آم کے آم‘گٹھلیوں کے دام
ایک لڑکا باغ میں آم کے درخت پر چڑھا آم چُرا رہا تھا کہ اتنے میں باغ کا مالک بھی آ گیا اور بولا ‘
''نیچے اُترتے ہو یا تمہارے باپ کو بُلائوں؟‘‘
''انہیں بُلانے کی ضرورت نہیں‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
''کیوں؟‘‘باغ مالک نے پوچھا
''اس لیے کہ وہ ساتھ والے درخت پر چڑھے ہوئے ہیں‘‘ لڑکے نے جواب دیا
ابھی سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے عدالت میں پیش نہ ہونے کا تنازعہ چل ہی رہا تھا کہ اب یہ خبر آ گئی ہے کہ وزیراعظم نے اصغر خاں کیس میں ایف آئی اے کو بیان دینے سے انکار کر دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے والوں نے وزیر اعظم ہائوس کے ترجمان سے اس سلسلے میں رابطہ قائم کیا تو انہیں بتایا گیا کہ اُن کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہے اور وہ معذرت خواہ ہیں، واضح رہے کہ جواب میں یہ بھی نہیں کہا گیا کہ وزیر اعظم فرصت کے وقت بیان ریکارڈ کرا دیں گے جبکہ یہ پوچھ گچھ سپریم کورٹ کے حکم پر کی جا رہی تھی۔اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں کہ عقلمند قارئین کے لیے اشارہ ہی کافی ہے!تاہم اسی سے جُڑی ہوئی ایک خبر کے مطابق پرویز مشرف کو بیرون ملک بھجوائے جانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں حتیٰ کہ ضروری دستاویزات وغیرہ بھی کراچی کے ایک نہایت سینئر وکیل
(غالباً شریف الدین پیرزادہ صاحب) سے تیار کروائی جا چکی ہیںاور وزیر اعظم بھی اس پر اپنی آمادگی کا اظہار کر چکے ہیںاور اب صرف پرویز مشرف کی آمادگی کا انتظار ہے‘تو اس صورت تو وزیر اعظم کی عدیم الفرصتی ختم ہونے والی ہے اور وہ ایف آئی اے کو بیان دینے کے لیے وقت نکال ہی سکتے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ جب پرویز مشرف ہی کو عدالت میں پیش ہوئے بغیر باہر بھیجا جا رہا ہے اور ابھی کل ہی وفاقی وزیر اطلاعات قوم کو یہ اطلاع اور یقین دہانی کرا رہے تھے کہ موصوف کو کسی صورت باہر نہیں دیا جائے گا‘ تو وزیر اعظم صاحب کو بیان دینے پر کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے کیونکہ پرویز رشید صاحب ہی کے بقول قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔علاوہ ازیں ‘وزیر اعظم کی دوسری بڑی مصروفیت یہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ یا مذاکرات کرنے پر غور و خوض کرنے میں بُری طرح مصروف ہیں اور جب تک وہ اس کام سے فارغ نہیں ہو جاتے‘ وہ ایف آئی اے کو بیان دینے کے لیے کیسے نکال سکتے ہیں‘ ہیں جی ؟
قانون کی ایک اور عملداری
یہ خبر تو ساری دنیا میں پہنچ چکی ہے کہ جناب خرّم دستگیر وفاقی وزیر مقرر ہونے کے بعد جب پہلی بار گوجرانوالہ تشریف لائے تو پُرجوش کارکنوں اور ساتھیوں نے اس خوشی میں ہوائی فائرنگ کر کرکے آسمان ہی سر پر اٹھا لیا جبکہ صاحبِ موصوف اس دوران مُسکراتے اور موقع پر موجود پولیس خاموش کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ بعد میں وزیر اعلیٰ نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے ان قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جس پر متعدد افراد کے خلاف پرچہ درج کر کے آٹھ افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا جن میں سے ایک کو وفاقی وزیر موصوف کے ڈیرے سے پکڑا گیا۔ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو سکتی ہے‘ اگرچہ اپنے بڑے بھائی صاحب کی طرح چھوٹے میاں صاحب بھی بے حد مصروف آدمی ہیں‘ تاہم‘ قانون کا تقاضا تو یہ بھی تھا کہ چُپ چاپ تماشا دیکھنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جاتی جن کی آنکھوں کے سامنے یہ غیر قانونی حرکت کی جا رہی تھی‘ بلکہ وزیر موصوف سے بھی جواب طلبی کی جاتی کہ انہوں نے خود کسی کو اس کام سے کیوں نہیں روکا اور محض خوش ہوتے رہے کیونکہ قانون کے سامنے تو سب برابر ہیں‘ماسوائے وزیر اعظم صاحب کے جن کی مصروفیت انہیں قانون پر عمل نہیں کرنے دیتی۔
ایک یہ بھی!
ان سب سے زیادہ دلچسپ خبر یہ ہے کہ اوگرا کرپشن کیس میں نیب نے عدالت میں جو دو ریفرنس دائر کیے ہیں ان سے متعلقہ دونوں رپورٹوں میں کئی تضادات سامنے آئے ہیں جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں‘ البتہ ماہرین قانون کا کہنا یہ ہے کہ ان تضادات کی بناء پر وکلائے صفائی اپنے کلائنٹس کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بھی اسی مفروضے کے تحت کرایا گیا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے یہ خبر آئی تھی کہ نیب نے اوگرا کیس سے سابق وزیر اعظم گیلانی کا نام نکال دیا ہے‘تاہم اب دائر شدہ ریفرنس میں موصوف کا نام بھی شامل کر لیا گیا ہے اور دونوں رپورٹوں میں مختلف تضادات رکھنے کا اہتمام ضرور کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل بھی کر دی گئی ہے اور مقدمے کی تشکیل اور پیروی کے سلسلے میں یہ گنجائش بھی رکھ لی گئی ہے کہ نیب کی طرف سے بھی اس مقولے کا پورا پورا اہتمام کر لیا جائے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ملک کو قانون کی یہ عملداریاں مبارک ہوں!
اور‘اب آخر میں خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل:
اپنا نہیں کچھ بھی تو پرایا ہی بہت ہے
آنکھیں ہی بہت ہیں‘ یہ تماشا ہی بہت ہے
پھر کیا ہے جو وہ شوخ ہمارا نہیں ہوتا
ہم ہو گئے ہیں اُس کے تو اتنا ہی بہت ہے
یہ عمر زیادہ طلبی کی بھی نہیں اب
ہوتا ہے گزارہ تو گزارہ ہی بہت ہے
پانی نہیں‘ آواز تو دیتی ہے سُنائی
چڑھتا ہُوا یہ دُور کا دریا ہی بہت ہے
ہم ہیں کہ سرِ راہ اسی کام میں لگ جائیں
کیا کیجئے‘ رونا ہمیں آتا ہی بہت ہے
ہوتی ہے محبّت میں قناعت بھی کوئی چیز
ویسا نہیں موجود تو ایسا ہی بہت ہے
کچھ ہم بھی خریداروں میں شامل تو ہیں‘ لیکن
سودا یہ ترے حُسن کا مہنگا ہی بہت ہے
کچھ ڈُوب کے مرنے کو سمندر نہیں درکار
پُختہ ہو ارادہ تو کنارہ ہی بہت ہے
کچھ سمت ہی سُوجھے‘ ظفر‘ اس تیرہ شبی میں
سورج نہیں ملتا تو ستارہ ہی بہت ہے
آج کا مقطع
کسی شے میں‘ ظفر‘ بس کچھ ملا دیتا ہوں چُپکے سے
یہ طرزِ خاص ہے میری جسے میں عام رکھتا ہوں