تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     27-01-2014

سود ایک کا‘ لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

جاپان کا تذکرہ کرتے ہوئے جب میں نے ٹویوٹا کمپنی کے بلاسودی کاروبار کی تعریف میں چند سطریں تحریر کیں تو وہ لوگ جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آکٹوپس کی طرح معیشت کو جکڑے ہوئے سودی بینکاری سے مرعوب ہیں ، انہیں اوّل تو یقین نہ آیا ، پھر انہوں نے ٹویوٹا کمپنی کی بیلنس شیٹس انٹرنیٹ سے نکال نکال کر مجھے بھیجنا شروع کیں اور کہا دیکھو ، اس میں لفظ انٹرسٹ (Interest) کے سامنے آمدنی لکھی ہوئی ہے اور یہ سود ہے۔ ٹویوٹا کمپنی کے کاروبار سے ناآشنا اور صرف بیلنس شیٹ کی بنیاد پر دعویٰ کرنے والے ان افراد کا کیا کیا جائے جنہیں یقین نہیں آتا کہ بینک سے قرضہ لیے بغیردنیا میں کوئی کاروبارہو ہی نہیں سکتا۔
سب سے پہلے مجھے جاپان میں ایک انتہائی محترم پاکستانی شخصیت حسین خان صاحب کے لیے تشکر کا اظہار کرنا ہے جنہوں نے کمال محنت اور جانفشانی سے اس کمپنی کے کاروبار کا وسیع مطالعہ کیا اور اردو نیٹ جاپان پر مضامین تحریر کیے۔چالیس برس سے جاپان میں مقیم حسین خان صاحب کوجاپانی زبان پر اس قدر عبور حاصل ہے کہ آج کل وہ اپنی توانائیاں قرآنِ پاک کے جاپانی زبان میں ترجمے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جاپانی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے اور خوبصورت گفتگو کرتے ہیں۔انہوں نے پہلی بارٹویوٹا کے غیر سودی کاروبار کا ذکر کیا تو مجھے اس لیے حیرت نہ ہوئی کہ گزشتہ چند برسوں سے میں جاپان کی حیرت انگیز معاشی ترقی کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات سے واقف ہوں۔ میرے لیے یہ حقیقت حیران کن تھی کہ جاپان نے 1999ء میں اس راز کو پا لیا تھا کہ سود معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، لہٰذا انہوں نے دنیا کے سامنے (ZIRP)یعنی Zero interest rate policyکا تصور پیش کیا اور اس پر عملدرآمد کر کے دکھایا۔ یہی تصور دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک نے 2008ء کی اس کساد بازاری میں اپنایا جب دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں سودی بینکاری نظام کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر جا پہنچی تھیں۔اس وقت بڑے بڑے مگرمچھ قسم کے بینکوں نے بھی سود کی شرح صرف ایک فیصد تک محدود کردی تھی جو دراصل سود نہیں بلکہ سروس چارجز تھے جس سے بینک کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ آج بھی امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ میں یہی شرح قائم ہے،لیکن سودی نظام کی وکالت میں بائولے ہوچکنے والے لوگ یہ بیلنس شیٹس نکال کر یہی کہیں گے کہ یہ دیکھو، سود مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوا۔ اس بات پر کوئی غور نہیں کرتا کہ یہ سب بینک اور کاروباری ادارے مسلمان ہیں نہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق۔ ان کے نزدیک حرام اور حلال کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ انٹرسٹ ریٹ کو 0.5 فیصد پر بھی لے آئیں تو اسے انٹرسٹ ہی لکھتے ہیں‘ حالانکہ یہ ان کے سروس چارجز ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ ورلڈ بینک‘ ایشین بینک اور آئی ایم ایف کا ہے جو اپنے قرضوں پر ایک یا دو فیصد انٹرسٹ لیتے ہیں جو دراصل ان کے سروس چارجز ہوتے ہیں اور وہ اسے تحریر میں انٹرسٹ ریٹ ہی لکھتے ہیں۔ 
یہی کیفیت ٹویوٹا کمپنی کی ہے۔ بینک کے سود سے اس کی نجات کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا کاروبار بھی بینکوں سے قرضہ لیے بغیر کیا جا سکتا ہے۔ ٹویوٹا کمپنی کو اس کے بانی ''اچی روتویودا‘‘ نے 1937ء میں قائم کیا اور 1950ء تک اسے اپنی محنت سے ایک بہت بڑی کمپنی بنا دیا ، لیکن دوسری جنگِ عظیم کے اثرات نے اسے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا۔ اچی رو نے بینک آف جاپان سے رابطہ کیا تاکہ قرضہ لے کر اس کمپنی کی مالی حالت کو بہتر کیا جائے ، لیکن بینک نے یہ شرط عائد کی کہ انہیں اپنے 1600 مزدوروں کو فارغ کرنا ہوگا کیونکہ بینک کو خطرہ تھا کہ اتنے مزدوروں کے ہوتے ہوئے کمپنی اتنا منافع نہیں کما سکے گی کہ سود سمیت قرضے کی قسط ادا کرے۔ مجبوری کے عالم میں اچی رو نے قرض لے لیا لیکن مزدوروں کو فارغ کرنے کی شرط سے اسے اس قدر اذیت ہوئی کہ اس نے کمپنی سے استعفیٰ دے دیا اور یہ وصیت کی کہ آئندہ کمپنی کبھی بینک سے قرضہ نہیں لے گی۔ جاپانی مزدوروں کو اپنے خاندان کی طرح سمجھتے ہیں‘ ان کو نکالنے کے صدمے نے اچی رو کی یہ حالت کردی کہ وہ دو سال کے اندر انتقال کر گیا۔ اس کے بعد کمپنی نے ایک سادہ کاغذ پر کمپنی کے قواعد و ضوابط چھاپ کرقرار دیا کہ اگر کوئی شخص کمپنی میں بلاسود سرمایہ کاری کرنا چاہے تو وہ جتنے حصص خریدے گا،اسی تناسب سے اس کو کمپنی میں ملکیت حاصل ہو جائے گی۔ اس بلاسودی سرمایہ کاری کا کمال دیکھیں کہ ایک خاندان جوسو فیصد اس کمپنی کامالک تھا،اب صرف 2 فیصد کا مالک ہے جبکہ 98 فیصد وہ لوگ مالک ہیں جو اس میں سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ قرضہ نہیں تھا‘ سرمایہ کاری تھی اس لیے کمپنی کے پاس اس قدر اضافی سرمایہ آ گیا کہ اس نے ہر سال نئے اسمبلنگ پلانٹ لگانے شروع کردیے۔ نہ قرضے کی ادائیگی اور نہ ہی سود در سود کی لعنت۔ اس وقت اس کمپنی کی کل مالیت 120 ارب ڈالر ہے جس میں 2 فیصد کے حساب سے پورے خاندان کا حصہ 2.2 ارب ڈالر بنتا ہے۔
طریق کار بھی انتہائی سادہ ہے۔ پہلے بانڈ جاری کر کے سرمایہ حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اسے حصص کی صورت میں ملکیتی حیثیت دی جاتی ہے؛ البتہ ٹویوٹا کمپنی کے پاس جو اضافی سرمایہ ہوتا ہے وہ اسے بینکوں میں جمع کرواتی ہے جس سے اسے سود حاصل ہوتا ہے۔ اس کا کمپنی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ ان کی کمپنی کی ضروریات کی پلاننگ میں شامل ہوتا ہے، یہی ٹویوٹا کی بیلنس شیٹ میں سود کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس کے لیے ٹویوٹا کی خالصتاً گاڑی سازی کی کمپنی تندوکو (Tandoku) کی بیلنس شیٹ دیکھی جائے تو اس میں سود یا انٹرسٹ نام کی چیز نظر نہیں آئے گی ، لیکن گزشتہ دس برسوں کی بیلنس شیٹس جو ٹویوٹا کی ویب سائٹس پر ہیں ان میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ کمپنی نے کسی بینک سے سود پر قرضہ لے کر اپنے کاروبار میں لگایا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان دس برسوں میں یہ کمپنی 60 ارب ڈالر سے 120 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ کمپنی کے مالکان نہ اسلام کے زریں اصولوں سے آشنا ہیں اور نہ ہی وہ مسلمان ہیں کہ ان سے توقع رکھی جائے کہ وہ اتنی احتیاط کریں گے کہ اپنی اضافی رقم بینک میں رکھ کر سود نہ لیں۔ لیکن ایک اصول جس کی بنیاد پر دنیا بھر میں بینکوں کا جواز فراہم کیا جاتا ہے اور زورو شور سے کیا جاتا ہے کہ اگر بینک نہ ہوں گے تو سرمایہ کاری کیسے ہوگی ، اس اصول کو اس کمپنی نے غلط ثابت کر کے دکھا دیا ہے۔۔۔اور یہ ہے وہ اصل پتے کی بات۔
دنیا کی بڑی سے بڑی کمپنیاں سود در سود کے ہاتھوں دیوالیہ ہوئیں لیکن ٹویوٹا کے پاس اضافی سرمایے کا یہ عالم ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کے طور پر مسلم ہو چکی ہے۔ بینکوں کا سودی نظام لاکھوں لوگوں کی تھوڑی تھوڑی رقم کو اکٹھا کر کے اپنے ہاتھ میں لیتا ہے ، پھر جس جگہ چاہے ان کی مرضی اور منشا کے خلاف سود پر سرمایہ کاری کرتا ہے ، ڈھیروں سود کماتا ہے اور لاکھوں لوگوں کو بھی اس نامعلوم ذرائع والی سودی آمدن کا حصہ دار بناتا ہے ، لیکن بینک ڈوبتا ہے تو کروڑوں لوگ بھی اس کے ساتھ ہی ڈوب جاتے ہیں۔ آج کسی سودی نظام کے حامی سے گفتگو کرو تو وہ یہی کہے گا کسی دکان‘ فیکٹری یا کاروبار میں رقم مت لگانا، ڈوب جائے گی لیکن دنیا کے ہر ملک میں کئی بینک ڈوبے اور اپنے ساتھ لاکھوں لوگوں کی قسمتوں اور جمع پونجیوں کو بھی غرق کر گئے ،لیکن ان کا ذکر کوئی نہیں کرتا اس لیے کہ اگر اس نقصان کا ذکر کریں گے تو سودی نظام کی عمارت گر جائے گی۔ اقبال نے کہا تھا ؎ 
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواء ہے 
سود ایک کا‘ لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved