انتظار تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کی فیصلہ کن تقریر سننے کو ملے گی۔ جس میں وہ دہشت گردی کے متعلق اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان کریں گے۔پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ان کے خطاب کی جو ابتدائی خبریں سامنے آئیں‘ ان سے یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ پارلیمنٹ کے اراکین نے‘ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے‘ آپریشن شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ خود وزیراعظم کی تقریر کے جو حصے باہر آئے‘ ان سے بھی یہی پتہ چلا کہ وزیراعظم کی سوچ بھی یہی تھی کہ مذاکرات کے انتظار میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے جوش میں آ کر اپنا چشمہ بھی میز پر پٹخ دیا (شکر ہے میز بچ گئی)۔ گویا وزیراعظم کی باڈی لینگویج سے بھی ارادے کی پختگی چھلک رہی تھی۔ 90فیصد کے قریب اراکین نے آپریشن کے حق میں رائے دی۔ وزیراعظم نے فرمایا ''ہمیں اپنی نسل اور ریاست کو ہر صورت بچانا ہے۔ آئین تسلیم نہ کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ فوج کے شہداء کا خون ضائع نہیں جانے دیں گے۔‘‘ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے جب اس قسم کی خبریں باہر آئیں‘ تومیڈیا کے حلقوں میں تجسس بڑھ گیا۔بے چینی سے انتظار ہونے لگا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے پر وزیراعظم ایوان میں تاریخی خطاب فرمائیں گے۔
اجلاس شروع ہوا‘ تو پتہ چلا کہ خطاب تو دور کی بات ہے‘ وزیراعظم تو ایوان میں جلوہ افروز ہی نہیں ہوں گے۔ بتایا گیا کہ حاضرین اور میڈیا کی ضیافت طبع کے لئے‘ مشرق و مغرب کے بادشاہ چوہدری نثار علی خان ایک بار پھر اظہار خیال فرمائیں گے۔ حاضرین نے سوچا ہو گا کہ وزیراعظم کی جگہ مشرق و مغرب کے بادشاہ تقریر کرنے لگے ہیں‘ تو ضرور ان معاملات پر حکومتی پالیسی پر روشنی ڈالیں گے‘ جن پر ملک کے عوام مدت سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے جواب میں ہماری حکومت کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ چوہدری صاحب کی تقریر کے بعد پتہ چلا کہ ان کے پاس اسی طرح ایک رٹی رٹائی کہانی ہے‘ جیسے اداکارہ میرا اپنی ہر پریس کانفرنس میں سنایا کرتی ہے۔ ''ہم نے مذاکرات کی تیاری کر لی تھی۔ طالبان مذاکرات پر آمادہ ہو گئے تھے۔ ملاقات کا وقت اور مقام طے ہونے والے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دشمن نے ہمارے کئے کرائے پر ڈرون چلا دیا۔‘‘ بار بار دہرائی گئی کہانی میں انہوں نے ایک اضافہ ضرور کیا کہ ان کے پاس حکیم اللہ محسود کی کوئی تحریر ہے‘ جس میں اس نے چوہدری صاحب کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کے لئے بھیجی گئی فہرست میں سے دو نام کاٹ کر اپنے ہاتھ سے دو علمائے کرام کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ واقعی یہ ایک انتہائی قیمتی بلکہ متبرک دستاویز ہے‘ جسے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دینا چاہیے اور تحفظ کے لئے انتہائی قابل اعتماد انتظامات کئے جائیں۔ ہماری نئی منتخب حکومت کے وزیرداخلہ (جو مشرق و مغرب کے بادشاہ ہیں)نے7ماہ کی انتھک محنت کے بعد‘ ایسا قیمتی اور تاریخی کاغذ حاصل کر لیا‘ جس پرحکیم اللہ محسود نے اپنے ہاتھ سے دو نام لکھے ہیں۔ لوگ مانیں نہ مانیں مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ چوہدری صاحب‘ انتھک محنت کے بعد بہرحال حکیم اللہ محسود کی لکھی ہوئی ایک تحریر لینے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے۔ حکومت کے اس کارنامے کو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ عوام انتخابات میں اپنا فیصلہ دے کر‘ مطمئن ہیں یا پچھتا رہے ہیں؟ عام خیال یہی ہے کہ لوگوں نے نوازشریف کو وزیراعظم بنانے کے لئے ووٹ دیئے تھے۔ ایوان اور عوام دونوں کو نوازشریف کے بجائے مشرق و مغرب کے بادشاہ مل گئے۔ وزیروں کو وہ ہدایات دیتے ہیں۔ اراکین اسمبلی کی حاضریاں وہ لگواتے ہیں۔ سینٹ کی ڈانٹ ڈپٹ وہ کرتے ہیں۔ میڈیا سے انٹرایکشن کی ذمہ داری انہی کے سپرد ہے۔ حکومت کے پالیسی بیان وہ جاری کرتے ہیں۔ اہم سفارتکاروں سے وہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ کوئٹہ میں شہداء کی میتیں لے کر بیٹھے سوگوار خاندان ‘ وزیراعظم کو اپنی فریاد سنانے کی درخواست کرتے ہیں‘تو چوہدری نثار وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ کراچی میں امن و امان کی بحالی کے لئے انتہائی اہم آپریشن کرنا ہو ‘ تو اس کی ذمہ داریاں چوہدری نثار کے ذمے ہوتی ہیں۔لگتا ہے عوام سے ہاتھ ہو گیا۔ انہوں نے وزیراعظم بنانے کے لئے نوازشریف کو چنا تھا۔ مل گئے چوہدری نثار علی خان‘ جو مزاجاً مشرق و مغرب کے بادشاہ ہیں۔ بادشاہی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ ہمارا ایک وفد امریکہ میں سٹریٹجک تعلقات بحال کرنے کے لئے مذاکرات کر رہا ہے اور ہمارے وزیرداخلہ حیلے بہانے سے امریکہ کو حکیم اللہ محسود کا قاتل قرار دے کر‘ اس کی سرزنش کرتے ہیں۔
چوہدری نثار تو خیرمشرق و مغرب کے بادشاہ ہیں۔ اراکین اسمبلی سے لے کر امریکہ تک‘ وہ سب کو ڈانٹ سکتے ہیں۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ برسراقتدار پارٹی ہی نہیں‘ پاکستان کا پورا سیاسی کنبہ ‘ امریکہ کو بکری سمجھنے لگا ہے۔ جسے دیکھو‘ امریکہ پر چڑھ دوڑتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن پہلے تو امریکہ کا تھوڑا بہت لحاظ کر لیا کرتے تھے۔ جب سے کولیشن پارٹنر بنے ہیں‘ وہ بھی امریکہ کو زدوکوب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ عمران خان نے تو خیرکمال کر دیا۔ اپنے ہسپتال کے لئے ڈالر بھی امریکہ سے لیتے ہیں اور کان بھی اسی کے کھینچتے ہیں۔ جماعت اسلامی البتہ ایک منفرد ریکارڈ رکھتی ہے۔ وہ جنرل یحییٰ خان کا ساتھ دیتی ہے اور بعد میں آمریت کی مخالفت کرتی ہے۔ ضیاالحق کے
ساتھ شریک اقتدار رہتی ہے اور بعد میں اس کی مذمت بھی کرتی ہے۔ چند روز پہلے جماعت کے ایک معزز رہنما بڑے اعتماد سے انکشاف کر رہے تھے کہ جماعت نے تو جنرل مشرف کی شدید مخالفت کی تھی۔ وہ ملک میں کسی کو معاف نہیں کرتی‘ امریکہ کو معافی کیسے مل سکتی ہے؟ افغان جہاد کے لئے جو ڈالروں کے بیگ آیا کرتے تھے‘ ان کا بڑا حصہ تقسیم کرنے کا فرض‘ جماعت کی قیادت انجام دیا کرتی تھی۔ آج اس نے بھی امریکہ کو بکری بنا رکھا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں کیا عرض کیا جائے؟ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کہلوانے کے لئے 8ماہ سے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ مگر اس کی کوئی سنتا ہی نہیں۔ ضابطے کے تحت قائد حزب اختلاف خورشید شاہ ہیں۔ لیکن ایوان کے اندر عمران خان اپوزیشن لیڈر دکھائی دیتے ہیں۔ جمہوریت کی خاطر نوازشریف نے بھی اپوزیشن میں رہ کر پیپلزپارٹی کی حکومت کو تحفظ دیا۔ لیکن انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر‘ اپنی حیثیت پر حرف نہیں آنے دیا۔ یہی رول پیپلزپارٹی نے اپنے لئے چنا ہے مگر اس کے پاس نوازشریف جیسی ہنرمندی نہیںکہ حکومت کی حمایت کو جمہوری ذمہ داری ثابت کرے اور عوام کو باور بھی کرائے کہ وہ حزب اختلاف ہے۔ خورشید شاہ کو دیکھ کر تو شفیق الرحمن کا وہ جن یاد آتا ہے‘ جو اکثر کسی باغ میں بنچ پر بیٹھا روتا ہوا پایا جاتا تھا اور دریافت کرنے پر ہچکیاں لیتے ہوئے بتاتا تھا کہ'' میں اچھا بھلا جن ہوں۔ شکل وصورت بھی ڈرائونی ہے۔ ایسے کام بھی کر کے دکھا سکتا ہوں جو انسان نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود کوئی مجھ سے ڈرتا ہی نہیں۔‘‘ جمہوری روایات کے تحت ‘ اسمبلی کے جن‘ خورشید شاہ ہیں۔ ان سے کوئی ڈرتا ہی نہیں۔ عمران خان سے سب ڈرتے ہیں۔ جن کوئی ہے‘ رعب کسی کا ہے۔خورشید شاہ کی پارٹی نے انہیں قائد حزب اختلاف بنا کر اچھا نہیں کیا۔ خدا نے انہیں ڈرانے کے لئے بنایا ہی نہیں۔ وہ ایک محبت کرنے والے انسان ہیں۔ دلوں کو جیتنے کے سلیقے جانتے ہیں۔ جب وہ حکومت میں تھے‘ تو اپوزیشن کو خوش رکھنے میں پیش پیش رہا کرتے تھے اور واک آئوٹ کرنے والوں کو بہلاپھسلا کر ایوان میں لایا کرتے تھے۔ اب وہ خود قائد حزب اختلاف ہیں۔ قائد ایوان انہیں دکھائی نہیں دیتے۔ واسطہ مشرق و مغرب کے بادشاہ‘ چوہدری نثار سے آن پڑا۔ شاہ صاحب سرسری سا واک آئوٹ کر کے کام چلا لیتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ اگر فل سائز واک آئوٹ کیا‘ تو چوہدری صاحب اپنے کسی ساتھی کو اجازت ہی نہیں دیں گے کہ وہ منا کر انہیں واپس لائے۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ۔ بہتری اسی میں ہے۔ میں نے یہ کالم اسی طرح شروع کیا‘ جیسے گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تھا اور سب نے امیدیں لگائی تھیں کہ وزیراعظم سکیورٹی پالیسی کا اعلان کریں گے۔ اجلاس ہو گیامگر اندر سے کچھ نہیں نکلا۔ میں نے اس اجلاس کے بارے میں کالم لکھنے کا سوچا۔ کالم لکھ لیا۔ لکھا کچھ بھی نہیں گیا۔ہم سب پیاز ادھیڑ کے‘ اس کے اندر کچھ ڈھونڈتے ہیں۔ پیاز ختم ہو جاتا ہے۔ نکلتا کچھ نہیں۔ نئی حکومت آئے 8مہینے ہو گئے۔ پلٹ کر کارکردگی کی طرف دیکھتے ہیں‘ تو سامنے ڈھیر ہیں‘ ادھڑے ہوئے پیازوں کے۔