سارہ اپنے خاندان کی سب سے قابل اور ذہین لڑکی تھی۔ دلکش شخصیت اور خوب صورت نقش و نگار، دمکتی رنگت پر ستارہ آنکھیں اُسے ہجوم میں نمایاں کرتیں ۔ پانچ بہن بھائیوں میں بڑی اور زندگی کے لیے بھی بڑے بڑے خواب دیکھتی ۔ ڈاکٹر بن کر اپنے کلرک والد کا سہارا بننا چاہتی تھی۔ دِن رات ایف ایس سی میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کے لیے پڑھائی میں مگن رہتی۔ انہی دِنوں خاندان سے اُس کے لیے ایک رشتہ آیا۔ والد نے انکار کر دیا کہ میری قابل اور ذہین بیٹی کے لیے میٹرک فیل ، آوارہ مزاج لڑکے کا رشتہ کسی طور مناسب نہیں۔ وہ انکار کر کے مطمئن ہو گئے اور سارہ اپنی پڑھائی میں پہلے سے بھی زیادہ محنت کر نے لگی۔وہ گھر سے کالج اور پھر اکیڈیمی پبلک بس سے ہی جاتی۔ ایک دن سارہ کی زندگی میں بھیانک حادثہ ہوگیا ۔ وہ صبح گھر سے کالج کے لیے نکلی ، اُس نے حسب معمول بڑی سی سفید چادر اوڑھ رکھی تھی۔ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی وہ بس سٹاپ پر پہنچنے ہی والی تھی کہ اُس نے نوٹ کیا کہ اُس کے گرد ایک موٹر سائیکل بار بار چکر لگا رہی ہے۔ اُس نے خوف زدہ ہو کر تیز قدموں سے چلنا شروع کر دیا ۔ اچانک موٹر سائیکل سارہ کے قریب آئی اور اُس پر سوار درندے نے تیزاب کی بوتل اس پر انڈیل دی۔سارہ کو لگا جیسے آگ سے بھرا محلول اُس کے چہرے پر ڈال دیا گیا ہو۔درد کی شدت سے اُس کی دلخراش چیخوں سے آسمان لرزنے لگا۔ اُسے ہوش آیا تو وہ ایک ہسپتال کے برن وارڈ میں تھی۔ اُس کے سارے جسم پر سفید چادر ڈال دی گئی تھی۔ سارہ کے ساتھ ہونے والے اس حادثے کے محرکات بھی عِلم میں آ چکے تھے۔اس پر تیزاب اُسی آوارہ مزا ج لڑکے نے پھینکا تھا جس کے رشتے سے اُس کے والدین نے انکار کردیا تھا۔
اس حادثے کی ایف آئی آر قریبی تھانے میں درج کرا دی گئی تھی۔ لڑکا روپوش ہوگیا، اُس کے گھر والے بھی گھر تبدیل کر کے کسی انجان مقام پر منتقل ہوگئے ۔ سارہ 18برس کی تھی جب اس بھیانک حادثے کا شکار ہوئی۔ 12برس میں بیس مختلف قسم کی سرجریز سے گزرنے کے باوجود وہ آئینے میں اپنے پُرانے خدوخال تلاش کرتی جو تیزاب کی نذر ہوگئے تھے۔ 28برس کی سارہ اب ایک زندہ لاش کی مانند تھی۔ تیزاب نے اُس کے چہرے کے ساتھ ساتھ اُس کے خوابوں اور آرزوئوں کو بھی جھلسا ڈالا تھا ، اُس کی روح تک جھلس چکی تھی۔ اُس کی ماں نے اُس کے کمرے میں آئینہ رکھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ اُس کی ستارہ آنکھیں اور خوب صورت نقش و نگار تیزاب میں پگھل کر خوفناک ہیئت اختیا رکر چکے تھے۔ سارہ کی زندگی کو عذاب کرنے والا درندہ صفت شخص آزاد تھا۔
یہ کہانی صرف سارہ کی نہیں ، ہر اُس لڑکی کی ہے جو تیزاب گردی جیسے بہیمانہ جُرم کا شکار ہوتی ہے۔ سارہ کی کہانی اس لیے یاد آئی کہ آج کے اخبار میں لاہور کی جواں سال لیکچرر ہما شاہد پر تیزاب پھینکنے کا واقعہ رپورٹ ہوا ۔ خبر پڑھ کر روح تک کانپ گئی۔ لیکچرار ہما کی 10روز بعد شادی ہونا تھی۔ ظالموں نے اُس کے چہرے کو تیزاب سے جھلسا کر زندگی بھر کے عذاب سے دوچار کر دیا ہے۔ آئے دِن ایسے واقعات اخبار میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ چند روز پہلے ایک خبر آئی کہ ایک درندہ صفت شوہر نے بیٹی پیدا ہونے پر اپنی بیوی کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔ ایسے مجرم ، اتنا قبیح جُرم کرنے کے بعد بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ تیزاب گردی کے حوالے سے فاخرہ یونس کا واقعہ دل دہلا دینے والا ہے جس نے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور سِول سوسائٹی کو متحرک کیا کہ اس قبیح جُرم کے خلاف ٹھوس قانون سازی کی جائے۔ فاخرہ ، مصطفی کھر کے بیٹے بلال کھر کی سابق بیوی تھی جو اپنے شوہر کے ظلم کا شکار ہوئی۔ اٹلی کے شہر روم میں اس کی کم و بیش 40سرجریز ہوئیں لیکن اُس کا چہرہ واپس نہ آ سکا ۔ فاخرہ لمحہ لمحہ عذاب سہتے تھک گئی تو اُس نے 17مارچ کو خودکشی کر لی۔
جہاں تک تیزاب گردی کے حوالے سے قانون سازی کا تعلق ہے ، وقتاً فوقتاً اس پر قانون سازی بھی ہوئی ، اس میں ترامیم بھی ہوئیں ، لیکن اصل مسئلہ قانون پر عملدرآمد کرنے کا ہے۔ ایسڈ کنٹرول اینڈ ایسڈ کرائم پری وینشن بل 2010ء میں پاس ہوا۔ قومی اسمبلی میں ماروی میمن اور ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ نے 9پارلیمنٹرینز کے ساتھ مل کر Acid throwing and burn crime bill 2012 پیش کیا جس میں کہا گیا کہ اس جُرم کی سزا موت ہونی چاہیے۔اس سطح کی قانون سازی کے باوجود پاکستان میں نہ تو تیزاب کی کھلے عام فروخت رُکی اور نہ ہی تیزاب گردی کے واقعات کم ہو ئے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں سرِفہرست ہے جہاں یہ سنگین جُرم سب سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش نے اس حوالے سے بہترین قانون سازی کی جس کی بدولت وہاں تیزاب گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی۔ وہاں تیزاب گردی کے جُرم کے لیے خصوصی ٹربیونل بنائے گئے جن کے ذریعے 90دن کے اندر اندر مجرم کو قرار واقعی سزائیں دیں۔ 2003ء میں تیزاب گردی کے 416 واقعات رپورٹ ہوئے تو خصوصی قانون سازی اور سزائوں پر عملدرآمد کے بعد 2012ء میں اس جرم کے 84کیسز سامنے آئے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون سازی پر عملدرآمد ہو۔ ایسے درندوں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں جو اس مذموم اور قبیح فعل سے دوسروں کی زندگیوں کو مسلسل عذاب اور تکلیف سے دوچار کرتے ہیں ۔ تیزاب گردی کا شکار ہونے والی 70فیصد خواتین ہوتی ہیں۔بیس پچیس روپے میں ملنے والی تیزاب کی ایک شیشی‘ ایک انسان کو کس اذیت اور عذاب سے دوچار کرتی ہے ، اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو بدقسمتی سے اس جُرم کا شکار ہوا ہو ۔ سچ تو یہ ہے کہ میں تیزاب گردی کا شکار ہونے والی تمام مظلوم خواتین کے لیے جو محسوسات رکھتی ہوں انہیں لفظوں میں ڈھالنا مشکل لگ رہا ہے‘ اُس کی آنچ سے لفظوں کے معنی پگھلنے لگتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب اس ایشو پر سخت اقدامات کریں۔ تیزاب کی کھلے عام فروخت پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ صرف حکومت کے رجسٹرڈ ادارے ہی تیزاب فروخت کریں اور ہر ایرے غیرے کے لیے اس خطرناک محلول کوخریدنا ممکن نہ ہو ۔اگر پھر بھی تیزاب گردی کا واقعہ ہو تو مجرم کو ایسی کڑی سزا دی جائے کہ لوگ عبرت پکڑیں اور کسی کو یہ جرأت نہ ہو کہ بیس روپے کی تیزاب کی شیشی خرید کر قیمتی زندگیوں کو بے چہرہ زندگی کی لامتناہی اذیت سے دوچار کردیں۔