تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     30-01-2014

طالبان سے مذاکرات

ہر روز وہ ان گرد آلود گلیوں سے گزرتے ۔ شکل و صورت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، قیمتی مگر میلے کچیلے لباس اور بال بکھرے ہوئے۔ سب سے عجیب وہ نعرہ تھا، جو وہ مل کربلند کرتے ''اپنے بچّے قتل کرالو‘‘۔ لوگ حیرت اور خوف سے ان سے سوال کرتے کہ کیا وہ پاگل ہیں ؟ اس پر وہ کہتے کہ پہلے ہم واقعی دیوانے تھے ،اب ٹھیک ہو چکے ہیں ۔بہت سے لوگوں کے لیے وہ حیرانی کا باعث تھے لیکن مجھے ان کی کہانی معلوم تھی ۔وہ سب ریاست پر حملہ آور گروہ کی بڑھ چڑھ کر حمایت کیا کرتے؛ حتیٰ کہ ان کے اپنے اہل و عیال بم دھماکوں میں مارے گئے ۔ اب ان کا استدلال یہ تھا کہ معاشرے میں دہشت گردوں کی حمایت اسی طرح موجود ہے ۔کسی کو یقین نہیں تو سوشل میڈیا کا ایک سرسری سا جائزہ لے کر دیکھے ۔ وہ یہ کہتے تھے کہ جب تک ہر ایک گھر میں کم از کم ایک لاش نہ گرے گی، قوم یکسو ہو گی اور نہ پولیس اور فوج کی پشت پناہی کرے گی۔ بیچارے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے ، کوئی انہیں کیا کہتا۔ 
مذاکرات یا آپریشن ؟ ملک بھر میں بحث چھڑی تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ چودہ پندرہ برس کا وہ نوجوان عمر اس معاملے میں سب سے زیادہ جانتا تھا۔ مجھے ایک بار اس نے یہ کہا تھا ''آپریشن اور مذاکرات دونوں‘‘۔ اس پر میں نے حیرت سے اسے دیکھا تو مزے لے لے کر اس نے بتایا کہ پہلے ہوگا شمالی وزیرستان میں آپریشن ۔ اس کے بعد بات انہیں سمجھ آنی شروع ہوگی اور ان میں سے کافی گروہ میز پر آبیٹھیں گے ۔ شرائط طے ہوں گی اور معاہدہ لکھا جائے گا۔ بعض اپنے قول سے پھر جائیں گے اور حملے جاری رکھیں گے ۔ ان کے خلاف پھر کارروائی ہوگی ۔ میرے کان میں اس نے کہا کہ یہ عفریت سالوں میں اتنا طاقتور ہوا اور سالوں ہی میں مرے گا۔ اس دوران ہمیں پولیس، انٹیلی جنس اور عدالتی نظام میں اسقام دور کرنا ہوں گے ۔ اس پر میں نے کہا کہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہی نے تو یہ دن دکھایا ہے ۔ سگریٹ کا ایک طویل کش لے کر اس نے یہ کہا ''وہ عالمی طاقت جو دن دیہاڑے ہمارے دو درجن فوجی شہید کر سکتی ہے اور جس کے ریمنڈ ڈیوس لاشیں گراتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں ، وہ رات کے اندھیرے میں کیا کچھ نہ کرتی ہوگی ۔ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کے لیے افغان حکومت پر دبائو بڑھانا مقصود ہو تو حکیم اللہ محسود کا دستِ راست لطیف اللہ محسود افغان ایجنسی سے چھین لیا جاتاہے ۔ ذرا سوچو کہ افغانستان کی حکومت چھپ چھپا کے کیا کیا گُل نہ کھلاتی ہوگی ۔ کبھی پھوٹی کوڑی خرچ نہ کرنے والا ہندو بنیا پاک افغان سرحد کے قریب پشاور سے کوئٹہ کے متوازی ہائی وے تعمیر کررہا ہے ۔ دوحہ مذاکرات میں شرکت کے لیے جس پر وجد طاری تھا، اس کے ادارے کیا کر رہے ہوں گے؟ اور پھر این آر او کرانے والا برطانیہ؟‘‘ اس نے مجھے بتایا کہ کم از کم چار ممالک ہمارے مقابل ہیں۔ پاکستانی ایجنسیوں پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کارکردگی میں بہتری کی گنجائش نہیں ۔ 
اسی موضوع پر بات جاری تھی کہ ایک شریکِ محفل نے اظہارِ نا پسندیدگی کیا۔اس نے یہ سوا ل کیا: ''اگر محمدؐ بن عبداللہ بدترین دشمنی پر قائم لوگوں سے صلحِ حدیبیہ کر سکتے ہیں تو ہم مذاکرات کی راہ کیوں چھوڑیں‘‘۔ کیا توہین آمیز شرائط مان نہ لی گئیں؟ کیا ''بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ اور ''رسول اللہ‘‘ کے الفاظ مٹا نہ دئیے گئے ؟ کیا عمرہ کی نیت کرلینے کے باوجود ہمارے نبی ؐ بیت اللہ کا طواف کیے بغیر نہ لوٹ گئے ؟ محمدؐ رسول اللہ کی مبارک حیات سے یہ سبق ملتا ہے کہ وقتی نہیں ، اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے کے لیے دیر پا منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ بعض اوقات اپنی انا کا شملہ نیچے کرنا ہوتاہے ۔ وقت حاصل کرنا اور خود کو مضبوط کرنا پڑتاہے ۔ طالبان ہمارے آئین کی حدود میں مذاکرات پر تیار نہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آئین اسوۂ حسنہ سے زیادہ مقدس ہے ؟ ‘‘ 
مسکراتے ہوئے اس نوجوان نے جذباتی آدمی کے ہاتھ میں دبا اخبار دیکھا ۔ زبانِ حال سے اس نے یہ کہا کہ مجھے معلوم ہے ، تم کس کے لکھے الفاظ دہرا رہے ہو۔ پھر یہ کہا ''صلحِ حدیبیہ مدینہ کے مسلمانوں اور مکّہ کے قریش کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ دوریاستوں کے درمیان کشیدگی ممکنہ حد تک کم کرنے کی ایک بے مثال کاوش اور دس سالہ امن کا وعدہ۔ ایک دوسرے پر حملہ آور نہ ہونے کی قسم۔ پاکستان اور طالبان پر اس کا اطلاق تم کیونکر کر رہے ہو؟ کیا دہشت گرد ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے نمائندے ہیں؟ صلحِ حدیبیہ کے بعد نبی کریمؐ لوٹ گئے تھے لیکن قریش اس کے بعد اگر مدینہ میں گھس جاتے، اگر چھپ چھپا کر وہ حملے جاری رکھتے تو محمد ؐرسول اللہ اس فتنے کا سدّباب نہ کرتے؟‘‘ پھر اس نے سگریٹ سلگایا اور یہ کہا ''یہ نازک معاملہ ہے ، بڑا ہی نازک معاملہ۔ ایسے میں کسی موضوع پرگرفت نہ ہونے کے باوجود قوم کی رہنمائی پر مصر رہنا ، اپنے نبیؐ کی حیات سے وہ سبق اخذ کرنا ، جو انہوںنے دیا ہی نہ ہو اور بے یقینی پھیلانا دانشور کو زیب نہیں دیتا۔ بعض اوقات کم علمی کا اعتراف آدمی کی عزت و احترام میں اضافہ کرتاہے‘‘۔ بظاہر وہ لاجواب ہو گیا لیکن کچھ دیر بعد میں باہر نکلا تو وہ ایک اور شخص کے سامنے صلحِ حدیبیہ کا اطلاق طالبان سے مذاکرات پر کر تا دکھائی دیا۔ دوسرا فریق بڑی عقیدت سے سر ہلارہا تھا۔ مجھے دیکھ کر صرف ایک لمحے کے لیے وہ ٹھٹکا لیکن شرمندہ پھر بھی نہ ہوا۔ 
اپنی غلطی پر شرمسار ہونا بڑی بات ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved