تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     27-01-2014

آپریشن سے پہلے

چار سال پہلے کا سیلاب کسے یاد نہیں، ایسی تباہی تھی کہ دریا تودریا کوئی ندی نالہ بھی ایسا نہیں تھا جو کنارے چھوڑ کر آبادی میں داخل نہ ہوا ہو۔ سوات میں تو دریا گویا بپھر گیا تھا، کہیں سڑک بہا لے گیا اور کہیں پل برباد کردیے ۔ سیلاب کی وجہ سے مینگورہ سے کالام جانے کا راستہ بند ہوچکا تھا۔ کہیں کہیں دریا پار کرنے کے لیے لوہے کے رسے سے بندھی ایک ڈولی میسر تھی جس میں بیٹھ کر دریا پار کرتے ہوئے ہلکی سی جنبش کی ہمت بھی نہ ہوتی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ فولادی رسہ بھی دریا کے مہیب بہاؤ کے خوف سے لرز رہا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاری کی رپورٹنگ کے لیے میں دریائے سوات پار کرنے کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس ڈولی کے انتظار میں کھڑا تھا۔ رمضان المبارک تھا لیکن کچھ دوست سفر میں رخصت کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ہمارے پاس ایک بڑی ویگن تھی جس میں بیٹھ کر ایک دوست سگریٹ نوشی بھی فرما رہے تھے اور دریا کے دوسرے کنارے سے آنے والے تازہ آڑو کا ناشتہ بھی کررہے تھے۔ دیکھا دیکھی دو اور دوست بھی ان کے ساتھ جا شامل ہوئے لیکن یہ احتیاط رکھی کہ گاڑی کے اندر کا منظر کوئی دیکھنے نہ پائے ، مزید احتیاط کے لیے ڈرائیور نے گاڑی ایسی جگہ لے جا کر کھڑی کردی جو راستے سے ہٹ کر درختوں سے گھری ہوئی تھی۔ خاصے انتظار کے بعد ہماری باری آئی کہ دریا پار کرسکیں۔ ہم سب نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور اس پل صراط سے لٹکی ہوئی جھولتی جھالتی ڈولی میں بیٹھ کر دوسرے کنارے جا اترے۔ اپنا کام ختم کرنے کے بعد ہمیں ایک ایسے 'صاحب ‘ سے ملنا تھا جو اس علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار تھے اور سوات میں جاری فوجی آپریشن کا ایک اہم حصہ بھی۔ خیال تھا کہ ان سے کچھ معلومات مل جائیں گی اور شاید یہ ہمیں ان علاقوں تک پہنچا نے میں مدد بھی دیں گے جو سڑک بہہ جانے کی وجہ سے ناقابل رسائی ہیں۔ 
ان کا دفتر مینگورہ سے کالام جانے والی سڑک کے قریب ہی ایک پہاڑی پر واقع تھا۔ جیسے ہی صحافیوں کا یہ چھوٹا سا جلوس ان کے کمرے میں داخل ہوا ، انہوں نے خوشدلی سے ہمارا استقبال کیا اور فون پر کسی کو ہمارے لیے چائے کا بھی کہہ دیا۔ پھر مسکراتے ہوئے تفصیل سے بتانے لگے کہ کس نے کب سگریٹ پی، کس نے آڑو کھائے اور کون تھرماس سے نکال کر چائے پی رہا تھا۔ اپنی بات مکمل کرکے وہ داد طلب نظروں سے ہماری طرف دیکھنے لگے ۔ واقعی ایک لمحے کے لیے ہم سب کو جاسوسی کے ان انتظامات پر حیرت ہوئی ۔ ایک دوست نے ان کی حسبِ خواہش تعریف کی تو وہ اور بھی کھِل اٹھے۔ انہوں نے پوری تفصیل سے بتایا کہ ان کے پاس کتنے لوگ ہیں جو اطلاعات اکٹھی کرنے کا کام کررہے ہیں اور یہ سارا نظام کس خوبی سے چل رہا ہے۔ ان کی بات ختم ہوئی تو میں نے درخواست کی کہ ہمیں آگے جانا ہے اور رات سے پہلے
پہلے واپس بھی آنا ہے، اگر کوئی مدد وہ کرسکیں تو احسان ہوگا۔ انہوں نے میری طرف گہری نظروں سے دیکھا اور پوچھا کہ کیا تم ہمارے انٹیلی جنس نظام کے بارے میں جان کر خوش نہیں ہوئے؟ میں نے عرض کی کہ ایک سوال کا جواب مل جائے تو یقیناً خوش ہوجاؤں گا اور سوال یہ ہے کہ ملا فضل اللہ سوات سے نکلنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟ میرا سوال سن کر وہ کچھ غصے میں آگئے اور کہنے لگے ، تم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ہم نے کتنے لوگوں کو پکڑا ہے۔ میں نے کہا بے شک آپ نے پکڑا ہے لیکن سوات میں بدامنی کی علامت کو آپ نہیں پکڑ سکے ، اس کا اثرو رسوخ اب بھی لوگوں پرقائم ہے اس لیے فوجی آپریشن کے بعد بھی سوات اس طرح بحال نہیں ہوسکا جیسے کبھی تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ میرے ساتھیوں کے روزے نہ رکھنے سے لے کر طالبان کے مقامی کمانڈروں تک تو آپ کی انٹیلی جنس درست کام کرتی ہے لیکن جیسے ہی معاملہ اس سے آگے جاتا ہے تو اطلاعات کا سلسلہ یک لخت منقطع ہوجاتا ہے؟ میرے سوال نے کمرے کی فضا پر ایک بوجھل سی خاموشی طاری کردی ، تھوڑی دیر بعد ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے سفرکی تیاری مکمل ہے اور ہم جا سکتے ہیں۔ انٹیلی جنس پر گفتگو اسی بوجھل فضا کا شکار ہوکر ختم ہوگئی اور ہم آگے چل پڑے ، لیکن سوال وہیں رہ گیا۔
پاکستان میں خفیہ اداروں کی کاردگی پر اٹھنے والے سوالات ملا فضل اللہ سے لے کر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی ہر کارروائی ان کی مہارت و اہلیت پر نیا سوالیہ نشان ڈال دیتی ہے۔خود حکومت میں شامل بہت سے لوگ ہیں جو پورے یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس سوات، فاٹا ، کوئٹہ اور کراچی میں خفیہ معلومات معیاری ہوں تو امن و امان کی صورت حال میں غیر معمولی بہتری آسکتی ہے ۔ ماہرین ِ حرب بھی یہی بتاتے ہیںکہ خفیہ کاری اور طاقت کے استعمال میں معکوس تناسب ہوتا ہے؛ جتنی اچھی انٹیلی جنس ہوگی اتنی ہی کم طاقت صرف کرکے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ایسی جنگ میں انٹیلی جنس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ دہشت گرد وردی پہن کر سامنے سے وار کرنے کے بجائے معاشرے کی آڑ میں چھپ کر کارروائی کرتا ہے۔ ایسے دشمن کے خاتمے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال سے ایک عمومی ردعمل بھی پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے ، اس لیے پاکستان میں بھی دہشت گردوں کے خلاف کوئی آپریشن مطلوب ہے تو اسے بنیادی طور ایک انٹیلی جنس آپریشن ہونا چاہیے نہ کہ معروف معنوں میں ایک فوجی کارروائی۔دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں سب سے بڑا اور مؤثرہتھیار بارود نہیں بلکہ معلومات ہیں، جن کے حصول کا نظام بہتر بنائے بغیر چارہ نہیں۔ اگر امریکہ اپنے ڈرون کے لیے ہماری زمین پر اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ذریعے اہداف کا تعین کرسکتا ہے تو ہم اپنی ہی زمین پر دہشت گردوں کو نشانہ کیوں نہیں بنا سکتے؟ گزشتہ چودہ سال کا سبق یہ ہے کہ یہ معلومات کی جنگ ہے، جو اپنے دشمن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان پائے گا، جنگ جیت لے گا۔ 
چین کے اساطیری جرنیل سن زو نے ڈھائی ہزار سال پہلے اپنی کتاب(Art of war )کے تیرھویں باب میں لکھا تھا: ''کسی حکومت یا جرنیل کو یہ زیبا نہیں کہ دشمن کو جانے بغیر اپنی فوج کو جنگ میں جھونک دے۔ بغیر معلومات کے لڑی جانے والی جنگ مہنگی ہوتی ہے اور عوام میں بے چینی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ دانائی یہ ہے کہ جس دشمن سے لڑنا ہو اس کے بارے میں چھوٹی سے چھوٹی تفصیل بھی نگاہوں میں رہے ۔ اس کے لیے دشمن کے اندر جاسوس بھیجے جائیں، اس کے اردگرد کی معلومات اکٹھی کی جائیں، اس کو الجھانے کے لیے سوچی سمجھی کارروائی کی جائے اور پھر ان معلومات کی روشنی میں اس پر ایک ہی بار حملہ کرکے اسے ختم کردیا جائے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved