تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     29-01-2014

دہشت گردی اور ملکی سالمیت

گزشتہ چند دنوں سے ملک کے مختلف حصوں میںجس طرح دہشت گردی کے پے درپے واقعات رْونما ہوئے ہیں، اْن کی وجہ سے سب کی نظریں حکومت پر لگی ہوئی ہیں ، اس لیے کہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری بنیادی طور پر حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاکر لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ لیکن اب تک کیے گئے اقدامات کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے اور اْس میں کوئی بھی فیصلہ کْن قدم اْٹھانے کی سکت نہیں ہے۔ یہ صورتِ حال مایوس کْن بھی ہے او رخطر ناک بھی ، اس لیے کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے جو ریاستی وسائل درکار ہیں وہ صرف حکومت کے پاس ہیں اور عوام نے اپنے ووٹوں سے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی رِٹ قائم کرنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لائے۔ اس کے باوجود اگر حکومت اپنے بنیادی اور سب سے اہم فریضے کی ادائیگی میں ناکام رہتی ہے تو سترہویں صدی کے مشہور سیاسی فلسفی تھامس ہابس(Thomas Hobbes)کے مطابق لوگ اپنی بقاء کی خاطر طاقت اور قوت کے متبادل مراکز کی طرف سے رجوع کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ یہ متبادل قوت اندرونی بھی ہوسکتی ہے اور بیرونی بھی۔ جہاں تک اندرونی طور پر کسی ایسی متبادل قوت کی موجودگی کا سوال ہے، تحریک طالبان اور اْس سے منسلک دہشت گرد اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے علاوہ کوئی اور قوت نظر نہیں آتی کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ ملک پر اس وقت دہشت گردوں کا راج ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا ، اس لیے کہ یہی وہ عناصر ہیں جو بلا روک ٹوک اور بغیر کسی ڈر اور خطرے کے، پاکستان کے ہر علاقے ، ہرقصبے اورہر شہر میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ ریاستی ادارے جن میں فوج،پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیاں شامل ہیں ، ان کے سامنے بے بس نظرآتی ہیں۔ بنوں چھائونی کی حدود کے اندر تحریک طالبان پاکستان نے ایف سی کے کانوائے میں بارود سے بھری گاڑی کو دھماکے سے اْڑا کر جس طرح فوجی جوانوں کو شہید کیا،اس سے اِس کالعدم دہشت گرد تنظیم کی منصوبہ بندی اور اْس پر عمل درآمد میں مہارت کا پتا چلتا ہے۔اس سے اگلے دن راولپنڈی میںجی ، ایچ،کیو کی دہلیز پر بم دھماکہ کر کے اْنہوں نے ثابت کیا ہے کہ کوئی جگہ اْن کی دسترس سے باہر نہیں۔ لیکن سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی موثر ردِعمل سامنے نہیں آیا؛ بلکہ جو کارروائی کی گئی ہے وہ بھی بالکل غیر موثر نظر آتی ہے۔ 
دہشت گردوں کی کارروائیاں کم ہونے کی بجائے ان کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جارہا ہے۔ مخالف سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں اور سکیورٹی فورسز کے اراکین کے علاوہ چھوٹے لسانی گروپوں، اقلیتی فرقوں ،مقتدر مذہبی شخصیتوں،سکول کے بچوں،انسداد پولیو مہم میں شامل رضا کارمردوں اور عورتوں اور صحافیوں کو بھی چْن چْن کر قتل کیا جارہا ہے اور برملا ان وارداتوں کی ذمہ داری قبول کی جارہی ہے۔دہشت گردوں کی جانب سے ایک کھلی جنگ (All Out War)شروع ہوچکی ہے ، لیکن حکومت کی طرف سے موثر جوابی اقدامات کے بجائے اب بھی متضاداور مبہم بیانات جاری کیے جارہے ہیں۔
اس صورت حال سے ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ باہر بھی یہ تاثر تیزی سے جڑپکڑ رہا ہے کہ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے جو ہمت اور دلیری درکار ہے موجودہ حکومت یا تو اْس سے یکسر محروم ہے یا مصلحتاً اْس سے کام لینے سے گریز کر رہی ہے۔ حکومت کے اس بظاہر گومگو اور متذبذب رویے کی وجہ سے پاکستان کے عوام ہی پریشان نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے ایک اہم ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی بڑھتے ہوئے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں 
دہشت گرد کھلے عام اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور جہاں تک حکومتِ پاکستان کا تعلق ہے یا تو اْس میں ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے سکت نہیں یا ان عناصر کی بیخ کَنی کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں۔ حکومت کی بے عملی کی وجہ سے صرف پاکستانی عوام ہی پریشان نہیں بلکہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو وہ اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ بھارت اور افغانستان کو تو ایک عرصے سے شکایت یہ ہے کہ اْن کے ہاں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر پاکستان کی سرزمین کو استعمال کررہے ہیں،اب ایران اور چین نے بھی پاکستان پرزور دینا شروع کردیا ہے کہ وہ اپنے ہاں سے ان ملکوں کے ساتھ ملحقہ سرحدوں کو عبور کرنے والے دہشت گردوں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔گزشتہ برس اکتوبر کے آخری ہفتے میں جنداللہ نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے ہاتھوں مبینہ طورپر 14ایرانی سرحدی محافظوں کی ہلاکت کے بعد ایرانی حکومت نے پاکستان سے باضابطہ درخواست کی تھی کہ وہ ایران کے ساتھ سرحد کی کڑی نگرانی کا اہتمام کرے تاکہ پاکستان سے جنداللہ کے یہ دہشت گرد ایران میں اپنی کارروائیاں نہ کرسکیں۔ ایران میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث 
جنداللہ کے بارے میں ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ اْس نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ نومبر 2013 ء میں ایرانی سرحد سے فائر کیے گئے چند راکٹ بلوچستان کے ضلع کیچ میں بھی گرے تھے جن کی وجہ سے کچھ مکانات بھی تباہ ہوئے تھے۔ان میں سے ایک مکان ایران میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تنظیم جیش العدل کے ایک لیڈر کا بتایا جاتا ہے۔اسی طرح پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پرگلگت بلتستان سرحد پرکڑی نظر رکھنے کے لیے فوجی چوکیاں قائم کرنے کے لیے اقدامات کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ سنکیانگ میں گڑ بڑ کرنے والے عناصر اسی سرحد کو استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی جنگجوئوں کی موجودگی اور ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اْن کی بڑھتی ہوئی شرکت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کا دائرہ جس تیزی سے پھیل رہا ہے اور حکومت کی طرف سے جس طرح بے عملی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس سے یہ مسئلہ بین الاقوامی نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے اور خدشہ ہے کہ اس سے پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف بیرونی مداخلت کا راستہ کھل جائے گاجوڈرون حملوں کی صورت میں پہلے ہی موجود ہے۔ اگر دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے ہاتھ نہ روکے گئے اور پورے ملک میں اْنہیں اسی طرح دندناتے پھرنے کی آزادی حاصل رہی تو ملک کااندرونی امن ہی نہیں اس کی سالمیت، آزادی اور خود مختاری بھی خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved