چولستان کے صحرا سے ملنے والے اس خط نے پھر احساس دلایا ہے کہ دنیا بدل گئی ہے لیکن پہاڑوں اور صحرائوں کے باسیوں کے دکھ وہیں موجود ہیں جن کا اظہار خواجہ فرید کی رومانوی کافیوں میں ملتا ہے۔
یہ خط مجھے بہاولپور کی تحصیل یزمان سے ملا ہے جہاں زیادہ تر پنجابی سیٹلرز رہتے ہیں اور میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ جب تک سرائیکی علاقوں میں بسنے والے پنجابی یہ محسوس نہیں کریں گے کہ ان علاقوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے وہاں تبدیلی کی کوئی بڑی لہر نہیں چل سکے گی۔ پنجابیوں کی ایک خوبی کا میں معترف ہوں کہ یہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بات بھی کرتے ہیں اور احتجاج بھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں لیہ سے ملتان جانے والی ویگن پر سفر کرتا تھا تو ویگن میں چودہ کی بجائے چوبیس سواریاں بٹھائی جاتی تھیں۔ اگر کوئی احتجاج کرتا تو میرے سرائیکی بھائی کہتے ''سائیں چھوڑیں تھوڑا سا سفر ہے‘ کٹ جائے گا ۔ساتھ ہوجائیں‘ جگہ دے دیں‘‘۔ لیکن جب میں ملتان سے وہاڑی کا سفر کرتا تو مجال ہے کہ چودہ سے پندرہ سواریاں بیٹھنے دیں۔ یہ زیادہ تر پنجابی ہوتے جو اپنے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیتے تھے۔
الصادق ڈیزرٹ آرگنائزیشن بہاولپور کے ایک کارڈ پر خوبصورت پیغام چھپا ہوا ہے۔ اس کارڈ کے درمیان چولستان کی چھوٹی چھوٹی بچیوں کی ایک تصویر ہے جس میں وہ صحرا کی مٹی پر بیٹھ کر پڑھ رہی ہیں۔ نہ سر پر چھت ہے اور نہ نیچے بیٹھنے کے لیے کوئی ٹاٹ۔ یوں لگتا ہے کہ وہ کسی قدیم دور میں زندہ ہیں۔ تصویر کے اوپر ایک سوال پوچھا گیا ہے کہ ہمارے چولستا ن کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں روا رکھا جارہا ہے؟ کیا معیاری اور بنیادی تعلیم میرا حق نہیں ہے؟ کارڈ کے پیچھے ان بچیوں کے ہاتھ سے چند ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھی ہیں۔ بتول لکھتی ہیں کہ ہم سارا دن دھوپ میں بیٹھے رہتے ہیں۔ مٹی اڑتی رہتی ہے تو بھی ہم بیٹھے رہتے ہیں اور ہم کھلے میدان میں بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ مہربانی کر کے ہمیں بھی سکول کی عمارت دی جائے۔ نیچے لکھا ہے 'ساڈا حق، ایتھے رکھ‘۔ یہ نعرہ پڑھ کر یاد آیا کہ ان کو حق دینے کے پر اسلام آباد میںبیٹھے بابوئوں نے جو لوٹ مار کی ہے اس کا انہیں اندازہ ہی نہیں ہے۔
چند برس پہلے ورلڈ بنک اور ایشیائی بینک سے اربوں روپے قرض لے کر خشک سالی کے حوالے سے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ جس کے تحت ملک کے ان علاقوں میں ترقیاتی کام کرنا تھے جہاں خشک سالی حملہ آور ہوئی تھی۔ چولستان کا نام بھی شامل تھا۔ اسلام آباد کے پلاننگ ڈویژن میں ایک آڈٹ افسر محمد انور نے اپنے آپ کو اس پروگرام کا پراجیکٹ ڈائریکٹر لگوا لیا حالانکہ انہیں خشک سالی کی الف ب کا بھی علم نہیں تھا۔ سب سے پہلے ایک بڑا دفتر بنایا گیا ۔ آرائش پر لاکھوں خرچ ہوئے۔ پھر 29 گاڑیاں خریدی گئیں جن میں 2800 سی سی تک کی عالیشان گاڑی پراجیکٹ ڈائریکٹر کے لیے تھی۔ پلاننگ ڈویژن کے وفاقی سیکرٹریوں نے کہا کہ اگر لوٹ مچ ہی گئی ہے تو ہمارا حصہ کہاں ہے۔ ان بابوئوں کی بیگمات کے لیے نئی گاڑیاں خریدی گئیں‘ کیونکہ ہر سیکرٹری کا تعلق لاہور سے تھا اس لیے ان کی بیگمات کے لیے گاڑیاں لاہور بھجوا ئی گئیں۔ گاڑیوں کے لیے پٹرول کارڈ خرید کر بیگمات کو دیے گئے۔ نئے موبائل سیٹ خریدے گئے۔ پھر آنجناب نے اپنے اور بابوئوں کے رشتہ داروں کو اس پروگرام میں نوکریاں دینی شروع کردیں۔ 90 لوگوں کو اسلام آباد کے دفتر میں نوکریاں دی گئیں۔ خشک سالی کا حملہ چولستان‘ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ہوا تھا لیکن قسمت اسلام آباد کے سرکاری افسران اور بابوئوں کی بدل گئی۔ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ اکرم شیخ کو لگا کہ دفتر ان کے شایانِ شان نہیں‘ لہٰذا خشک سالی پروگرام سے دس لاکھ روپے نکال کر ان کے دفتر اور باتھ روم میں ٹائلیں لگائی گئیں۔ انور صاحب کو لگا کہ اس کے گھر کے باہر ایک حفاظتی حصار کا ہونا ضرور ی ہے تو اس پر خشک سالی کا پیسہ لگا دیا گیا۔ گاڑیاں بانٹی تو جا رہی تھیں‘ سو اپنے ایک بھائی اور کالج جاتے بیٹے کو بھی دے دی کہ کیا یاد کرو گے۔ رشتہ داروں کے جو بچے ابھی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے تھے انہیں بھی نوکریاں مل گئیں کہ بیٹا اس کو سکالرشپ سمجھو‘ دفتر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلو چستان کی خشک سالی کے لیے جو پیسہ موجود تھا اس میں سے پولیس کے آئی جی کا دفتر بنانے پر لاکھوں روپے خرچ ہوگئے۔
اس دوران چولستان میں خشک سالی کی وجہ سے 33 عورتیں اور بچے مرگئے تو اُس وقت کے وزیر اسحاق خاکوانی نے بیان دیا کہ پلاننگ ڈویژن کے افسران کے خلاف ان کے قتل کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ اس پر وزیراعظم شوکت عزیز کو شکایت کی گئی کہ اس گستاخی کی جرأت کس نے اور کیوں کی۔ شوکت عزیز نے اسحاق خاکوانی کو فون کیا کہ بیان واپس لو۔ خاکوانی ایک عزت دار اور بہادر آدمی ہیں۔ وہ وزیراعظم سے الجھ پڑے کہ آپ نے ان لوگوں کو کچھ نہیں کہا جو چولستان کا فنڈ کھا گئے ہیں اور ان کی وجہ سے چولستان میں بچے اور عورتیں پیاس سے مرگئے ہیں‘ اُلٹا مجھے ڈانٹ رہے ہیں۔
چولستان اور دیگر علاقوں کے فنڈز میں ہونے والی کرپشن پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ایک رپورٹ تیار کی جس میں مزید انکشافات ہوئے کہ کیسے محمد انور اور بابوئوں نے لوٹ مار کی تھی۔ معاملہ پی اے سی میں گیا تو وزیرداخلہ کے اندر کا جوش بیٹھ گیا جب پتہ چلا کہ محمد انور ان کے حلقے کا ووٹر بھی ہے۔ ایک دن ان پانچ سیکرٹریوں کو بھی لاہور سے بلایا گیا‘ جن کی بیگمات کو گاڑیاں دی گئی تھیں۔ چوہدری نثار پی اے سی کے افسران سے ناراض ہوگئے کہ کیوں ان عزت داروں کو زحمت دی۔ پھر ان سرکاری بابوئوں سے معذرت کی کہ انہیں تکلیف ہوئی۔ اب آڈٹ رپورٹ کو سیٹل کرنا تھا‘ لہٰذا پلاننگ ڈویژن کے ڈرائیوروں، قاصدوں اور دیگر چھوٹے عملے پر ریکوریاں ڈال کر محمد انور اور بابوئوں کو کلین چٹ مل گئی۔ محمد انور اللہ کا شکر ادا کرنے سعودی عرب کا ٹکٹ لے کر نکل گیا۔
اب لاہور کی سن لیں کہ وہاں چولستان کے ساتھ کیا ہوا۔ میاں شہباز شریف حکومت پر تنقید بڑھنا شروع ہوئی کہ وہ این ایف سی کے نام پر اربوں روپے تو وفاق سے لے آتے ہیں لیکن 36 اضلاع کو کچھ نہیں ملتا۔ اس پر انہوں نے چولستان لٹریسی پراجیکٹ کے تحت بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں 75 سکول قائم کیے جن میں 5500چولستانی بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم لاہور کے بابوئوں کا کمال دیکھیں کہ اس سال نئے بجٹ برائے 2013-14ء میں ان چولستانی سکولوں کے لیے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا ۔ اب وہ سکول کیسے چلیں؟
میاں شہباز شریف نے سرائیکی علاقوں کی محرومیاں تو ایک اعلان کر کے دور کر دی تھیں‘ لیکن پیسے کہاں سے آئیں گے؟ یہ ان کا درد سر نہیں تھا۔
چولستان والے چاہتے ہیں کہ ان غیررسمی سکولوں کو رسمی سکولوں میں تبدیل کیا جائے، استادوں کو سرکاری پے اسکیل دیا جائے، مفت کتابیں دی جائیں، مقامی چولستانی کو سکول میں استاد لگایا جائے اور سکول کی عمارتیں بنائی جائیں۔ لیکن شاید چولستانیوں کو معلوم نہیں ہے کہ اس سال این ایف سی سے پنجاب کو 700 ارب روپے ملے ہیں اور کسی کو علم نہیں کہ وہ سات سو ارب روپے کہاں خرچ ہوں گے۔ لاہوری بابو کبھی صوبائی فنانس کمیشن کا اجلاس نہیں بلاتے جس کا کام 36 اضلاع میں سات سو ارب روپوں کو تقسیم کرنا ہے۔ سب کچھ لاہور پر لگ رہا ہے۔ ابھی لاہور کے نواح میں اربوں روپے کے خرچ سے ایک ہزار ایکڑ پر گارمنٹس سٹی بن رہا ہے۔ کاٹن سرائیکی علاقے پیدا کرتے ہیں‘ منصوبے یہاں بن رہے ہیں۔ بیروزگاری وہاں بڑھ رہی ہے‘ طالبان وہاں پیدا ہورہے ہیں، نوکریاں یہاں پیدا کی جارہی ہیں۔
ان چولستانی بچیوں کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے ایک کارڈ لکھ کر بھیجا کہ ان کا حق انہیں دیا جائے۔ یہ تو 5500 بچیاں ہیں‘ میں بے چارہ تو ڈیرہ غازی خان کے سات سو معذور بچوں کے سکول کی ان گیارہ استانیوں کی مدد نہیں کر سکا تھا جنہیں لاہوری بیوروکریسی نے نوکریوں سے نکال دیا تھا کہ ان کے بقول ایک لاکھ روپے کے فنڈز نہیں تھے۔ نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی سے ملا تھا‘ مگر موصوف بھی کچھ نہ کر سکے۔ چیف سیکرٹری ناصر کھوسہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ان گیارہ استانیوں کو تنخواہ مل سکے۔ جو کچھ پنجاب کو مل رہا ہے وہ صرف لاہور کے لیے ہے‘ جہاں قانون سمجھدار بھی ہے اور خاموش بھی رہتا ہے۔ یہاں وزیراعلیٰ کے لیے آٹھ کروڑ روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں، چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی اور پارلیمانی سیکرٹریز کے لیے 80 نئی گاڑیاں خریدنے کے پیسے ہیں۔ لیکن ان گیارہ استانیوں اور ان چولستانی بچیوں کے سکولوں کے لیے نہیں ہیں !
خوشی اس بات کی ہے کہ آخر جنوبی پنجاب کے حق کے لیے آوازسرائیکی کے عظیم شاعر خواجہ فرید کے محبوب صحرا سے گونجی ہے۔ اسلام آباد اور لاہور میں جاری سیاستدانوں اور بابوئوں کی لوٹ مار سے بے خبر چولستان کے صحرا میں کھلے آسمان تلے بیٹھی یہ بچیاں اپنا حق مانگتی ہیں!!
ساڈا حق ، ایتھے رکھ !