹکراتی نیچے جا گری۔ سر پھٹ چکا تھا۔ لہو بہتا رہا۔ کسی نے اس کی خبر نہ لی اور وہ بے ہوش ہو گئی۔
اس کے بعد گڑیا کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ کوٹھی کی چار دیواری سے نکل کر اخبارات کی خبروں میں اکثر آتا رہتا ہے۔ گائوں سے شہر کی خوشحال بستیوں میں آنے والی گڑیا کی دکھ بھری کہانی وہی رہتی ہے بس اس کا نام کبھی عذرا، کبھی ارم، کبھی فضہ بتول اور کبھی منزہ ہوتا ہے۔ اس گڑیا پر ظلم کرنے والے لوگ بظاہر شہر کے معززین ہیں۔ کبھی کوئی ڈاکٹر، کوئی پروفیسر سلمان، کوئی ڈیفنس کا سکندر اور اس کی بیوی مریم، یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر انسان ہیں مگر ان کی درندگی اور خباثت کا، معصوم بچوں کے ساتھ ان کے بہیمانہ سلوک سے پتہ چلتا ہے۔ اپنے زیر سایہ کام کرنے والے معصوم بچوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، اور اپنی اندر کی خباثت کا اظہار کرتے ہیں مگر ان کے ساتھ ساتھ ان والدین کو بھی پوچھنا چاہیے جو اپنی معصوم بچیوں کو اجنبی لوگوں کے درمیان چھوڑ کر چند ہزار ایڈوانس لے کر پھر ان کی خبر گیری تک نہیں کرتے۔ وہ تمام بد قسمت بچیاں جو گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ان کے والدین بھی ان کے مجرم ہیں۔
رہی بات گڑیا اور اس جیسی دیگر کم قسمت بچیوں کی جنہیں بابل، خود اپنے ہاتھوں سے بچپنے ہی میں دیس نکالا دے دیتا ہے۔ آئینے کی طرح نازک بچیاں پتھریلے شہر میں اپنے ماں باپ کا معاشی بوجھ کم کرنے کو اپنے گھروں سے رخصت کر دی جاتی ہیں۔ پھر ساری عمر جھڑکیاں کھانے اور برتن مانجھنے میں گزر جاتی ہے۔ جسمانی، ذہنی، روحانی، ہر طرح کا استحصال‘ ہر قسم کا تشدد ان کا مقدر بنتا ہے۔ کبھی فضہ بتول کی طرح جاں سے بھی گزر جاتی ہیں۔ بیٹی آئینے کی طرح نازک ہوتی ہے۔ ماں باپ تمام عمر اس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن بابل اگر غریبِ شہر ہو‘ تہی کیسہ ہو تو یہ آبگینے، پتھروں کے شہر میں چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ گائوں سے شہر آنے والی گڑیا کے جسمانی زخم بھر بھی جائیں تو روح کے زخم ہمیشہ سلگتے رہتے ہیں۔