فوج تیار ہے‘اشارہ ملتے ہی آپریشن شروع کر دے گی...ممنون حسین
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''فوج تیار ہے‘اشارہ ملتے ہی کارروائی شروع کر دے گی‘‘اگرچہ حکومت اشارہ بازی میں یقین نہیں رکھتی کیونکہ یہ شریفوں کا کام نہیں ہے اس لیے فوج کو چاہیے کہ وہ کسی اشارے کا انتظار نہ کرے اور اللہ کا نام لے کر کام شروع کر دے جبکہ اب تک فوج اپنی مرضی سے ہی سارے کام کرتی آئی ہے ، اس لیے مہربانی کر کے ہمیں کسی آزمائش میں نہ ڈالے تاکہ ہم کل کو طالبان سے کہہ سکیں کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا ‘ اس لیے ہم پر ہاتھ ذرا ہولا رکھا جائے‘عین نواز ش ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ''مذاکراتی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا‘‘جس کا ثبوت ہمارے روزانہ کے بیانات ہیں کہ مذاکرات کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مذاکرات کی حجت پوری کر دی ہے‘‘کیونکہ پہلے دن سے ہی ہمارا مقصد حجت پوری کرنا ہی تھا جس کے بعد اب آپریشن ضروری ہو گیا ہے جس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے کیونکہ نتائج تو بصورتِ دیگر بھی کچھ اچھے نہیں نکلنا تھے اور جو صاف نظر بھی آ رہے تھے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
ملکی سلامتی پر نرمی دکھائیں گے نہ کوئی سمجھوتہ قبول کیا جائے گا...نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ملکی سلامتی پر نرمی دکھائیں گے نہ کوئی سمجھوتہ قبول کریں گے‘‘کیونکہ جہاں تک نرمی کا تعلق ہے تو وہ بھی دہشت پسندوں نے ہی دکھانی ہے جو مسلسل مار دھاڑ کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہم اپنی وضعداری کی وجہ سے کچھ نہیں کرتے کیونکہ ہمارا اصل کام سوچ بچار کرنا تھا جو اب تک کرتے چلے آئے ہیں اور اگر اس سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں تو اس میں سوچ بچار کا کوئی قصور نہیں تھا؛البتہ سوچ بچار کی زیادتی کی وجہ سے اُسے بدہضمی ہو گئی ہو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا اور جہاں تک سمجھوتہ قبول کرنے کا تعلق ہے توہم اس کے لیے بھی تیار ہیں لیکن فریق ثانی کی طرف سے تو کسی سمجھوتے کی پیشکش کی بھی کوئی خاص اُمید نہیں ہے کیونکہ وہ ہمارے لیے کچھ چھوڑنا ہی نہیں چاہتے اور اس طرح محض لالچ سے کام لے رہے ہیں ؛ حالانکہ لالچ بہت بُری چیز ہے‘ ہیں جی؟انہوں نے کہا کہ ''عوام ہمارے لیے دُعا کریں‘‘ اگرچہ بات اب دُعا کے مقام سے بہت آگے گزر چکی ہے۔ آپ اگلے روز شریف پیلس میں معروف نعت خواں عبدالرحمن جامی سے گفتگو کر رہے تھے۔
ثبوت ڈھونڈنے والے اندھیرے میں کالی بلی تلاش کر رہے ہیں...گیلانی
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''میرے خلاف کرپشن کے ثبوت ڈھونڈنے والے اندھیرے میں کالی بلی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘جس پر مجھے لوڈشیڈنگ کا مشکور ہونا چاہیے حالانکہ یہ لوگ ٹارچ وغیرہ سے بھی کام لے سکتے تھے بلکہ اب تو موبائل فون میں بھی روشنی کا انتظام ہوتا ہے۔علاوہ ازیں صرف کالی بلّی تلاش کرنے کی بجائے وہ سفید یا دوسرے رنگوں کی بلیوں پر بھی طبع آزمائی کر سکتے تھے کیونکہ خاکسار کے کارہائے نمایاں و خُفیہ ماشاء اللہ ہر رنگ میں موجود ہیں ؛ البتہ مجھے ایم بی بی ایس اس لیے کہا جاتا تھا کہ میرے ہاتھ میں شفا بہت تھی اور عزیزی تو قیر صادق جیسے دائمی مریض میرا ہی نسخہ استعمال کر کے ہٹے کٹے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت کو کالا باغ یا پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا...اسفند یار ولی
اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ ''حکومت کو کالا باغ ڈیم یا پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا‘‘کیونکہ میرے اندازے کے مطابق یہ ڈیم بنتے ہی پاکستان سرے سے ہی کہیں غائب ہو جائے گا جس کی مخالفت میں میرے بزرگوں نے تو بہت زور مارا تھا مگر یہ کم بخت پھر بھی بن کے ہی رہا جس پر دادا جانی نے اس میں دفن ہونے سے ہی انکار کر دیا تھا ؛ چنانچہ ان کی وصیت کی روشنی میں انہیں افغانستان میں سپردِ خاک کرنا پڑا تھا؛چنانچہ ہم تو دعائیں مانگتے ہیں کہ کب کالا باغ ڈیم بنے اور کب ہمارا خواب شرمندہ تعبیر ہو کیونکہ بقول ماموں جان‘جتنی جمع پونجی مجھے زیب دے رہی ہے‘ پاکستان نہ بننے کی صورت میں اس کی مقدار کہیں زیادہ ہوتی اور میں بڑے شوق سے یہاں دفن ہونے کی بھی وصیت کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک نازک دور سے گزر رہا ہے‘‘لیکن یہ بدبخت ابھی تک ایک ہی رفتار سے گزر رہا ہے؛ حالانکہ یہ بد بخت اپنی رفتار تیز بھی کر سکتا تھا تاکہ اس کا کوئی منطقی نتیجہ بھی نکل سکتا،اب اس پر اظہار ِ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ اتوار کو ولی باغ چار سدہ میں اپنی رہائش گاہ پر عبدالغفار خاں کی 26ویں اور عبدالولی خاں کی آٹھویں برسی کے موقع پرمنعقدہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
وضاحت ِ عام
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا عام و خاص مطلع رہیں کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے جو گزشتہ اتوار کو پشاور میں تقریر کرتے ہوئے مذاکرات یا آپریشن کے موضوع پر مشاورت نہ کرنے پر میاں نواز شریف پر کوڑے برسائے تھے ‘ اس کا مطلب صاحب موصوف کی مخالفت نہیں تھا بلکہ یہ یاد دلانا تھا کہ میاں صاحب نے ان کی ترجیحات کا کماحقہ خیال نہیں رکھا ہے اور اس سلسلے میں ابھی اور بہت کچھ کرنا باقی ہے‘ مثلاً اچکزئی صاحب نے جو وفاقی کابینہ میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کابینہ میں توسیع کی ابھی کافی گنجائش موجود ہے اور مولانا سمیع الحق کو مذاکرات کی اجازت واپس لینے سے بھی اس زیادتی کی تلافی نہیں ہوئی جو انہیں یہ کام سونپتے ہوئے روا رکھی گئی تھی ۔ علاوہ ازیں‘ کوڑے برسانے کی بات اس لیے کی گئی ہے کہ ماشاء اللہ طالبان کی عملداری شروع ہونے والی ہے اور کوڑوں کی برسات بھی اس کا لازمی حصہ ہو گی۔
المشتہر: جان اچکزئی ترجمان حضرت مولانا
آج کا مقطع
قافلہ تو یونہی تیّار ہے مُدّت سے‘ظفر
اک ذرا قافلہ سالار کی گنجائش ہے