پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں کو مسلم لیگ (ن) کا ''بولتا پنجاب‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ وہ ٹیلیویژن چینلز کے ٹاک شوز میں بے حد مقبول ہیں۔ بیشتر خبرناموں میں اہم خبروں پر ان کے تبصرے لیے جاتے ہیں ، اخباری بیانات ان کے علاوہ ہیں۔ وہ جملے تراشنے اور الفاظ کے دروبست میں اچھی مہارت رکھتے ہیں۔ حکومتی موقف موثر طریقے سے پیش کرنے میں پارٹی کے اندر کوئی ان کا ثانی نہیں ۔ گزشتہ روز انہوں نے اچانک عالمی میڈیا میں قدم رنجہ فرما دیا۔ ''گارڈین‘‘ لندن کے جون بون نے لاہور میں ان سے انٹرویو کیا۔ جب اس کی تفصیلات ٹیلیویژن چینلز پر دکھائی گئیں تو چاروں طرف دھوم ـ 3 مچ گئی۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ رانا صاحب لاگریجوایٹ ہیں ، یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ انگریزی میں بھی اپنے خیالات کا اظہار چابک دستی سے کر سکتے ہیں۔ مجھے انگریزی زبان کی اتنی سدھ بدھ نہیں کہ میں حسن بیان کی خو بیاں اور نزاکتیں سمجھ پائوں ، لیکن اس انٹرویو کی اشاعت اور ریڈیو اور ٹیلیویژن پرنشریات کے بعد چرچے ہوئے تویوں لگا جیسے ملکی میڈیا کے بعد عالمی میڈیا کو بھی ایک سٹار مل گیا ہو۔
بی بی سی نے اس انٹرویو کی بنیاد پر جو خبر جاری کی‘ پہلے اسی پر نظر ڈالتے ہیں۔ پوری رپورٹ نقل کرنا تو مشکل ہے‘ چند منتخب جملے پیش کر رہا ہوں۔ گارڈین کو دیے گئے انٹرویو کے حوالے سے بی بی سی نے رانا صاحب سے منسوب یہ الفاظ دہرائے کہ ''طالبان کے خلاف کارروائی کا وقت آ گیا ہے۔ پاکستان ہنگامی بنیادوں پر شدت پسند کارروائیوں میں اضافے کو روکنے پر مجبور ہے‘‘۔ انہوں (رانا ثناء اللہ) نے کہا ''شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ، لیکن فوج طے کرے گی کہ آپریشن کس قسم کا کیا جائے؟ ‘‘ ڈرون حملوں کے بارے میں جو کچھ رانا صاحب سے منسوب کیا گیا‘ مجھے تو اس میں کوئی مبالغہ نظر نہیں آتا۔ یہ شک ضرور کیا جا سکتا ہے کہ رانا صاحب نے اپنی منصبی ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ بات اس طرح نہ کی ہو جیسے شائع کی گئی۔ بہرحال ان کے نام سے جو باتیں لکھی گئی ہیں‘ دروغ برگردن راوی رکھتے ہوئے‘ نقل کر رہا ہوں: ''پس پردہ سب کو معلوم ہے کہ ڈرون حملے فائدہ مند ہیں ، لیکن بعض افراد اس کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ ڈرون امریکی ہیں‘‘۔ شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے جو متنازعہ تحفظ پاکستان آرڈیننس جاری ہوا تھا‘رانا صاحب نے اس کا دفاع کیا اور کہا کہ'' اس قانون کو حزب اختلاف کے بعض سیاسی رہنما ظالمانہ سمجھتے ہیں‘ جو ملک کو ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل کر دے گا۔ اس قانون کے تحت بغیر وارنٹ چھاپے مارنے اور مشتبہ افراد کو 3مہینے تک بغیرکسی الزام کے حراست میں رکھنے کی اجازت ہے‘‘۔ رانا ثناء اللہ نے کہا ''یہ قانون 10 سال پہلے بننا چاہیے تھا ، اگر اس کا 5 فیصد غلط استعمال ہو‘ ہمیں تب بھی اس کی حمایت کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر آپ دہشت گردوں سے نہیں لڑ سکتے‘‘۔ مشتبہ افراد کو دوران حراست ٹارچر کرنے کے خدشے پر رانا صاحب نے جواب دیا ''میرے خیال میں جو بھی ہو گا‘ اتنا برا نہیں ہو گا جو گوانتاناموبے میں ہوا‘‘۔ مجھے معلوم نہیں رانا صاحب نے اپنے انٹرویو کے کون کون سے حصے کی تردید کی؟ مگر گوانتاناموبے والے جملے کی کاٹ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ایسا برجستہ جواب راناثناء اللہ کا ہی ہو سکتا ہے۔''گارڈین‘‘ نے تجزیہ کاروں کے اس شک کا بھی ذکر کیا کہ پاکستان کی حکمران جماعت ن لیگ‘ شدت پسندوں کے خلاف کبھی مربوط کارروائی بھی کرے گی؟ اگلی بات رانا ثناء اللہ بہرحال نہیں کر سکتے۔ یہ بات ان پر تھوپی گئی لگتی ہے کہ ''پی ایم ایل صرف مراعات یافتہ پنجاب کو تشدد سے بچانے میں دلچسپی رکھتی ہے‘‘۔ سچی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں ، مثلاً رانا صاحب سے منسوب ان انکشافات پر کس کو یقین آئے گا کہ ''حکومت کو اپنی نئی پالیسی پر عملدرآمد شروع کرنے کے لیے تین اہم عہدوں پر فائز افراد کے ریٹائر ہونے کا انتظار تھا۔ان میں سابق صدر آصف علی زرداری‘ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور فوج کے سابق سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی شامل ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا ''اگر جسٹس افتخار چودھری اب عدالت میں ہوتے‘ تو وہ دوسرے ہی دن تحفظ پاکستان آرڈیننس کو رد کر دیتے‘‘۔ رانا صاحب نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 6سال تک پاکستانی فوج کے سربراہ رہنے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ طالبان کے خلاف کارروائی کے لیے راضی نہیں تھے‘‘۔ رپورٹر نے اپنی طرف سے اضافہ کیا کہ'' عسکری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جنرل کیانی عدم کارروائی کی وجہ سے مایوس تھے‘‘۔ بی بی سی نے رانا صاحب کے حوالے سے یہ الفاظ بھی نقل کیے کہ ''پنجاب کو محفوظ بنانے کے لیے 174مقامات پر کارروائی کی جائے گی‘ جہاں پشتون آباد ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ شدت پسند پنجاب میں جوابی کارروائیاں کریں گے‘‘۔
''گارڈین‘‘ میں شائع شدہ انٹرویو اوربی بی سی اردو ویب سائٹ پر اس کا خلاصہ دونوں کو پڑھنے کے بعد ‘ پاکستان کے حالات سے باخبر کوئی بھی شخص آسانی سے قیاس کر سکتا ہے کہ یہ باتیں کسی نہ کسی انداز میں کہی ضرور گئی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے بعض باتیں کہنے کے بعد انہیں آف دی ریکارڈقرار دیا گیا ہو۔ہم پاکستانی صحافی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ رانا صاحب کو اپنے انٹرویو کی تردید یا وضاحت کیوں کرنا پڑی؟ اس کی وجہ ان کی صوبائی ذمہ داریاں ہیں۔ وہ پنجاب مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار اور پنجاب ہی کے وزیر ہیں۔ انٹرویو ان سے قومی مسائل پر لیا گیا اور انہوں نے اظہار خیال بھی کر دیا۔ لگتا ہے کہ انٹرویو کی اشاعت کے بعد رانا صاحب کے شوقیہ مخالفین نے ‘ ان کی باتیںبڑھا چڑھا کربلکہ رنگ روغن لگا کر پھیلائی ہوںاور رانا صاحب نے بلا وجہ سینگ پھنسانے کے بجائے‘ تردید کر کے جان چھڑانے کی کوشش کی ہو۔ مگر میں اپنی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ رانا صاحب کے انٹرویو میں حقائق بیان کیے گئے ہیں ، یہ اور بات ہے کہ ہمیں سچائی ہضم نہیں ہوتی۔ حکومتی معاملات میں جھوٹی اور گمراہ کن باتیں کرنافرض منصبی سمجھا جاتا ہے۔ ورنہ جو کچھ رانا صاحب نے مبینہ طور پر کہا ہے‘ نہ صرف یہ کہ اس میں سچائی کا اوسط دیگر لیڈروں اور وزیروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور اگر ان کے انٹرویو کو مشرق و مغرب کے بادشاہ‘ چودھری نثار علی خان کے بیانات اور نیوز بریفنگز کے تقابل میں دیکھا جائے تودل چاہتا ہے کہ ن لیگ کی قیادت کو مشورہ دیا جائے کہ دونوں وزیروں کی کرسیاں بدل دینا بہتر ہو گا۔ رانا صاحب وفاقی وزارت کی کرسی پر بیٹھیں اور مشرق و مغرب کے بادشاہ صوبائی وزارت کی کرسی پر۔یہاں شہبازشریف موجود ہیں‘ جو چودھری صاحب کے ''مذاکرات فوبیا‘‘کا علاج کر سکتے ہیں۔ رانا صاحب‘ میڈیا کا سامنا ہوشمندی اور زندہ دلی سے کرتے ہیں۔میں جانتا ہوں ‘ ایسا ہو نہیں سکتا۔ لکھنے میں کیا ہرج ہے؟ رانا ثناء اللہ کی صلاحیتوں پر بات کرنالاحاصل ہے۔ میڈیا میں ان کی پذیرائی دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی قدروقیمت کیا ہے؟ رانا صاحب کے ہاتھ میں نہ تو میڈیا کو اشتہارات دینے کا اختیار ہے نہ وہ کسی کو فائدے پہنچانے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ وہ میڈیا پر دبائو ڈال سکتے ہیں ، اس کے باوجود اگر میڈیا والے مسلسل ان کی کوریج کرتے ہیں‘ تو یہ صرف ڈیمانڈ اور سپلائی والا معاملہ ہے۔ ناظرین اور قارئین‘ جسے زیادہ دلچسپی سے سنتے اور پڑھتے ہیں‘ میڈیا اسی کو جگہ دیتا ہے۔ البتہ کوریج کی وجوہ مختلف ہوتی ہیں۔ بعض شخصیتیں ٹھوس اور سنجیدہ باتیں ‘ خوبصورت اور دلنشین انداز میں کرتی ہیں اور بعض کی باتیں تفریح طبع کے لیے موزوں ہوتی ہیں۔ میڈیا کے لیے دونوں مال اچھے ہیں۔۔۔ رانا ثناء اللہ بھی اور شیخ رشید بھی۔شیخ صاحب کا نام آئے تو گدگدی کرنے کو دل ضرور مچلتا ہے ، مگر میں یہ سوچ کر چپ سادھ لیتا ہوں کہ شیخ صاحب پہلے ہی سیاسی قید تنہائی کاٹ رہے ہیں۔ شہیدوں سے مذاق کرنا اچھا نہیں ہوتا۔