ذرا تصور کریں کہ اگر مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں پر عیسائی انتہا پسند گروہ خونی حملے کررہے ہوں، سینکڑوں نہتے افراد کو ہلاک کردیا جائے، ہزاروں اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوجائیں، مساجد کو نذرِ آتش کیا جارہاہو ، مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہو اور وہاں کی حکومتیں یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان گھنائونے واقعات سے اغماض برتیں تو اس پر اسلامی دنیا میں ہونے والا ردِ عمل فطری طور پر برق آسا اور شدید ہوگا۔ مشتعل ہجوم نعرے لگاتا، آگ جلاتا، پتھر برساتاہوا مغربی ممالک کے سفارت خانوں پر حملہ آور ہوگا۔ اس دوران مساجد میں علما حضرات جوش ِ خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالیں گے۔ حکومتیں مغربی ممالک سے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلا لیں گی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نہایت برق رفتاری سے پیغامات گردش کرنے لگیںگے کہ مغربی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے جبکہ ٹی وی سٹوڈیوز کے اصحاب ِ غیرت شعلہ فشاں ہوتے ہوئے جہاد کا اعلان کریںگے۔
خوش قسمتی سے ایسی صورت پیش نہیں آئی اور امید کی جانی چاہیے کہ کبھی پیش نہیں آئے گی ؛ تاہم اس کے برعکس واقعات کا پیش آنا معمول بن چکا ہے۔ زیادہ تر اسلامی دنیا میں عیسائی شہریوں کے خلاف پر تشدد واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں۔ وہاں کی حکومتیں اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات کرنے کی زحمت نہیںکررہیںجبکہ بیرونی دنیا بھی خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان خود کو ایک امت تصورکرتے ہیں جبکہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک ملک کے افراد دیگر ممالک میں مقیم ہم مذہب عیسائیوں کے لیے کوئی جذباتی اشتراک محسوس نہیںکرتے ۔ اس کے علاوہ آج کل یورپ مذہب سے کنارہ کشی کے مرحلے سے گزررہا ہے ؛ چنانچہ عیسائیت کوماضی کے نوادرات کی طرح ایک شناخت کے طورپر لیا جاتا ہے، اسے آج کی دنیا میں قابلِ عمل نظام نہیں سمجھاجاتا۔ اس کے باوجود اسلامی دنیا میں عیسائی شہریوں کے خلاف ہونے والے تشدد پر سکوت پریشان کن ہی نہیں تشویش ناک بھی ہے۔ یہاں برطانیہ میں کسی اکا دُکا احتجاجی صدا کے سوا نہ صرف مکمل سکوت ہے بلکہ قومی سطح کامیڈیا بھی اس کی کوریج کی زحمت نہیںکرتا۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی بہت ہی گھنائونا حملہ کسی دن ہیڈلائن بن جائے لیکن اسلامی دنیا میں جاری عدم برداشت اور تشدد کی لہر پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔
مصر کی مثال لے لیں، وہاں پرامن عیسائی باشندے مقامی آباد ی کا دس فیصد ہیں۔ فی الحقیقت کوپٹس(قبطی) عیسائی مصر میں مسلمانوںسے بھی پہلے کے رہ رہے ہیں، لیکن اُنہیں مختلف حکومتوں نے سماجی طور پر مرکزی آبادی سے الگ رکھا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب یہاں اخوان المسلمون کی مختصر مدت کے لیے حکومت قائم ہوئی تو انھوںنے قبطی عیسائیوں کے خلاف پر تشدد کارروائیاں شروع کردیں ،اس لیے اگر اب عیسائی باشندے مرسی کی حکومت کا خاتمہ کرنے والے فوجی جنرلوںکی حمایت میں نکلیں تو ہمیں حیران نہیںہونا چاہیے۔ عراق میں ، جہاں صدام حسین کے زمانے میں عیسائی امن سے رہتے تھے، اب وہاں ان کی زندگی مسلسل خوف و ہراس کی فضا میں بسرہوتی ہے۔ ان کے گھربار اور گرجا گھر جلانا اور ان کو ہلاک کرنا ایک معمول بن چکا ہے جس کے باعث وہاں سے لاکھوںباشندے جان بچاکر فرار ہوچکے ہیں جسے عام طور پر امریکہ کی مداخلت کا رد ِعمل قرار دے کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ شام میں بھی عیسائی باشندے مسلمانوں سے پہلے کے زمانے سے رہتے چلے آرہے ہیں ، لیکن جب یہاں بپا ہونے والے انقلاب کو جہادی گروہوں نے یرغمال بنا یا، عیسائیوں پر حملے شروع ہو گئے۔ لیبیا میں بھی کیتھولک عیسائیوں اور قبطی آبادی پر حملے معمول بن چکے ہیں۔ حال ہی میں انتہا پسندوںنے یہاں مدفون یورپی سپاہیوں کی قبروںکی بے حرمتی کی جو دوسری جنگ عظیم کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان میں عیسائی آبادیوں پر مشتعل ہجوم کے حملے ہوتے رہے ہیں ۔ ان کے گرجوں اور آبادیوں کو جلادیا جاتا ہے۔ حال ہی میں پشاور کے ایک چرچ پر خود کش حملے میں بیسیوں افراد ہلاک ہوگئے۔ عام طور پر ان پڑھ ، غریب اور لاچار عیسائی باشندوں کے خلاف توہین کے قوانین لاگو کیے جاتے ہیں۔ ''دی سپیکٹیٹر‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مائیکل نذیر علی جو1994ء سے 2009ء تک روچسٹر کے بشپ رہے، لکھتے ہیں:''اگرچہ عیسائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی فہرست بہت طویل ہے لیکن لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کے رد عمل میں کیا کیا جائے ؟ میرا خیال ہے کہ حکومتوں اور یواین کوانسانی حقوق، عقائد اور اظہار کی آزادی کو تحفظ فراہم کرنے والے آرٹیکل 18 کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہیے ۔ ریاستوں کی خودمختاری کا احترام واجب، لیکن جب کسی آبادی کی نسل کشی کی جارہی ہو اور اس ریاست میں انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہوچکا ہویا دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندگروہ اس ملک میںخون کی ہولی کھیل رہے ہوں تو پھر اس ریاست کو ''نوفلائی زون‘‘ قرار دیا جائے اور انسانی جانوں کے زیاں کو روکنے کے لیے اگر ناگزیر ہو تو زمینی کارروائی سے بھی گریز نہ کیا جائے؛ چنانچہ اگر بلقان کے مسلمانوں، عراق کے کردوں یا امریکہ اور آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کو تحفظ درکار ہے تو مشرق ِ وسطیٰ میں رہنے والے عیسائیوںکو کیوں نہیں؟‘‘
مسٹر بشپ کے معروضات اپنی جگہ، لیکن اغلب قیاس یہ ہے کہ مغربی ممالک کے دارالحکومتوں میں ان کے موقف کو پذیرائی نہیں ملے گی کیونکہ مغربی باشندے اب اس بات سے نفرت کرتے ہیںکہ ان کے سیاست دان اسلامی ممالک میں مزید مداخلت کے مرتکب ہوں ؛ تاہم خدشہ ہے کہ اگر حکومتی سطح پر کچھ نہ کیا گیا تومغرب میں مقیم مسلمانوںکو مقامی آبادی کی طرف سے سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا یا کم ازکم کچھ مغربی ممالک میں جاری ''اسلام فوبیا‘‘ کی لہر میں شدت میں آ جائے گی۔ مسلمان اپنی مقدس کتاب قرآن ِ پاک کا حوالہ دے کر ثابت کرتے ہیں کہ اسلام اقلیتوںکے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، لیکن جب ان کے ممالک میں اقلیتوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہو یاان پر جبر کیا جارہا ہوتو کوئی نہیںبولتا۔ ان کی عبادت گاہوں اور آبادیوں پر حملے کرنے والے گرفتار ہوتے ہیں نہ کسی کو سزا ملتی ہے۔ عدم برداشت اور انتہاپسندی کے اس ماحول میں ملّا اور ان کے پیروکاردیگر مذاہب کے خلاف زہر اگلنے کے لیے آزاد ہیں۔ وہ عوام کو اتنا مشتعل کردیتے ہیں کہ عوام پر تشدد سرگرمیوں پر اتر آتے ہیں۔ اس دوران ریاست کے پاس بہترین آپشن یہی ہوتا ہے کہ وہ ان سرگرمیوں سے اغماض برتے اور دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے کے راستے تلاش کرتی رہے۔ ان حالات میں ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے اگر مغرب میں اسلام کوپرتشدد مذہب سمجھا جارہا ہو ، اس سوچ کے پھیلنے میں یقیناً ہمارا اپنا قصور ہے۔