تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     30-01-2014

خاموش قاتل

کہاجاتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی کل آبادی19 کروڑ ہے‘ ان میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت‘ جس سے ہم تجارت کی ان گنت راہیں کھولنا چاہتے ہیں اور ویزے کی پابندیوں کو ختم کرنے کی آرزو رکھتے ہیں‘ نے اپنی گیارہ لاکھ سے زائد با قاعدہ اور پانچ لاکھ کے قریب ریزرو فوج کے ہوتے ہوئے پاکستان کی آزاد کشمیر کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر‘ پہلے سے موجود پہاڑی فوج کے با وجود‘ حال ہی میں ایک نئی'' مائونٹین سٹرائیک فورس‘‘ بنا لی ہے‘ جسے بھارت کی بری فوج میں17 کور کا نام دیا گیا ہے۔ اگر کسی کے پاس ہمت اور وقت ہو تو ہمارے حکمرانوں سے پوچھے کہ جناب یہ سترھویں بھارتی اضافی مائونٹین کور کس لیے؟ دیکھنے اور سننے والے بھولے تو نہیںہوں گے کہ 1962ء کی چین بھارت جنگ کے بعد امریکہ سمیت مغربی ممالک نے بھارت کو یہ کہتے ہوئے اسلحہ سے لاد دیا تھا کہ ہمارا یہ اسلحہ پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ صرف اور صرف کمیونسٹ ممالک کے خلاف استعمال ہو گا‘ لیکن سب نے دیکھا کہ یہی مغربی اور امریکی اسلحہ 1965ء اور1971ء میںپاکستان کے خلاف بھر پور استعمال ہوا۔ 
ہمیں تجارت کی بھول بھلیوں والی راہداریوں میں گم کرنے اور ویزے کی پابندیوں سے آزاد کرانے کے خواب دکھانے والوں کو علم ہو گا کہ انسانی جسم میں دوڑنے والا خون جب اپنی مقررہ رفتار سے بڑھنا شروع ہو جائے تو اسے فشارِ خون کے نام سے پکارا جاتا ہے اور اس کے بارے میں ماہرین طب وارننگ دیتے ہیں کہ اسے معمولی نہ سمجھا جائے‘ یہ انتہائی مہلک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے اور یہ در اصل خاموش قاتل ہے‘ اگر اس کا مناسب علاج نہ کیاجائے یا احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو فشارِ خون ایک دن چپکے سے اچھے بھلے انسان کو موت کی وادیوں میں پہنچا دیتا ہے اور اگرکوئی وقتی طور پر موت سے بچ بھی جائے تو فالج، برین ہیمرج اور گردوں کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہمیشہ کیلئے ناکارہ اور اپاہج ہو سکتا ہے ۔لگتا ہے کہ پاکستان کے دشمن خاموشی سے اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو اس حالت تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں‘ جبکہ بے خبر پاکستانی خوش کن دعوئوں ، یوتھ قرضوں، لیپ ٹاپ کی چمک دمک، میٹرو اور پلوں کے خواب دیکھنے اور دکھانے میں گم ہیں۔ انہیں خبر اس وقت ہو گی جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر کر ان کے گھروں اور چار دیواریوں کے اندر داخل ہو چکا ہو گا۔ 
بلوچستان میں پچاس‘ خیبر پختونخوا میں چالیس‘ سندھ میں پچیس اور پنجاب میں بیس سے زیادہ سکیورٹی فورسز اور عوام کی لاشیں دہشت گردوں نے صرف ایک دن میںتنکوں کی طرح بکھیر کر رکھ دیں اور یہ سلسلہ نہ جانے کب سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا؟ کیا اسے سکیورٹی کی ناکامی کہا جائے یا ملک بھر کی خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز کی نا اہلی سمجھ لیا جائے؟ اسے فیصلہ کرنے کی کمزوری سمجھا جائے یا فیصلہ کن اقدام کرنے کی صلاحیت سے محرومی؟ سکیورٹی فورسز کی جانیں اور سکیورٹی اداروں کی کمانیں دونوں ایک ایک کرکے کم کی جا رہی ہیں اور ایسا کرنے والے کون ہو سکتے ہیں؟ کیا کوئی ایسی طاقت ہے جو خاموش بیٹھی اس منصوبے پر عمل کر رہی ہے جس کا مقصدپاکستان کی فوج اور اسلحہ میں بتدریج کمی کرنا ہے؟ ایک طرف ہمارا دشمن آزاد کشمیر‘ گلگت کی طرف سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے پہلے سے موجود مائونٹ کور کے ہوتے ہوئے نئی ''سٹرائیکنگ کور‘‘ کھڑی کر رہا ہے‘ دوسری طرف مملکت کے اثاثوں کو ایک ایک کر کے اپنے خون آشام جبڑوں میں چبایا اور ہڑپ کیا جا رہا ہے۔ جب کراچی میں مہران بیس پر حملہ کیا گیا تو '' دہشت گردوں ‘‘ کا نشانہ سکیورٹی فورسز نہیں بلکہ اس ملک کی آنکھیں اور کان تھے۔ دہشت گردوں نے وہاں کھڑے ہوئے جن دو جہازوں کو تباہ کیا وہ امریکہ سے پاکستان کی تنصیبات کی نگرانی کے لیے خریدے گئے تھے اور صرف ایک طیارے کی قیمت 36 ملین ڈالر یعنی 3 بلین پاکستانی روپے تھی۔ یہ اس اعتبار سے پہلا سانحہ تھا اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس وقت تک پاکستان کو ہونے والا سب سے بڑا مالی نقصان تھا۔ ان طیاروں کی تباہی دیکھنے کے بعد بلا شبہ ایک ہی منظر سامنے آتا تھا کہ دشمن نے اپنی فضائی بمباری سے بحری فوج کے کسی مستقر کو نشانہ بنایا ہے۔ ملک کو اس سے قبل اتنا بڑا چیلنج کبھی درپیش نہیں ہواتھا اور یہ اپنی نوعیت کا سب سے تکلیف دہ حملہ تھا۔ اس کے بعد کامرہ ایئر بیس پر یکے بعد دیگرے دو حملے اس سے بھی زیا دہ تکلیف دہ تھے ۔
چند ماہ بعد اپریل مئی میں بھارت میں نئے عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ بھارت کی تاریخ کا یہ اہم ترین انتخابی مرحلہ ہے جس میں جنتا پارٹی کی جانب سے ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے جو مسلم دشمنی کے حوالے سے دنیا بھر میں بد نام ہے اور اپنی وزارت اعلیٰ کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے گجرات میں تین ہزار سے زائد مسلمان بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں کو تہہ تیغ کروانے کا ذمہ دار ہے۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قتل عام پر چیخ اٹھیں اور امریکہ نے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے لیے امریکہ کے ویزے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ بھارتی انتخابات سے چند ماہ قبل کانگریس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی ہے اور حالات واقعات بتا رہے ہیں کہ نریندر مودی جیسا پاکستان دشمن شخص بھارت کا فیصلہ ساز بننے والا ہے اور پاکستان کے بارے میں اس سے کچھ بھی بعید نہیں۔ بیرونی دشمن اور ملک میں موجود ان کے اندرونی ایجنٹوں کا پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو ختم کرنے اور ملکی دفاعی تنصیبات کو تباہ کرنے کے حوالے سے اتحاد پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اور یہ بات اب ہر محب وطن اور حالات کو دیکھنے اور سمجھنے والے کی زبان پر آ چکی ہے کہ دشمن کا اولین مقصد ہمارے سکیورٹی اور دفاعی نظام کو تباہ کرنا ہے۔ سوات میں فوجی چھائونی کے قیام کا فیصلہ گو کہ بہت دیر بعد کیا گیا لیکن یہ وقت کی اہم ترین ضرورت تھی اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ سوات اور اس سے ملحقہ علا قوں کے لیے کم ازکم ایک نیا سٹرائیکنگ مائونٹین ڈویژن کھڑا کرے۔ 
حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعدمولوی فضل اﷲ کے امیرِ تحریکِ طالبان پاکستان بننے کے چند دنوں بعد ملک بھر کے قانون نافذکرنے والے اداروں اور فوج کے مراکز کو نشانہ بنانے کا عمل یک لخت اس قدر تیز کیوں کر دیا گیا ہے ؟مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ پے در پے حملوںکے ذریعے پولیس ، خاصہ دار فورس ، ایف سی اور لیویز پر مشتمل پاکستانی فوج اور سول انتظامیہ کی مدد کرنے والی سکیورٹی فورسز کا مورال اس قدر گرا دیا جائے کہ وہ گھروں اور بیرکوں سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے نکلتے ہوئے ملکی تنصیبات کی حفاظت کی بجائے اپنی جانیں بچانے کی فکر میں پڑ جائیں۔ کیا ہم سب اپنے گھر کی آخری دیوار گرنے کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جن کے نزدیک دلی بہت دور تھی؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved