جب طالبان کی طرف سے حکومت پاکستان کی پالیسیوں پر تبصرے آنے لگے‘ تو میں نے لکھا تھا کہ میڈیا کے ذریعے ہی سہی‘ مکالمے کا آغاز ہو گیا ہے۔ آج کے اخبارات دیکھ کر میں کہہ سکتا ہوں کہ درپردہ پیغام رسانی کا سلسلہ بھی قائم ہو چکا۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لئے طالبان کی پیش کش کا جائزہ لے گی‘ تو طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے تازہ بیان میں انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے ''سمیع الحق سمیت امن کے تمام وفود کو مثبت جواب دیا۔‘‘ ان چند الفاظ میں یہ انکشاف موجود ہے کہ سرکاری وفود ‘ طالبان سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ جس کا مطلب باہمی پیغام رسانی ہے۔ حکومت نے یہ کہہ کر تصدیق کر دی کہ طالبان کی پیش کش پر غور کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر پیغام رسانی ہو رہی ہے‘ تووہ فضا کیوں پیدا نہیں ہو رہی؟ جو بات چیت کے لئے مطلوب ہوتی ہے۔طالبان کی پالیسی تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ دہشت گرد حملوں میں تیزی اور پھیلائو لا رہے ہیں تاکہ بات چیت شروع ہونے سے پہلے‘ حکومت پر دبائو ڈال کر‘ طاقت کی پوزیشن سے بات کر سکیں۔طالبان کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ ان کی چین آف کمانڈ میں کسی قسم کی لچک ‘ دہرا پن اور تذبذب دکھائی نہیں دیتے۔ ان کے ہر اقدام اور بیانات کے پیچھے کامل اتحاد اور پختہ عزائم نظر آتے ہیں اور دوسری طرف پاک افواج نے میران شاہ میںجو کارروائی کی‘اس کے والی وارث ابھی تک لاپتہ ہیں۔
یہ بات غور طلب ہے کہ طالبان اپنے ہر حملے کے فوراً بعد‘ نہ صرف اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں بلکہ یہ بھی واضح کر دیتے ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائی انہوں نے کس وجہ سے کی؟ میرانشاہ کے واقعے کو کافی دن گزر چکے ہیں۔ ابھی ہماری مجاز اتھارٹی نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یہ کارروائی چھوٹا واقعہ نہیں تھا۔ خصوصاً ایک منتخب حکومت کے دور میں‘ جو ہر اہم اقدام پر عوام کو اعتماد میں لینے کی پابند ہوتی ہے۔ طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے جواب میں میرانشاہ کی کارروائی ہر اعتبار سے جوابی اقدام لگتی ہے۔ لیکن کیا حکومت پاکستان نے اس کا باضابطہ اعلان کیا؟ کئی دنوں کے بعد دفاعی پیداوار کے وزیررانا تنویرحسین کا بیان آیا‘جس میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ ''پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں کوئی آپریشن شروع نہیں کیا۔ میرانشاہ کی کارروائی جوابی اقدام تھا‘ جو دہشت گرد عناصر کے خلاف کیا گیا۔‘‘بیان میں پاک افواج پرکھلے حملے کرنے اور ان کی ذمہ داریاں قبول کرنے والی تنظیم کا نام لینے سے گریزہے اور مسلح باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کا جوازایسے انداز میں پیش ہوا‘ جسے آسانی سے یکطرفہ فائربندی قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیرموصوف کے الفاظ ملاحظہ فرمایئے۔ ''جہاں بھی پاک فورسز کے جوانوں کو شہید کیا جائے گا‘ اس پرجوابی کارروائی ضرور ہو گی اور کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔‘‘ فائربندی وہ ہوتی ہے‘ جس میں دونوں فریق طے کر لیںکہ وہ کسی اشتعال انگیزی کے بغیر‘ ایک دوسرے پر فائرنہیں کھولیں گے اور یکطرفہ فائربندی یہ ہوتی ہے کہ ایک فریق وزیردفاعی پیداوار کی طرح یہ اعلان کر دے کہ ہم اس وقت تک فائر نہیں کریں گے‘ جب تک ہمارے سپاہیوں کو شہید نہیں کیا جائے گا۔یہ اور بات ہے کہ طالبان نے بالواسطہ یکطرفہ فائربندی کے اس اعلان کو بھی اہمیت نہیں دی اور مسلسل تقاضا کر رہے ہیں کہ پہلے حکومت مذاکرات کا ماحول پیدا کرے۔ یعنی وہ اپنی طرف سے حملے کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہوئے‘ حکومت کی یہ پیش کش بھی قبول کرنے کو تیار نہیں کہ ہم اپنے سپاہیوں کی شہادت کے بغیر‘ فائر نہیں کریں گے۔ آپ مذکورہ بیان کو غور سے پڑھیے‘ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے یکطرفہ فائربندی کا عندیہ دے دیا ہے۔ لیکن طالبان اس سے بھی کچھ ''زیادہ‘‘ چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے حکومت نے پوری صورتحال کا تجزیہ مکمل کر لیا ہو گا۔ آج شام قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا ہے۔ اطلاع ہے کہ اجلاس سے پہلے‘ مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ‘ اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ممکن ہے وزیراعظم آج ہی سکیورٹی پالیسی کا اعلان بھی کر دیں۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ طالبان کی طرف سے حملے نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میں تیزی آ رہی ہے‘ جو ظاہر ہے دبائو بڑھانے کا ایک حربہ ہوتا ہے۔ لیکن حکومت نے جوابی کارروائی کا حق استعمال کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کیا۔ ورنہ حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کو نقصان پہنچانے کے ہر منصوبے کو آگے بڑھ کر ناکام بنائے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا۔ اس کے برعکس حکومت عمومی طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواب میں عملی اقدام نہیں کرتی۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلیں توڑ کر جس طرح طالبان براتیوں کی طرح واپس گئے‘ وہ ناقابل یقین لگتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ایسا واقعی ہوچکا ہے۔ ریکارڈ دیکھا جائے‘ تو حکومت کی طرف سے آج تک طالبان کے کسی بھی حملے کا نہ تو جواب دیا جا سکا ہے اور نہ ہی ذمہ داروں کا سراغ لگا کرکوئی کارروائی کی جا سکی ہے۔ وزیراعظم اگر آج پالیسی بیان دے رہے ہیں‘ تو امید رکھنا چاہیے کہ وہ یہ تاثر واضح کریں گے کہ حکومت سکیورٹی کے معاملے میں متذبذب نہیں اورواضح سکیورٹی پالیسی بھی رکھتی ہے۔ قوم اپنے وزیراعظم سے بجاطور پر یہ توقع رکھتی ہے کہ آج وہ دو ٹوک اندازمیں دہشت گردی کے خلاف قومی سکیورٹی پالیسی کا اعلان کریں گے۔ حالانکہ حکومتوں کو ایسے اعلانات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہر طرح کے حالات میں آئین و قانون ‘حکومت کوناگزیر اقدامات کی ہدایت کرتے ہیں۔ مسلح بغاوت ہو گی‘ تو جواب میں حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ جو شہری ‘ آئین کو تسلیم نہ کرتے ہوں‘ وہ کس سلوک کے مستحق ہیں؟ جو لوگ بے گناہ شہریوں کو ہلاک اور اثاثوں کو تباہ کرتے ہیں‘ قانون انہیں کس سلوک کا مستحق قرار دیتا ہے۔ آئین و قانون میں ان تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ اگر وزیراعظم آج کی تقریر میں منتخب ایوان کو یہ نہیں بتاتے کہ بے گناہ عوام پر مسلط کی گئی خونریزی ختم کرنے کے لئے‘ وہ کیا فیصلہ کن لائحہ عمل تیار کر کے آئے ہیں؟تو منتخب نمائندوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وزیراعظم سے اس کا جواب مانگیں۔ ان سے یہ سوال بھی پوچھنا ضروری ہے کہ بنوں اور راولپنڈی کے حملوں کے بعد‘ میرانشاہ میں جو کارروائی کی گئی‘ کیا وہ صرف دو واقعات کا ردعمل تھایا مسلسل دہشت گردی کے جواب میںحکومتی پالیسی کا حصہ؟ اگر یہ حکومتی پالیسی کا حصہ ہے‘ تو پاک فضائیہ کی کامیاب کارروائیوں پر حکومت اب تک کیوں خاموش ہے؟ اس نے کریڈٹ کیوں نہیں لیا؟ وزیراعظم سی ایم ایچ راولپنڈی میں زخمیوں کی عیادت کے لئے ضرور گئے اور انہیں حوصلہ بھی دیا۔ لیکن جس نے ان کے ساتھیوں کو شہید اور انہیں زخمی کیا‘ اس کی مذمت میں ایک لفظ سننے کو نہیں ملا۔لائن آف کنٹرول پر بھارت کے دو سپاہی ہلاک ہو جائیں‘ تو حکومت ان کی آخری رسومات کے لئے خصوصی اہتمام کرتی ہے۔ حکومت اور اس کے وزراء کی طرف سے ہلاک شدگان کی قربانیوں اور ان کے ورثا کے صبر و استقامت کا اعتراف کرتے ہوئے‘ ان کے لئے مراعات کا اعلان کرتی ہے اور میڈیا پر مرنے والوں اور ان کے ورثا کی جرات اور بہادری کے تذکرے کئے جاتے ہیں۔لیکن ہمارے میڈیا پر صرف فوج کی طرف سے تدفین کے خصوصی انتظام کے سواکچھ نہیں دکھایا جاتا۔ حکومت نے شہدا اور ان کے ورثا کے لئے کیا کیا؟شہادتیں پیش کرنے والوںکے بارے میں کیا کہا؟ پسماندگان کو حوصلہ دینے کے لئے حکومت نے کیا طریقہ اختیار کیا؟کم از کم سرکاری میڈیا پرجو کچھ دکھایا جاتا ہے‘ وہ شہدا کے شایان شان ہرگز نہیں ہوتا۔وزیراعظم ذاتی طور پر وطن کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں کا درد ‘ دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں۔ مگر یہ درد ان کی حکومتی پالیسیوں میں دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کالم میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں‘ امید ہے وزیراعظم کے پالیسی بیان میں‘ ان کے جواب موجود ہوں گے۔ پالیسی بیان دینے میںمزید تاخیر نہیں ہونا چاہیے۔