تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-01-2014

ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں

فیصلہ بہرحال کرنا ہوگا‘ اس لیے کہ معاملات کو بہت دیر مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ فیصلہ نہ کریں گے تو کوئی اور کرے گا کہ زندگی کا پہیہ رُک نہیں سکتا۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ 
تاریخ کی بارگاہ میں‘ وزیراعظم ششدر اور گنگ کھڑے ہیں۔ سوجھتا نہیں کہ کیا کریں۔ سامنے سمندر دکھائی دیتا ہے اور پیچھے کھائی۔ کریں تو کیا کریں؟ آخرکار فیصلہ تو انہی کو کرنا ہے مگر شش و پنج کا شکار ہیں۔ گومگو اور تذبذب کا۔ 
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں 
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے 
زندگی کیا ہے؟ فیصلہ کرنے کی اہلیت اور پہل قدمی۔ قدم قدم پر حیات سوال اٹھاتی ہے اور ہمیں اس کا جواب دینا ہوتا ہے۔ مشرق یا مغرب‘ شمال یا جنوب۔ کوئی ایک سمت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے‘ آپ چوک میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ 
طالبان کے حوالے سے جاری بحث‘ بہت ہی دلچسپ ہے۔ متصادم آرا کے درمیان بہت سے لوگ اوہام ووساوس میں مبتلا ہیں۔ کیسے کیسے عجیب دلائل ہیں کہ ٹیلی ویژن کی بدولت‘ ہوا کے دوش پہ اڑتے اور ژولیدہ فکری کو جنم دیتے ہیں۔ 
کہا جاتا ہے اور کہنے والے معمولی لوگ نہیں‘ دانشور ہیں‘ کہ اگر وزیرستان میں کارروائی ہوئی تو سارا ملک بم دھماکوں سے گونج اٹھے گا۔ گویا مجرموں کو گوارا کرنا چاہیے‘ جب اقدام سے ردعمل کا اندیشہ ہو‘ خواہ جرم پھلتا اور گناہ پھولتا رہے‘ استدلال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی نہیں‘ یہ امریکہ کی ضرورت ہے‘ 2014ء میں اپنا سامانِ جنگ جسے ساحلِ سمندر تک لے جانا ہے۔ 
سبحان اللہ‘ پانچ برس سے امریکہ کو شمالی وزیرستان میں کارروائی پہ اصرار ہے۔ عسکری قیادت انکار کرتی رہی۔ کبھی سوات میں وہ مصروف تھی اور کبھی جنوبی وزیرستان میں۔ مستقل طور پر مسئلہ یہ تھا کہ مشرقی سرحدوں کو خالی کیسے کر دیا جائے۔ پینٹاگان ہی نہیں‘ پاکستان میں ڈالر کی دانشور اولاد بھی چیخ پکار کرتی رہی کہ راولپنڈی کے اعصاب پہ بھارت سوار ہے۔ پاک فوج کی پالیسی بھارت پہ مرتکز (India Centric)ہے۔ اس پہ جنرل کیانی نے مائیکل ملن سے یہ کہا تھا: بلکہ بھارت کی پالیسی‘ پاکستان پہ مرتکز ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے‘ فقط یہ جان لینا کافی ہے کہ بھارتی افواج کی تعیناتی کس انداز میں ہے۔ پہلی نظر ہی میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو مستقلاً دبائو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ 
لگ بھگ تین برس ہوتے ہیں‘ سینیٹر کیری اچانک پاکستان پہنچے۔ اتفاق سے میں وزیراعظم گیلانی کے دفتر میں تھا‘ جب ان کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی‘ عرض کیا: آپ ان سے بات کر لیجیے‘ میں تھوڑی دیر کو باہر چلا جاتا ہوں‘ وہ بولے‘ کوئی مسئلہ نہیں‘ آپ بیٹھے رہیں۔ جس شام جنرل کیانی سے ان کی ملاقات تھی‘ ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں مجھے شریک ہونا تھا۔ اِدھر یہ ملاقات تمام ہوئی‘ اُدھر پروگرام میں بحث کا آغاز ہوا۔ 
جنرل کیانی آج تک حیران ہیں کہ بند کمرے میں ان دونوں کے درمیان بات چیت کی ٹھیک ٹھیک تفصیل مجھے کیونکر معلوم ہوئی۔ بار بار میرے فون پر پیغامات موصول ہو رہے تھے۔ ٹی وی میزبان بھی متعجب کہ اس روانی سے میں روداد کیسے بیان کر رہا ہوں۔ انہیں گمان ہوا کہ کوئی مجھے اطلاع دے رہا ہے۔ بالکل برعکس آئی ایس پی آر کے بریگیڈیئر عظمت بار بار جتلا رہے تھے کہ مجھے ایسا نہ کرنا چاہیے۔ میں نے اپنا فون 
میزبان کی طرف بڑھایا اور کہا: دیکھ لیجیے۔ 
سہ پہر ایک متعلق فوجی افسر سے اخبار نویس نے عرض کیا: خبر تو آپ دیں گے نہیں‘ براہ کرم ایجنڈہ تو بتا دیجیے۔ ''سامنے کی بات ہے‘‘ اس نے کہا: ''امریکی وزیرستان پر بات کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس قدر اطلاع کافی تھی۔ پاک فوج کی قیادت کا نقطہ نظر معلوم تھا۔ ایک آدھ نہیں کئی بار بریفنگ میں شرکت کی تھی۔ بارہا ذمہ دار فوجی افسروں سے جزئیات پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ جنرل کیانی کی رائے معلوم تھی بلکہ بار بار دہرائے گئے‘ ان کے جملے تک ازبر تھے۔ حالات آشکار تھے۔ جھجک کیسی‘ کھل کر میں نے بات کی۔ بتایا کہ پاک فوج کو کارروائی سے انکار ہے۔ اگلے دن جی ایچ کیو میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ فوجی افسر ناراض ہیں اور مجھے محتاط رہنا چاہیے۔ میرا جواب یہ تھا: زیادہ سے زیادہ وہ یہ کر سکتے ہیں کہ میرا فون سنیں اور میری نگرانی کریں۔ الحمدللہ ایسا کوئی کام میں کرتا ہی نہیں‘ قومی نقطۂ نظر سے جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ یہ ضرور ہے کہ میری ذاتی زندگی ان پر واضح ہو جائے گی مگر کیا کیجیے‘ صحافت کی اوکھلی میں سر دیا ہے تو سہنا ہی ہوگا۔ 
تین ماہ بعد ممتاز فوجی افسروں کے ایک گروپ سے ملاقات ہوئی تو انہیں خوش دل پایا۔ اندازہ ہوا کہ کالے بادل چھٹ چکے اور حسن ظن کا ماہتاب طلوع ہوا۔ 
اس سے بہت پہلے‘ سوات کے بعد جنوبی وزیرستان میں جب کارروائی ہونے والی تھی‘ دو ممتاز مبصرین کے ساتھ ایک ٹاک شو میں شرکت کی۔ میرا خیال یہ تھا کہ اگر یہ کامیاب رہی تو بڑے شہروں کے اندر ہونے والے دھماکوں میں 80 فیصد کمی ہو جائے گی۔ ان دونوں نے میرا مذاق اڑایا۔ کتنی آسانی سے لوگ بھول جاتے ہیں کہ چار سال ادھر ہر ہفتے چار پانچ بڑے دھماکے ہوا کرتے۔ جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا کرنے کے بعد‘ صرف دس پندرہ فیصد رہ گئے۔ یہی لوگ جو تب واویلا کیا کرتے‘ آج بھی چیخ رہے ہیں۔ فرق یہ پڑا ہے کہ ان دونوں مفکروں کی بات اب کم سنی جاتی ہے‘ تقریباً راندہِ درگاہ ہیں۔ ایک برسوں کوچہ گرد رہا‘ دوسرا اب خوشامد پہ بسر کرتا ہے۔ 
آخری تجزیے میں دہشت گردی کا مسئلہ بہت سادہ ہے۔ یہ قانون شکنی اور بغاوت کا ارتکاب ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پوری قوت سے اس کو کچل ڈالے۔ افغانستان میں امریکی جارحیت اپنی جگہ اور اس پہ سب اعتراضات بھی درست مگر اس کا مقابلہ ریاست کو کرنا ہے‘ افراد اور مسلح گروہوں کو ہرگز نہیں۔ جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے‘ وہ آزادی کی جنگ لڑتے ہیں اور انہیں اس کا حق ہے۔ پاکستانی طالبان کا مقصود کیا ہے؟ اگر وہ نفاذِ شریعت کے آرزو مند ہیں تو وہ عوامی تحریک چلانے کے لیے آزاد ہیں۔ جلسے جلوس وہ کر سکتے ہیں‘ اخبارات میں مضمون لکھ سکتے ہیں‘ ٹیلی ویژن پہ اپنا موقف پیش کر سکتے ہیں۔ افغانستان جانے اور جنگ میں شریک ہونے کا البتہ انہیں کوئی حق نہیں۔ سرحدیں مقدس ہوتی ہیں۔ یہ دو ملکوں کا پیمان ہوتا ہے اور اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: وعدے پورے کیا کرو کہ یومِ جزا وعدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ 
ریاست کمزور ہے‘ قانون نافذ کرنے سے وہ گریزاں رہی۔ پولیس کرپٹ اور نااہل کہ حکمران طبقہ اسے اپنے لیے استعمال کرتا رہا۔ انٹیلی جنس ناقص اور کمزور‘ نچلی عدالتیں لاچار کہ پولیس تفتیش ہی نہیں کرتی اور ان عدالتوں پہ بوجھ بھی بہت لدا رہتا ہے۔ بحران کا سبق یہ ہے کہ قومی اداروں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ پولیس میں بھرتی میرٹ پر ہو۔ اسے جدید تر بنایا جائے اور اس کی استعداد بڑھائی جائے‘ حتیٰ کہ قانون کا خوف قائم کرنے میں وہ کامیاب ہو جائے۔ ایران اور چین کی طرح جنہیں امریکہ سے خطرہ تھا‘ انٹیلی جنس کو مستحکم کیا جائے۔ ملک بھر میں سفر کرنے والوں کی نگرانی کی جائے۔ سب سے اہم یہ کہ اسلحے کی نقل و حمل کو روک دیا جائے۔ یہ پولیس اور انٹیلی جنس کے بل پر ہی ممکن ہے۔ اس کے برعکس ہم فوج کی طرف دیکھتے رہے۔ باتیں بناتے رہے۔ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہے۔ 
ایک ہنگامی اقدامات ہیں اور ایک دیرپا منصوبہ بندی۔ طالبان اگر نہیں سنتے تو شمالی وزیرستان میں کارروائی‘ ثانیاً اپنے اداروں کی تشکیل نو کرنا ہوگی۔ 
قدرت جب امتحان میں ڈالتی ہے تو ثمربار بھی کرتی ہے۔ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ ملک موجودہ بحران سے نمٹنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ کس قدر طاقتور بن کے ابھرے گا۔ ایک شاندار جدید پولیس اور ژرف نگاہی کے حامل انٹیلی جنس ادارے۔ وہ کہ جو داخلی اور خارجی دشمنوں کا سدباب کرسکیں۔ 
بہرحال فیصلہ کرنا ہوگا‘ اس لیے کہ معاملات کو بہت دیر مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ فیصلہ نہ کریں گے تو کوئی اور کرے گا کہ زندگی کا پہیہ رُک نہیں سکتا۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved