تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     31-01-2014

شیشہ گری ہے یہ شیشہ گری

زمین ظلم سے بھر گئی ۔ فرمایا: خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا اور یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ پائیدار امن اور استحکام کے لیے معاشرے کو اتفاقِ رائے درکار ہوتاہے ۔ تعصبات کی نمائش سے انتشار اور افتراق کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا... الامان والحفیظ، الامان والحفیظ!
ٹی وی پر رستم شاہ رند کا خطبہ سنتے اندیشہ ہوا۔ شاید اب وہ ارشاد فرمائیں کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ، ملّا فضل اللہ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان کی بیعت کر لیں ۔ ریاست بھی ایک چیز ہوتی ہے ، خدا کے بندو، ریاست۔ جان و مال کی محافظ اور امن کی ضامن، جس کے بغیر معاشرہ ثمر بار تو کیاہوگا، اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ اس کی تقدیس ہوتی ہے اور آئین کی ۔ ریاست کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اولین موقع پاتے ہی بے لگام چلے آتے، قبائلی معاشرے میں محسنِ انسانیتؐ نے حکومت قائم کرد ی... میثاقِ مدینہ ! مشرک، یہودی اور مومن مملکتی امور میں ایک قوم مانے گئے اور ان سب کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائی گئی ۔ان سب کے اتفاقِ رائے سے ختم المرسلینؐ نے بذاتِ خود چیف ایگزیکٹو، سپہ سالار ِ اعظم اور چیف جسٹس کی ذمہ داریاں قبول کیں ۔ اس کمال سے امین ، صادق اور عادل نے اپنا فرض نبھایا کہ ابد الآباد تک کے لیے قندیل ہو گئے ۔تاریخ نے کروٹ لی اور وقت گزرنے کے ساتھ پورے کرہ ٔارض پر تمام تر انسانیت نے قانون کے سامنے جواب دہی کا تصوّر قبول کر لیا۔ اس سے پہلے آدمیت کس حال میں تھی ؟ بھیڑیوں کے رحم وکرم پر !
تین دن ہوتے ہیں : ٹیلی ویژن پر جمعیت علمائِ اسلام کے ایک معتبر رہنما کو کہتے سنا : اگر کوئی شریعت یا پختون روایات کا احترام نہ کرے گا تو معاف نہ کیا جائے گا۔ کون سی شریعت؟ طالبان جس کے مدعی ہیں ؟ داڑھی ماپنے اور شٹل کاک برقعہ مسلط کرنے کی وحشیانہ قبائلی روایات؟ 
مسلمان جہاں کہیں آزاد ہوں گے ، جس طرح کہ ترکی اور ملائیشیا میں، لازماً وہ شرعی قوانین کی طرف جائیں گے مگر آزاد تو ہوں ،اپنے پائوں پر کھڑے تو ہوں ۔ اپنی معیشت تو استوار کریں کہ استعمار سے چھٹکارا پائیں ۔ نظامِ عدل وہ قائم کریں اور ریاست اپنے فرائض ادا کرنے کے قابل ہو سکے ۔ 
پختون روایات ؟ کردار قوموں اور قبیلوں کا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک شخصی چیز ہے ۔ایک ہی گھر میں ہر آدمی مختلف۔ لسانی اور نسلی گروپوں کی ثقافت ہوتی ہے ، رواج اور صدیوں میں تشکیل پانے والا ان کا مزاج۔ خوبیاں ہوتی ہیں اور خامیاں بھی ۔ پختونوں کو اپنی روایات عزیز ہیں تو سبحان اللہ ۔ کسی کو اعتراض کیا۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے خطبہ حجتہ الوداع میں یہ ارشاد کیا تھا: عربی کو عجمی پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ سے۔ اور تقویٰ کیا ہے ؟ ذاتی زندگی میں خود اپنی نگہبانی ،پاکیزگی اور انصاف۔ اجتماعی حیات میں ہرحال میں گنوار پن اور ظلم و زیادتی سے گریز۔ حتیٰ کہ پھر زندگی بالیدہ ہو اور رفعت پائے۔ 
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے 
رستم شاہ مہمند اپنے منصب کی نزاکت سے آگاہ نہیں ۔ یک طرفہ اور تعصب میں گندھی گفتگو ۔ان کی آرزو ہے کہ طالبان کے قیدی رہا کر دئیے جائیں‘ ان کے مالی نقصان کا ازالہ ہو اور فوج اپنی سرزمین کا یہ حصہ خالی کردے۔ یہاں تک کہہ دیا کہ حکومتِ پاکستان کو اپناخلوص اور اختیار ثابت کرنا ہوگا۔ ٹھیک اس وقت منصف مزاج رحیم اللہ یوسف زئی نے یہ کہا:امن کے لیے ریاست کی سنجیدگی آشکار ہوگئی ۔ اب طالبا ن کو مثبت اندازِ فکر اختیار کرنا ہوگا ۔ ریاست اپنے خلوص کی شہادت کس طرح فراہم کرے؟ رستم شاہ مہمند ایسے شخص کو کمیٹی کا رکن بنا دیا اور آثار یہ ہیں کہ وہی سب سے زیادہ متحرک ہوں گے ۔ پھر یہ خیال بھی آیا کہ طالبان کے حق میں وعدہ معاف گواہ بننے کی وہ تیاری فرما رہے ہیں ۔ 
کمیٹی کے دوسرے ارکان بھی طالبان کو ملحوظ رکھ کر چنے گئے ۔ ذہین و فطین میجر عامر ہیں ، ملّا فضل اللہ جن کے گرامی قدر والد کے مدرسے میں پڑھے ۔ برسوں سے امن کے وہ داعی ہیں ۔ طالبان ہوں یا ان کے مخالف‘ اپنے ہونٹ وہ سیے رکھتے ہیں۔ احتیاط کا دامن مستقل تھامے ہوئے۔ گویا میر تقی میر کے ہم نفس ہیں ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام 
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا 
کب سے چپ چاپ وہ معاہدے کی راہ ہموار کرنے میں لگے تھے۔ شیشہ گری ہے یہ شیشہ گری۔ رحیم اللہ یوسف زئی کو معتدل اور انصاف پسند مانا جاتاہے ۔ نمودِ ذات کے آرزومند نہیں۔ شرکت سے وہ گریزاں تھے کہ کڈھب لوگوں سے واسطہ ہے ۔ وزیراعظم کی التجا اور اصرار پہ مانے ۔ بارہ برس ہوتے ہیں ، ایک غیر ملکی اخبار کو ٹکا سا جواب دے دیا ۔کہا: مغربی پریس پاکستانی اخبار نویسوں سے حکومت نہیں ، ریاستِ پاکستان پہ تنقید کی امید رکھتا ہے۔ پختون روایات کا پورا ادراک ہے۔ استعمار کے لیے کبھی نرم گوشہ نہ تھا۔ چوتھا رکن وہ ہے جو برسوں سے طالبان کا مداح ہے۔ ملا عمر ہی نہیں‘ ایک ایک افغانی اور پاکستانی حواری کا بھی۔ 
چرچ کے بے گناہ غیر مسلموں کا قتلِ عام ، میجر جنرل ثنا ء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کا خونِ ناحق ،بنوں اور آر اے بازار کے حملوں کا رستم شاہ نے حوالہ تک نہ دیا ۔ کیا کبھی سیاچن کی بلندیوں پر دفاعِ وطن کے لیے زندگیاں ہتھیلیوں پر رکھنے والے انہیں یاد آئے، جہاں دشمن ہی نہیں سفاک موسم بھی قتل کے درپے رہتاہے ۔ کیا ان کا خون کم سرخ ہے۔ کیا وہ کسی کے فرزند‘ بھائی اور باپ نہیں؟ ملک کے کوچہ و بازار میں ، مارکیٹوں ، مساجد، امام بارگاہوں اور مزارات میں بم دھماکوں سے مارے گئے معصوم انسان ؟ کیا کبھی قرآنِ کریم کی یہ آیت اس منتظم اور مدبّر کی سماعت پہ اتری : جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو مار ڈالا ۔ کیا کبھی یاد آیا کہ فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے ۔ 
بے شک امریکہ مجرم ہے ، بے شک اس سے پہلے سوویت یونین قتلِ عام کا مرتکب ہوا۔ ان سے نمٹنا مگر افراد اور قبائل کی ذمہ داری ہے یا ریاست کی؟ وہ اگر اپنے فرض میں کوتاہی کی مرتکب ہوئی یا مجرمانہ تغافل و تعاون کیا تو اس کی اصلاح کرنی چاہیے یا سرے سے اس کا خاتمہ ہی کردیا جائے ۔ درد ہو تو کیا سر ہی کاٹ دیا جائے ؟ 
بول بول کر ہمارے گلے بیٹھ گئے۔ فارسی کے اس بے مثال شاعر حافظِ شیراز نے کہا تھا:بارہا گفتہ ام وبارِ ِ دگر می گوئی ۔ اصل چیز قانون کی پاسداری ہے حضور! دل و جان سے قانون کی پاسداری‘ باقی سب تفصیلات۔ ایک قابلِ اعتماد نظامِ عدل کی تشکیل۔ پختون روایات کیا اور رواج کیا؟ ملحوظ انہیں رکھا جاتاہے ، احترام برحق مگر وہ بجائے خود عدل کا متبادل نہیں ۔ رستم شاہ مہمند تھوڑی سی ہوش مندی کا مظاہرہ کریں ۔ براہِ کرم بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں ۔ خطابت نہیں ، انہیں ثالثی سونپی گئی ہے بلکہ رابطہ کاری ، وہ بھی حکومتی ایما پر۔ فریق بنے رہے تو اپنا فرض کیونکر وہ نبھائیں گے ؟ 
زمین ظلم سے بھر گئی ۔ فرمایا: خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا اور یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ پائیدار امن اور استحکام کے لیے معاشرے کو اتفاقِ رائے درکار ہوتاہے۔ تعصبات کی نمائش سے انتشار اور افتراق کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا... الامان والحفیظ، الامان والحفیظ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved